تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-02-2016

روہی ‘قلعہ دراوڑ‘ جیپ ریلی اور بدانتظامی…(1)

میں گزشتہ چار دن صحرا میں تھا ۔صحرائے چولستان میں۔ خواجہ غلام فرید کی روہی میں۔ اس بار روہی میں پیلو تو کہیں نہ تھے البتہ خیموں کا ایک شہر تھا۔ یہ سب لوگ ''چولستان جیپ ریلی‘‘ دیکھنے یا حصہ لینے آئے تھے ۔ حصہ لینے والے تو سو سے کم تھے البتہ دیکھنے والے میرے جیسے بے تحاشا تھے۔ میلوں بکھرے خیموں میں اور کیمپوں میں رہائش پذیر شائقین کی صحیح تعداد کا تو علم نہیں کہ کتنے تھے اور ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ سب غیر سرکاری طور پر آئے تھے اور اپنے ذاتی بندوبست پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے ملک میں شماریات کا تو سرکاری سطح پر یہ عالم ہے کہ پاکستان کی آبادی کے بارے میں کسی کو صحیح پتہ نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار اٹھائیں تو اٹھارہ کروڑ ہیں۔ گوگل پر دیکھیں تو آبادی انیس کروڑ سے زائد ہے۔بھائی جان شرط لگانے پر تیار ہیں کہ یہ اعداد و شمار سراسر غلط ہیں اور حقیقی آبادی بائیس کروڑ ہے۔ معتدل نظریہ یہ ہے کہ آبادی بیس کروڑ ہے۔ اب آپ بتائیں جس ملک کی آبادی میں چار کروڑ کا گھپلا ہو وہاں چولستان میں چار دن کے لیے آنے والوں کی تعداد کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ یار دوستوں کا محتاط اندازہ ہے کہ اس بار اس جیپ ریلی میں صحرائے چولستان میں آنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے کسی صورت کم نہیں تھی۔
ریلی کے بارے میں تو بعد میں بات ہو گی ‘ایک بات طے ہے کہ ہر سال مقبول ہوتے ہوئے اس ایونٹ میں شرکاء کی تعداد کے ساتھ انفرادی‘ اجتماعی اور سرکاری بدانتظامی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بار تو قانون شکنی اور بدانتظامی اپنے عروج پر تھی۔ ٹی ڈی سی پی یعنی ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب نے اس میگا ایونٹ کو مستقل بنیادوں پر برباد کرنے کی پوری کوشش کی اور امید ہے وہ اس میں کامیابی بھی حاصل کرے گی۔
صحرا کے اندر میلوں تک پھیلے ہوئے شرکاء کے خیمے اپنی مدد آپ پر قائم تھے۔ نہ کہیں پانی کا بندوبست تھا اور نہ حوائج ضروریہ کے لیے 
کوئی انتظام‘ نہ ریس شروع ہونے والی جگہ پر کوئی مناسب بندوبست تھا اور نہ اختتام والے پوائنٹ پر۔ ہر طرف بدنظمی تھی اور ہڑ بونگ۔ اس سارے ہنگامے میں ٹی ڈی سی پی کے افسران اور ضلعی انتظامیہ کا موج میلا لگا ہوا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایونٹ جیپ ریلی ہے اور لوگ اسی سے لطف اندوز ہونے کے لیے قلعہ دراوڑ آتے ہیں‘لیکن صورتحال یہ تھی کہ ٹی ڈی سی پی کا سارا فوکس دیگر چیزوں پر تھا علاوہ جیپ ریلی کے۔ نہ کسی ڈرائیور کے لیے کوئی سہولت تھی اور نہ اس ایونٹ کو دیکھنے کے لیے آنے والے شرکاء کے لیے کوئی مناسب بندوبست تھا۔ کلچرل شو‘ آتشبازی‘ کھانے اور موج میلے پر زور تھا کہ ان سارے کاموں میں ''کھانچہ فٹ‘‘ کرنے کا مناسب اور معقول انتظام تھا‘ لہٰذا ساری انتظامیہ کا زور ایسی چیزوں پر تھا جس میں خرچہ دکھا کر مال پانی کا بندوبست کیا جا سکے اور گمان غالب ہے کہ ٹی ڈی سی پی انتظامیہ اپنے اس مقصد میں اچھی طرح کامیاب ہوئی ہے۔
اس جیپ ریلی کا آغاز1995ء میں ہوا جب کراچی کے ایک شخص آغا توصیف نے جو دوبئی میں رہتا تھا مارون گولڈ کے تعاون سے اس کو شروع کیا۔ آغا توصیف اور مارون گولڈ نے یہ ایونٹ دو سال یعنی1995ء اور 1996ء میں منعقد کیا۔ حالات مناسب نہ تھے اور ابھی صرف آغاز تھا۔ لوگ پوری طرح اس کے لیے نہ تو تیار تھے اور نہ ہی عام آدمی کو زیادہ آگاہی تھی مگر ان سارے مسائل اور مشکلات کے باوجود مارون گولڈ اور آغا توصیف نے نہایت عمدہ انتظام کے ساتھ یہ جیپ ریلیاں کروائیں اور ابتدائی مشکلات کے باوجود اس قسم کے عالمی ایونٹس کو سامنے رکھتے ہوئے رولز بنائے‘ قواعد و ضوابط وضع کیے۔ تب یہ جیپ ریلی دو مرحلوں اور دن اور رات کی دوڑ پر مشتمل تھی۔ تب ٹریک کی لمبائی بھی زیادہ تھی اور تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر طویل ٹریک پر مختلف کیٹیگریز کی گاڑیاں یہ فاصلہ دو دن میں طے کرتی تھیں۔ پاکستان میں موٹر سپورٹس کے سلسلے میں یہ ایک بریک تھرو تھا۔ اس کا سارا سہرا آغا توصیف کے سر جاتا ہے جس نے ایک نئی جہت کو پاکستان میں روشناس کروایا۔ دو سال بعدیہ سلسلہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر جاری نہ رہ سکا اور پھر کئی سال تک اس معاملے میں مکمل خاموشی رہی‘ تاوقتیکہ 2005ء آ گیا اور یہ منقطع سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا۔ تاہم اب ایونٹ کو ٹی ڈی سی پی نے سنبھال لیا۔
تب بہاولپور میں اے ڈی سی جی ڈاکٹر راحیل صدیقی تھا اور ٹی ڈی سی پی کا چیئرمین عرفان علی تھا۔ ہر دو حضرات نے اس سلسلے کو نئے سرے سے شروع کیا اور ذاتی دلچسپی کے ساتھ ساتھ انتھک محنت بھی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ایونٹ ایک نئی شکل و صورت کے ساتھ سامنے آیا اور پہلے سے بھی کہیں زیادہ مقبولیت کی طرف گامزن ہو گیا۔ ہر دو حضرات کی زیر نگرانی نئے سرے سے معاملات بہتری کی طرف چل پڑے۔ اس دوران گاڑیوں کی کیٹیگریز میں اضافہ ہوا۔فوج اور رینجرز کو سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ٹریک کے معاملات جن میں ٹریک پر سیفٹی کے انتظامات ‘ ٹریک کی تیاری اور عوام کو ٹریک سے ایک طرف رکھنے میں شامل کیا گیا۔ اس سے دوران ریس حادثات کی روک تھام کا مکمل بندوبست ہو گیا۔ دونوں حضرات یعنی ڈاکٹر راحیل صدیقی اور عرفان علی کا یہ بہترین کمبی نیشن تین سال تک چلتا رہا اور یہ ریلی ہر سال پہلے سے بہتر ہوتی گئی۔1995-96ء میں اس ریلی میں شرکت کرنے والی گاڑیوں کی صرف تین کیٹیگریز تھیں اے‘ بی اور سی۔ اب مجھے ان کیٹیگریز کی تفصیل یاد نہیں کہ بات بیس اکیس سال پرانی ہے۔ بعد میں جب ریلی دوبارہ شروع ہوئی تو ان کیٹیگریز میں اضافہ ہوتا گیا اور گاڑیوں کی دو بنیادی اقسام میں درجہ بندی کر دی گئی۔ یہ درجہ بندی Stockاور Preparedتھی یعنی اپنی اصل شکل میں موجود گاڑی اور خود سے ایسی تیار شدہ گاڑی جس میں مختلف اضافوں کے ساتھ گاڑی کی کارکردگی بہتر کی گئی ہو۔ ان تیار شدہ گاڑیوں میں مختلف الیکٹریکل آلات اور کمپیوٹرائزڈ چپس وغیرہ کے علاوہ خصوصی سسپنشن (Suspension)اور Turboسسٹم کے ذریعے ان کی رفتار اور کارکردگی کو ناقابل یقین حد تک بڑھا دیا جاتا ہے اور صحرا میں ہونے والی اس ریلی کے لیے انہیں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ خصوصی سیٹیں اور حفاظتی سیٹ بیلٹس کے علاوہ ان گاڑیوں میں اندر کی طرف لوہے کے پائپوں سے ایک حفاظتی جال تیار کر کے لگایا جاتا ہے تاکہ گاڑی الٹنے کی صورت میں ڈرائیور اور ساتھ بیٹھا ہوا معاون ڈرائیور محفوظ رہ سکیں۔ ایسی تیار شدہ گاڑیوں پر اصل گاڑی کی قیمت کے علاوہ کروڑ روپے کے لگ بھگ اوپر لگ جاتا ہے۔ بعض گاڑیوں پر اس سے بھی زیادہ رقم خرچ ہوئی ۔
اس ایونٹ سے پاکستان کا ایک سافٹ امیج سامنے آیا اور اب یہ عالم ہے کہ اس جیپ ریلی کو دیکھنے کے لیے اندرون ملک سے لوگ دور دور سے آتے ہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی لوگ شرکت کر رہے ہیں۔یہ ایونٹ اب ایک میلے کی صورت اختیار کر گیا ہے اور لوگ اپنی گاڑیوں پر ‘ بسوں پر‘ ویگنوں پر اور موٹر سائیکلوں پر دوسرے شہروں سے آتے ہیں اور یہ سلسلہ تین چار دن جاری رہتا ہے۔ اس سال ایک محتاط اندازے کے مطابق دو سے اڑھائی لاکھ لوگ قلعہ دراوڑ پہنچے تھے‘ جس سے ایک بات تو صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان میں لوگ اس قسم کی سرگرمیوں میں نہ صرف دلچسپی لیتے ہیں بلکہ اس ماحول میں تفریح کا کوئی پہلو نکلے تو اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اتنے زیادہ لوگوں کا ایک ایسی جگہ آنا جہاں انہیں کوئی خاص سہولت بھی میسر نہ ہو‘ اس بے چینی کو ظاہر کرتی ہے جو آج کل عام آدمی کے اندر پیدا ہو چکی ہے اور وہ محض گاڑیوں کی دوڑ دیکھنے کے لیے کراچی سے لے کر خیبر تک قلعہ دراوڑ کی جانب کچھے چلے آتے ہیں۔
ایک طرف لوگوں کا یہ عالم ہے کہ وہ تفریح کے لیے نکلنے والے اس ایک سالانہ موقع سے اپنا جی لگانے صحرا میں آ جاتے ہیں ‘دوسری طرف یہ عالم ہے کہ حکومتی ادارہ جو اس ایونٹ کو بہتر کر کے اسے عالمی سطح کا مقبول ایونٹ بنا سکتا ہے اپنی افسر شاہی‘ غلط بخشیوں‘ بدانتظامیوں اور لاپروائیوں سے اسے برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔
خرابیوں کا آغاز ریلی کے آغاز سے کہیں پہلے ہو گیا۔ لاہور کی سڑکوں کو بینروں سے بھر دیا گیا جہاں سے چھ ڈرائیوروں نے اس ریس میں شرکت کی اور ملتان میں ایک بینر بھی نہ لگایا گیا جہاں سے سترہ ڈرائیوروں نے اس ریس میں حصہ لیا۔ یہ صرف ایک خرابی اور نا اہلی کا ذکر ہے کہ افسران نے اپنی سہولت دیکھی اور لاہور میں ہزاروں پینا فلیکس لگا کر اپنی کارکردگی کو تخت لاہور کے سامنے پیش کر کے نمبر بنائے اور فضول کام پر پیسہ ضائع کیا اور جہاں پر خرچ کرنا چاہیے تھا وہاں ایک پیسہ خرچ نہ کیا۔ گزشتہ کئی سال سے یعنی تقریباً2008ء سے اس ریلی میں انتظامی انحطاط کا آغاز ہوا تاہم اس سال یہ اپنے عروج پر تھا۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved