محمد حسن عسکری کو شمس الرحمن فاروقی اور انتظار حسین دونوں استاد مانتے ہیں۔ فکشن پر مجھے ان کی تنقید پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا کیونکہ فکشن کے حوالے سے میرے اپنے تحفظات ہیں۔ پھر انہوں نے مغربی تنقیدی نظریات میں کچھ کا اتباع کیا تو کچھ سے تائب بھی ہوئے۔ شاعری کی تنقید کے حوالے سے ان کے بارے میں جو تھوڑی بہت جانکاری ہوئی‘ وہ مایوس کن تھی‘ جبکہ اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ شاعری کیا ہے‘ اور جو شاعری نہیں ہے اُسے اگر شاعری قرار دیا جا رہا ہے تو ساری خرابیوں کی جڑ یہی ہے اور اگر آج عمدہ شاعری تخلیق نہیں کی جا رہی تو اس کا واحد ذمہ دار نقاد ہے جو عمدہ شاعری کی تعریف تو کرتا ہی ہے کہ یہ اس کی مجبوری بھی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ وہ ادنیٰ شاعری کی تعریف میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے نہیں چوکتا جس کا نتیجہ یہی ہے کہ شاعر اور قاری اسی کو شاعری سمجھ کر وہیں بریک لگا لیتے ہیں جہاں پر وہ موجود ہوتے ہیں۔
گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن دونوں میرے دوست بھی ہیں اور مہربان بھی‘ نقادوں کی صف اوّل میں جن کا شمار ہوتا ہے۔ دونوں حضرات کے علیحدہ علیحدہ انٹرویوز کے حوالے سے پہلے بھی کہیں عرض کر چکا ہوں کہ بقول شمس الرحمن فاروقی‘ ہم کسی کے بارے میں رائے دینے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کس کا آدمی ہے جبکہ نارنگ صاحب کا ارشاد ہے کہ غیر جانبدارانہ اور بے لوث تنقید کہیں نہیں پائی جاتی۔ نقاد کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور اس کی سلیٹ صاف نہیں ہوتی۔ یہ ہمارے عہد کے دو جغادری نقادوں کے ارشادات ہیں جن کا ڈنکا پورے برصغیر میں بجتا ہے بلکہ اس کے باہر بھی‘ سو نقاد اور تنقید کی اصل صورتحال کیا ہے‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور آج کے نقاد پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ وہ شعراء کے لیے کیسی رہنمائی ارزانی کر رہا ہے کیونکہ یہ طے کر دیا گیا ہے کہ ان سے کسی غیر جانبداری یا ایمانداری کی توقع نہ رکھی جائے۔
ایک چیز اگر فالتو ہو اور اس کا کوئی نقصان نہ ہو تو وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جو فالتو بھی ہو اور نقصان رساں بھی۔ چنانچہ اس میں دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نقاد کو سرے سے پتا ہی نہ ہو کہ شاعری کیا ہوتی ہے یعنی وہ شاعری اور ناشاعری میں امتیاز ہی کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو‘ وہ تو کسی حد تک قابل معافی ہے‘ لیکن جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی تیسرے یا دوسرے درجے کی شاعری کی بھی تعریفوں کے پُل باندھتا رہے‘ اس کی نیت پر شبہ ہی نہیں اس پر یقین بھی کیا جا سکتا ہے۔ تخلیق کار کا کام اگر تخلیق ہے تو نقاد اس کی تخلیق نو کرتا ہے‘ لیکن اگر وہ تخلیق‘ تخلیق ہی نہ ہو اور بالکل معمولی یا درمیانے درجے کا مال ہو تو نقاد اس کی تخلیق نو کیا کرے گا‘ اور اگر کرے گا بھی تو وہ تخلیق نو بھی ویسی ہی ہو گی جیسی کہ تخلیق تھی۔ ایسا نقاد کسی عمدہ تخلیق کی بھی تخلیق نو کرنے سے قاصر ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔
اشعار کی شرح لکھنے کا کام بھی یہی بزرگ کرتے ہیں حالانکہ شاعری وہ ہے جس سے خاص قاری بھی لُطف اندوز ہو سکے اور عام بھی۔ اگر عام فہم ہونے کی بجائے شعر کو ایک مِتھ اور گورکھ دھندہ بنا کر پیش کر دیا جائے تو یہ بھی کوئی شاعری نہ ہوئی۔ تجرید کا معاملہ اور ہے کیونکہ ایک تو وہ گورکھ دھندہ نہیں ہوتی اور دوسرے اس سے لطف اندوز بھی ہوا جا سکتا ہے اور لطف اندوز ہونے کے لیے بھی شعر میں لطفِ سخن پیدا کرنا ہوتا ہے اور اس کو تازگی کا تڑکا بھی لگانا ہوتا ہے ورنہ یہ محض موزوں گوئی ہے شاعری نہیں۔ آپ اسے شوقیہ یا اگر قدرے بہتر ہو تو گزارے موافق شاعری بھی کہہ سکتے ہیں ‘جس کی کوئی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ میں اگر کچھ لکھتا ہوں تو وہ صرف گپ شپ ہوتی ہے‘ تنقید نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ موجودہ کھیپ میں سے ایک بھی بڑا شاعر نہیں نکلتا اور میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نقادکا قبلہ درست نہیں ہے۔
