تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     19-02-2016

وزیراعظم اور نیب

قومی احتساب بیورو (نیب ) کے ملک کے مختلف حصو ں میں موجود دفاتر میں جیسے ہی کوئی شکایت درج ہوتی ہے ، اس ادارے کے چیئرمین کی میزپر پڑے کمپیوٹر کی اسکرین پریہ شکایت ایک نمبر کی صورت میں روشن ہوجاتی ہے۔ درج ہونے والے ہر شکایت ایک ایسے خود کار نظام کو حرکت میں لے آتی ہے جس کے تحت نیب کے تفتیش کار اسے معین وقت کے اندر اندر نمٹانے کے پابند ہوجاتے ہیں۔ ہر آنے والی درخواست کا پہلا مرحلہ انکوائری، دوسرا تفتیش ، تیسرا عدالت میں قابل قبول شواہد کی تیاری اور چوتھا عدالت میں مقدمہ قائم کرنا ہے۔ ان چاروں مراحل میں سے ہر ایک کے لیے وقت مقرر ہے اور کسی بھی مرحلے میں اگر تفتیش کارکو زیادہ وقت درکار ہو تو اسے اپنے دفتر کے انچارج سے لے کر چیئرمین تک کو قائل کرناہوتا ہے کہ دیے گئے وقت میں تفتیش کیوں مکمل نہیں ہوسکتی ۔ اپنے سینئر افسروں کے سامنے جواب دہی اتنا مشکل کام ہے کہ ہر تفتیش کار دستیاب وقت میں ہی جان لڑا کر تفتیش مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک درخواست جیسے ہی ایک سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو چیئرمین کی میز پر پڑا کمپیوٹر ایک بار پھر جاگ جاتا ہے اور دیکھنے والے کو صورتحال سے آگاہ کردیتا ہے۔ مقررہ وقت میں ہر درخواست پر کارروائی کے نظام اور اس نظام کے رکھوالے کمپیوٹر نے نیب کے اس کلچر کو مکمل طور پر بدل ڈالا ہے جو جنرل پرویز مشرف نے سیاستدانوںکوبلیک میل کرنے کے لیے اس ادار ے میں رائج کیا تھا۔ وہ زمانہ لد گیا جب نیب کا کام بدعنوانی کا خاتمہ نہیں بلکہ بدعنوانوں کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔ اب نیب کا کوئی افسر تو کیا اس کے چیئرمین کے پاس بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کیس کو بلا وجہ لٹکا کر ملزموں سے پیسے اینٹھ سکے، نہ حکومت کی ساخت ایسی ہے کہ اسے اپنے مخالفین کو ڈھب پر لانے کے لیے اس ادارے کی سیر کرانی پڑے۔ 
یہ بہتری صرف نیب تک ہی محدود نہیں بلکہ آمریت کے ملبے میں دفن تمام حکومتی اداروں کے ڈھانچے جمہوری صور پھونکے جانے کے بعد اپنی اپنی قبروں سے ہڈیاں کڑ کڑاتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں۔ عوام، پارلیمنٹ، حکومت اور میڈیا مل جل کر ان ڈھانچوں کو کام کرنے کے لیے ہانکتے چلے جارہے ہیں اور یہ بے چارے بھی لشتم پشتم کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دنیا بھر کی تاریخ گواہ ہے کہ جیسے ہی کسی ملک کا دستور پوری طرح بروئے کار آتا ہے اس ملک کے ادارے از خود اپنی اپنی دستور ی پوزیشن سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عمل میں تھوڑے بہت شور شرابے کے بعد ریاست کی چولیں بیٹھ ہی جاتی ہیں اور اس کا ہر پرزہ حرکت میں آجاتا ہے۔نیب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اپنے چیئرمین کی وجہ سے یہ ادارہ دوسروں کی نسبت زیادہ جلدی اور زیادہ بہتر ہوکر اپنا کام کرنے لگا۔ اس کی یہی تیزی اس شکایت کی بنیاد ہے جو وزیراعظم کو اس سے پیدا ہوئی ہے ۔گستاخی معاف، ہمارے وزیراعظم سمیت ملک میں 
کوئی ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جس کا سیاسی تجربہ آمریت سے آلودہ نہ ہو۔ پاکستان کے حکومتی کارپردازوں اور دیگر سرکردگان کو یہ ادراک ہی نہیں کہ ایک نیم دستوری ریاست جب مکمل دستوری ریاست کا روپ ڈھال رہی ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ اس میں کسی کو کوئی قصور نہیں بلکہ ہماری تاریخی مجبوری ہے کہ پے درپے آمریتوں کی وجہ سے سیاستدان تو سیاستدان، ہمارے سرکاری افسران، فوج اور عوام کو بھی پوری طرح اندازہ نہیں کہ ایک مکمل جمہوری و دستوری ریاست کیا ہوتی ہے اور کیسے آگے بڑھتی ہے۔ اس کم علمی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہی ہماری بہت سی توقعات و خواہشات حقیقت کی دنیا سے بہت دور ہوتی ہیں۔ وزیراعظم کا یہ شکوہ کہ نیب لوگوں کو بے جا تنگ کررہا ہے، دراصل ہماری اس اجتماعی ناتجربہ کاری کا ہی شاخسانہ ہے۔اس معاملے میں پختہ جمہوری رویہ یہ تھا کہ وزیراعظم نیب کے بارے میں میڈیا کے سامنے تقریر کرنے کی بجائے صدر مملکت کو ایک خط لکھ کر صورتحال کے بارے میں آگاہ کرتے کیونکہ دستوری اعتبار سے نیب وزیراعظم کو نہیں بلکہ صدر کو جوابدہ ہے۔وزیراعظم نے اگر ایوانِ صدر کا راستہ اختیار کیا ہوتا تو اس سے جہاں ہماری دستوری روایات مضبوط ہوتیں وہاں یہ تاثر بھی پیدا نہ ہوتا کہ وزیراعظم اپنے خلاف شکایات یا اپنے دوستوں کے خلاف شکایات کی وجہ سے نیب پر برہم ہیں۔ 
نیب میں وزیراعظم کے خلاف اس وقت جو کیسز کھلے پڑے ہیں ان کے جھوٹ ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے تھے لیکن مجبوری یہ ہے کہ انہیں کھولنے کا حکم عدلیہ سے آیا ہے اور عدلیہ کیوں اتنے پرانے کیس کھولنے پر مصر ہے ، اس کا جواب ۔ جہاں تک تعلق ہے وزیراعظم کے دوستوں کا تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ ان کے ایک دوست کی خدمت میں نیب نے پینتالیس سوالوں پر مبنی ایک سوالنامہ پیش کیا جس کے جواب میں انہوں نے جو کیا اسے آئیں بائیں شائیں کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور صاحبِ رسوخ بزنس مین کے بارے میں کچھ ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں جن کا افشا ء غالباََ آصف علی زرداری کو پسند نہیں ہوگا۔ پھر وزیراعظم کی اپنی کابینہ کے ایک رکن کے بارے میں سٹیٹ بینک نے نیب سے درخواست کررکھی ہے کہ وہ ان موصوف کی ایک مشکوک بینکنگ ٹرانزیکشن کے بارے میں پتا لگائے۔اگرچہ نیب اب تک ان میں سے کسی ایک کیس پر بھی حتمی نتائج مرتب نہیں کرپایا لیکن ان حالات میں وزیراعظم کا شکوہ بجا بھی ہوتو انہیں زیبا یہی تھا کہ خاموش رہتے۔ اگر کسی ایک آدھ معاملے میں کوئی غلطی بھی ہوگئی تھی تو اس کا ازالہ خاموشی سے بھی ہوسکتا تھا، ان کے بیان سے شہہ پاکر اب ہر بدعنوان خود کو مظلوم قرار دے کر نیب کو مطعون کرنے کی کوشش کرے گا۔ کیا وزیراعظم ایسا ہی چاہتے ہیں؟
یقینا وزیراعظم کی یہ خواہش نہیں ہوگی کہ نیب بدعنوانوں کو نہ پکڑے ، اس لیے نیب کو وزیراعظم کی تنقید کو مثبت انداز میں لے کر شفاف انداز میں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ نیب کے چیئرمین قمرزمان چودھری اپنے ادارے کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی رکھیں کہ غیر مشروط عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے انہیں بہت کچھ کرنا ہے۔ سیاستدانوں کے احتساب سے پہلے انہیں یہ ثابت کرنا ہے ان کا ادارہ کوئی کیس اس لیے نہیں کھولتا کہ اس کے ذریعے مخصوص سیاسی نتائج پیدا کیے جاسکیں بلکہ اس لیے کھولتا ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکے۔ نیب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا کام کرپشن کے مرتکب افراد کو پکڑنا ہے نہ کہ خوف وہراس پھیلا کر بیوروکریسی کو فیصلے کرنے سے ہی روک دینا۔ چلتے ہوئے پروجیکٹس کے ٹھیکیداروں سے پوچھ گچھ، پچیس پچیس سال پرانے سودوں کا حساب کتاب یا معمولی سی بات پر کسی کاروباری آدمی کی جواب طلبی ایسا طرزِ عمل ہے جو لوگوں کے دل میں اس کی عزت میں اضافہ نہیں کرے گا۔احتساب ضروری ہے مگر ایسا جو صرف احتساب ہو، اس میں سے سازش کی بو نہ آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved