تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     19-02-2016

ٹیکس دہندگان کے ساتھ ظلم

ہمارے سیاستدان اور اُن کے چہیتے سرکاری افسران ٹیکس دہندگان کے بارے میں منفی تاثر پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جبکہ نجی ٹی وی چینلوں کے ''باخبر ‘‘تجزیہ کار ہر فن مولا میزبان اس کورس میں اپنی آواز شامل کرکے عوام کو بتاتے نہیں تھکتے کہ آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ ہی انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ مکمل طور پر من گھڑت اور خودساختہ بیانیہ ہے اور اس سے پھیلانے والوں کی بدنیتی کا اظہار ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت 60 ملین پاکستانی اٹھاون اقسام کے ود ہولڈنگ ٹیکسز ادا کرتے ہیں، لیکن اُنہیں ٹیکس ادا نہ کرنے کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔ ان سے کل اکٹھے ہونے والے براہ ِ راست ٹیکس کا 65 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ ایک ملین افراد ٹیکس کے گوشوارے جمع کراتے ہیں، اس لیے تاثرجاتا ہے کہ شاید ٹیکس ادا کرنے والے یہی افراد ہیں۔ یہ غلط بیانی پاکستان میں ایک سچائی تسلیم کرلی جاتی ہے ، کوئی بھی حقائق کو جانتے ہوئے اس کی تردید کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ 
حقیقت کہ پچا س ملین سے زائد افراد ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں حالانکہ ان کی قابل ِ ٹیکس آمدنی نہیں ہوتی۔قانون کے مطابق وہ ٹیکس کے گوشوار ے جمع کرانے کے پابند نہیں، اور اُنہیں نان فائلر قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ودہولڈنگ ٹیکس کے تحت ان افراد کو جرمانہ ہوتا ہے اور انہیں رقوم کی ترسیل پر بھاری ایڈوانس ادا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ایڈوانس کی رقم واپس لینا چاہتے ہیں تو اُنہیں ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے ہوں گے، 
حالانکہ یہ رقم کسی قانون کے بغیر ایف بی آر نے روکی تھی۔ یہ بنیاد ی حقوق کی بابت بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، کیونکہ آئین کے مطابق کسی شہری کو اُس کی دولت اور جائیداد، جس پر ریاست کا کوئی اختیار نہ ہو، سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اُس کی آمدنی قابل ِ ٹیکس نہیں تو وہ ٹیکس ادا کیوں کرے؟ اُسے اپنی رقم واپس لینے کے لیے گوشوارہ جمع کرانے کے لیے کیوں مجبور اور ایسا کرنے کی صورت میں اُسے ہراساں کیوں کیا جائے؟تاہم ملک کا سوچ سمجھ رکھنے والا طبقہ اس صورت ِحال سے اتنا لاتعلق رہتا ہے میڈیا یا کسی اور فورم پر اس پرکوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا، چنانچہ لاچار شہری اسے ایک طے شدہ اصول سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور ہیں ۔ دراصل ہماری قوم ناانصافی ، استیصال او ر اپنے حقوق سلب کرنے کو ایک معمول سمجھ کر برداشت کرلیتی ہے۔ عدالتوں، ٹیکس بار اور دیگر بارز سے گمان رکھا جاتا ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے ، لیکن اپنی نظروں کے سامنے قانون کی پامالی پر یہ طبقہ بھی خاموش رہتا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق 2015ء کے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد دس فروری 2016 ء تک صرف سات لاکھ تک تھی حالانکہ مختلف قسم کی ترغیبات دی گئی تھیں۔ ایف بی آر کو توقع ہے کہ ٹیکس ایمنیسٹی سکیم، جس کی تاریخ میں توسیع کی گئی ہے اورہوسکتاہے کہ ہم دوسے تین ماہ مزید توسیع دیکھیں، کی وجہ سے گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں ہوشربا حد تک اضافہ 
