جب ساتویں صدی میں اسلامی افواج نے عرب کے صحرا سے نکل کر دیگر خطوں کی طرف پیش قدمی کی اور اُن کے حصے میں حیرت انگیز فوجی فتوحات آئیں تو مسلمانوں کو یقین تھا کہ یہ کامیابی آسمانی طاقتوں کی عنایت کا نتیجہ ہے۔ اگر اُن فتوحات کا معروضی انداز میں جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان لشکر کو تیز رفتاری، جوش اور بہتر عسکری حکمت عملی کے علاوہ بھی بہت سے عوامل کی مدد حاصل تھی۔ اپنی شاندار کتاب، ''In the Shadow of the Sword‘‘ میں ٹام ہولینڈ (Tom Holland) ایرانی اور رومی سلطنتوں کی شکست اور اسلام کے عروج کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ مصنف ان واقعات کو قدیم دور کے اختتام سے تعبیر کرتا ہے۔
اسلام کی فتوحات سے ایک صدی پہلے، 541ء میں رومی سلطنت کے مشرقی حصوں میں طاعون کی ہلاکت خیز وبا پھوٹ پڑی۔ اس سے استنبول اور ایرانی سلطنت کے حصے بھی متاثر ہوئے۔ اُس زمانے میں مصر سلطنت روما کو خوراک پہنچانے والی سرزمین تھی۔ اسکندریہ سے غلے سے بھرے ہوئے جہاز روانہ ہوتے اور سلطنت کے لاکھوں افراد کی غذائی ضروریات پوری ہوتیں؛ تاہم اُس سال (جب طاعون کی وبا پھوٹی) جہازوں پر غلہ معمول سے زیادہ لدا ہوا تھا‘ اور اس کے نچلے حصے میں وہ متاثرہ چوہے بھی سلطنت میں پہنچ گئے تھے جو طاعون کا باعث بنے۔ اس خوفناک بیماری نے دیکھتے ہی دیکھتے سلطنت بھر کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں تباہی مچانا شروع کر دی۔ استنبول سے یہ بیماری یورپ کی طرف بڑھی اور یونان اور ایران کو بھی متاثر کیا۔ اگرچہ ہلاکتوں کا دستاویزی ریکارڈ میسر نہیں لیکن اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس سے متاثر ہ علاقوں کی ایک تہائی آبادی ہلاک ہو گئی تھی۔
طاعون کی وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد بھی اس کا مہیب سایہ دیر تک رہا۔ محصولات اور افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے سلطنت کی فعالیت متاثر ہوئی؛ چنانچہ یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ رومی سپاہ کو نئی بھرتی میں مشکل پیش آئی۔ بہت سے علاقے ایسے تھے جہاں سے انسانی آبادی کا نام و نشان تک باقی نہ رہا‘ اور کبھی آباد دیہات اور قصبوں میں مدتوں بھوکے بھیڑیے غراتے سنائی دیتے تھے؛ تاہم رومی سلطنت کو صرف اسی بحران کا ہی سامنا نہ تھا۔ وسط ایشیائی خطوں میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہنز قبائل (Huns) بہتر سرزمینوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ وہ مشرقی یورپ کی طرف بڑھے اور انہوں نے وہاں مقیم قبائل کو رومی سلطنت کے مغربی صوبوں کی طرف دھکیل دیا۔ اس یلغار کی وجہ سے رومی فورسز کے دستے بے پناہ دبائو میں آ گئے۔ کبھی انتہائی طاقتور رہنے والی رومی سلطنت کو کمزور کرنے والے یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والے ان بحرانوں کی کیا وضاحت پیش کی جائے؟ زیادہ تر افراد کو یقین ہے کہ یہ خدا کے غضب کا نتیجہ تھے۔
600 ء میں یہ بیماری یروشلم اور نواحی علاقوں میں بھی پھوٹ پڑی اور یہاں بھی انسانی آبادی کو گھٹا دیا۔ چونکہ لق و دق وسیع صحرا ایک بفر زون کا کام کر رہا تھا، اس لیے عرب کے قبائل اس بیماری سے محفوظ رہے۔ ایک رومی مصنف اس صورت حال کو اس طرح بیان کرتا ہے۔۔۔ ''کبھی لاتعداد فوجی دستے موجود تھے، پھر اُن کی تعداد بہت حد تک کم ہو گئی، لیکن اس دوران عرب قبائل کی طاقت بیماری سے محفوظ رہی‘‘۔ محصولات اور افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے دفاعی فورسز کی تعداد کم ہوئی؛ چنانچہ رومیوں نے عرب کے صحرا سے ملحق علاقوں کو خالی کر دیا کیونکہ اُنہیں روایتی دشمن، ایرانی سلطنت کی طرف سے فوجی کارروائی کا خطرہ لاحق تھا۔ 606ء میں ایرانی افواج نے رومی شہر، دارا (Dara) کا محاصرہ کیا۔ تین سال کے طویل محاصرے کے بعد اس پر قبضہ کیا‘ اور پھر وہاں سے اناطولیہ اور یروشلم کی طرف بڑھیں۔ 615ء تک شام اور فلسطین پر بھی ایرانیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس وقت رومی شہنشاہ، ہرکولیس (Heraclius) نے جوابی حملے کا خطرناک منصوبہ بنایا، اور ایک ٹاسک فورس لے کر شمالی آرمینیا کے پہاڑی سلسلے کو عبور کرکے ایران میں داخل ہو گیا۔ یہاں کچھ فتوحات حاصل کرنے کے بعد اُس نے خسرو کے جنرلوں میں سے ایک سے خفیہ معاہدہ کیا‘ اور اس جنرل نے خسرو کو قتل کرکے تخت پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں اُس ایرانی جنرل نے رومی سلطنت کے ساتھ امن کا معاہدہ کر لیا‘ اور یوں ان دونوں سلطنتوں میں ہونے والی طویل جنگ 628ء میں ختم ہو گئی۔
اس جنگ کی وجہ سے کرّہ ارض کی دونوں عظیم سلطنتوں کے مالی اور انسانی وسائل کو نقصان پہنچ چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 634ء میں عرب فوج کا غزہ کے قریب رومن ٹاسک فورس سے آمنا سامنا ہوا تو عربوں کو آسانی سے فتح حاصل ہو گئی؛ چنانچہ سلطنت کے ان حصوں نے‘ جہاں رومی فورسز موجود نہیں تھیں یا صحرا کے قریب کے وہ علاقے جو رومی جنرلوں نے خالی کر دیے تھے یا جہاں کی آبادی طاعون کی وجہ سے ختم یا کم ہو چکی تھی، عرب لشکر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس سے پہلے رومی علاقوں پر عرب دستے حملے کرتے تھے‘ لیکن رومی فورسز اُنہیں مار بھگاتی تھیں، لیکن اس مرتبہ صورت حال مختلف تھی۔ رومی فورسز کی شکست کی ایک اہم وجہ میدان سے غسّانی قبائل کی غیر موجودگی بھی تھی۔ یہ طاقتور عیسائی عربوں کا خوشحال قبیلہ تھا‘ جس کا رومی سلطنت کے ساتھ معاہدہ تھا، اور وہ کئی صدیوں سے روم کی ایک معاون فورس کے طور پر عرب کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں کو روک لیتے تھے۔ اس کے عوض اُنہیں رومی دربار سے سونا اور ٹائٹل ملتے تھے۔ یہ قبیلہ عیسائیت کے اُس شاخ کی پیروی کرتا تھا جو Monophysitism کہلاتی ہے۔ اس کا Byzantium چرچ سے تصادم ہو گیا۔ بعد میں انہیں اسلامی لشکر نے شکست دے دی اور وہاں سے لیونٹ کی طرف چلے گئے۔ یہ قبیلہ‘ جو کبھی علاقے کی ایک قابل ذکر قوت ہوتا تھا، آج اس کا شاید کسی کو نام بھی یاد نہیں۔
اسلامی تاریخ کے ایک طالب علم کے لیے غسّانی قبیلے کے انجام سے حاصل سبق واضح ہے۔۔۔۔ اسامہ بن لادن۔ جی ہاں، ایک مرتبہ الجزیرہ کو ریکارڈ شدہ بیان میں اُس نے کہا تھا۔۔۔ ''اگر ہم مسلمانوں نے غیر ملکی آقائوں کے لیے کام کرنا ہے تو ہم اپنے آبائواجداد غسّانیوں جیسے انجام سے دوچار ہوں گے۔ وہ رومی سلطنت سے ٹائٹل وصول کرتے اور حملہ آور عربوں کو ہلا ک کرکے سلطنت کا دفاع کرتے تھے۔ موجودہ عرب حکمرانوں کا بھی یہی وتیرہ ہے‘‘۔ اس پیغام میں بن لادن نے عرب کے حکمران خاندان پر الزام لگایا کہ وہ امریکیوں کے دست راست اُسی طرح بنے ہوئے ہیں‘ جس طرح ماضی میں غسّانی قبیلہ رومیوں کا۔ اب جبکہ امریکہ مشرق وسطیٰ سے اپنی موجودگی کم کرتا جا رہا ہے تو کیا کچھ عرب قبائل بھی غسّانی قبیلے کی طرح گمنامی میں چلے جائیں گے؟