شاعری پر ایک اور قیامت بھی ٹوٹی ہوئی ہے جو سیاسی کے ساتھ ساتھ قومی بھی ہے اور سماجی بھی۔ نظم کا عالم یہ ہے کہ وہ سیاسی بھی ہے
اور بے معنی بھی‘ حتی کہ نوبیل انعام سے بھی اسی شاعری کو نوازا جاتا ہے جو سیاسی ہوتی ہے یا سہیلی بوجھ پہیلی۔ گویا شاعری کی جنگ سیاست وغیرہ نے لے لی ہے کہ یہ شاعر کو قبول عام بھی جلد دلاتی ہے اور شہرت بھی۔ ہماری اپنی شاعری میں اس کی نمایاں مثالیں اقبال اور فیض ہیں۔ اقبال تو خیر قومی اور سیاسی تھے ہی‘ فیض کی شاعری میں سے بھی اگر سیاست نکال دی جائے تو بہت تھوڑا کچھ ہی باقی بچتا ہے۔ میر اور غالب سیاسی نہ ہونے کے باوجود بڑے تھے ‘وہ اپنے پائوں پر کھڑے تھے کہ انہوں نے سیاسی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیا۔ گویا شاعری کو خالص رہنے ہی نہیں دیا گیا۔ سیاسی‘ قومی اور سماجی نظریات پر عمل ویسے بھی ہو سکتا ہے کہ آپ سیاستدان بن کر سیاست میں داخل ہو جائیں۔ ہیومن رائٹسٹ کا علم آپ ویسے بھی اٹھا سکتے ہیں۔ شاعری بیچاری کا کیا قُصور ہے؟
ایک سیاستدان یا سماجی کارکن کبھی شاعری کا سہارا نہیں لیتا جبکہ ہمارے بعض شاعروں نے سب کچھ خلط ملط کر کے شاعری کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور اسے شاعری رہنے ہی نہیں دیا۔ لیکن ہمارے نقاد کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شاعر کسی نہ کسی حد تک سیاسی بھی ہوتا ہے اور وہ اس کا اظہار اگر شاعری میں کرے گا بھی تو اس میں پلڑا شاعری کا بھاری ہو گا۔ سیاست محض اشاروں تک محدود ہو گی‘ یہ نہیں کہ آپ اس کے ذریعے سیاسی لیڈر بننے کی بھی کوشش کریں اور اگر نہ بھی ہو سکے تو مقبولیت اور شہرت کا بونس تو ہے ہی۔ ہمارے نقاد کی نظروں سے یہ بات بھی اوجھل ہے کہ نثری نظم جو بعض اوقات صرف نثر کا ایک ٹکڑا ہوتی ہے ‘جس کے جملوں کو توڑ توڑ کر نظم بنا لی جاتی ہے‘ اس کی طرف بھی توجہ دی جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ میں خود نثری نظم کا شروع ہی سے بہت بڑا حامی ہوں لیکن اس میں نظمیت اور وہ زور بیان بھی ہونا چاہیے جو اس کا تقاضا ہے اور اس کو نثر سے نظم بناتا ہے‘ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارا نقاد دھڑے بازی اور پی آر کے چکروں سے باہر نہیں نکلتا اور دوسرے سے زیادہ ہر دلعزیز ہونے کی سعی میں رہتا ہے اور جو شاعری نہیں ہے اس پر شاعری کی مہر ثبت کر کے ایک تو اپنے اعتبار کی گلا گھونٹتا ہے‘ اپنی عزت میںکمی کا باعث بنتا ہے اور دوسرے نئے شاعروں کو بھی اُسی ڈگر پر رکھنا چاہتا ہے جس پر وہ خود چل رہا ہے اور شاعری کا صحیح معنوں میں بیڑا غرق ہو رہا ہے! ع
ایں کاراز تو آید و مرداں ہمیں کُنند
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان حالات میں نقاد کی کوئی گنجائش موجود یا باقی رہ گئی ہے؟ چنانچہ غفلت کے غلاف سے باہر نکل کر اسے اپنے لیے گنجائش خود پیدا کرنی ہو گی اور بالآخر وہ کچھ کرنا ہو گا جو اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اُسے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا اور خواب سے بیدار ہو کر میرٹ اور انصاف‘ غیر جانبداری اور ایمانداری کا راستہ اپنانا ہو گا کہ اسی میں اس کی اپنی نجات بھی ہے اور شاعری کا مستقبل بھی سدھر سکتا ہے!
وماعلینا الاالبلاغ !
آج کا مطلع
بھلا دیا اُسے جس کو بھلا نہ سکتے تھے
گھر آ گئے جو کبھی واپس آ نہ سکتے تھے