ہوجائے گا۔ وہ تاجر جو ٹیکس گوشوارہ جمع نہیں کراتے ، وہ بھی بجلی اور موبائل فون بلوں پر ایڈوانس ٹیکس جمع کراتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کا سیکشن 235(4) (a)کہتا ہے ۔۔۔''اگر ٹیکس دہندہ کوئی کمپنی کی بجائے کوئی فرد ہوتو اُس سے ماہانہ تیس ہزار روپے بجلی کے بل کی وصولی کو کم از کم ٹیکس سمجھا جائے گااور وہ ا س سے ریفنڈ کا حقدار نہ ہوگا۔‘‘ قانون ایڈوانس ٹیکس جمع کرانے والے کو بجلی کے بل کی ادائیگی کے ساتھ ''ٹیکس دہندہ ‘‘تصور کرتا ہے ، چاہے اُس نے گوشوارہ جمع نہ کرایا ہو۔ کیا ایک تاجریا کسی اور کاروباری شخص پر بجلی کے بل کے ساتھ سال میں چھتیس ہزار روپے ٹیکس وصول کرنے کاکوئی جواز نکلتا ہے؟چاہے اُسے کاروبار میں نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے ، اُسے یہ رقم ریفنڈ نہیںکی جاتی ۔اگرا یسا ہے تو پھر وہ گوشوارہ کیوں جمع کرائے؟ وہ حلقے جو انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 236P کے مطابق تاجروں کا کیس پیش کرتے ہیں، وہ بھی قانون کے اس پہلو کو نظر انداز جاتے ہیں۔ 
یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ ایف بی آر نے سیکشن 235(4)(a) کے ذریعے گزشتہ چند ایک برسوںسے چھوٹے تاجروں سے اربوں روپے ہتھیالیے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں ٹیکس چور قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک شخص کی قابل ِ ٹیکس آمدنی نہیں تو پھر اُسے بھاری ایڈوانس ٹیکس ادا کرنے یا فائل جمع کرانے کے لیے کیو ں مجبور کیا جاتا ہے؟یہاں لاکھوں افراد ایڈوانس میں انکم ٹیکس ادا کررہے ہیں حالانکہ اُن کی آمدن قابل ِ ٹیکس آمدنی سے کم ہے۔ مثال کے طور پر جب طلبہ موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو وہ اس رقم پر انکم ٹیکس ادا کررہے ہوتے ہیں جس پر اُن کے والدین پہلے ہی ٹیکس ادا کرچکے ہوتے ہیں۔ اگر حکومت ٹیکس بیس میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تو لازمی ہے کہ پہلے اس طرح کے انواع و اقسام کے ٹیکسز ختم کیے جائیں۔ طلبہ، بیوائوں اور غریب افراد سے اٹھاون مختلف اقسام کے ودہولڈنگ ٹیکسز وصول کرنا ظلم ہے۔ ان افرا دکو گوشوارے جمع کرانے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایف بی آر کے افسران نے پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ ریفنڈ کی رقوم حکومت کے پاس ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اٹھارٹی کے مطابق سموں کی بائیومیٹرک تصدیق سے پہلے پاکستان میں 140,022,516 موبائل فون صارفین تھے۔ پندرہ دسمبر 2015ء تک کے پی ٹی اے کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اب موبائل فون صارفین کی تعداد بارہ کروڑ اٹھاون لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے چھ کروڑ کے قریب چودہ فیصد انکم ٹیکس اور 19.5 فیصد سیلز ٹیکس ایڈوانس میں اداکرچکے ہیں ، لیکن صرف 1.7 ملین موبائل فون صارفین نے ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے۔ ایف بی آر نے پی ٹی اے کے پاس موجود اعدادوشمار تک رسائی حاصل کرنے کی زحمت نہ کی اور ان میں سے انتہائی دولت مند افراد کو گوشوارے جمع کرانے کے لیے مجبور نہ کیا۔ اس کے برعکس اس نے ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے ہر کسی سے بھاری نرخوں پر ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا۔ 
زیادہ تر موبائل فون صارفین فائلیں جمع نہیں کراتے، لیکن وہ چودہ فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس جمع کراتے ہیں۔ اگروہ اپنی رقم کی واپسی چاہتے ہیں تو اُنہیں آن لائن گوشوارہ جمع کراناہوگا، جو کہ عام افراد کے لیے بہت مشکل ہے۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ وہ ٹیکس کے پیشہ ور ماہرین کی چال بازیوں کا شکار ہوجائیں گے ، چنانچہ وہ ودہولڈنگ ٹیکس ادا کرکے ہی خوش ہیں۔ اس طرح ایف بی آر کے لیے اپنے اہداف حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوجائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved