وفاقی وزیرِ مذہبی امور جناب سردار محمد یوسف شریف النفس آدمی ہیں ،سنجیدہ ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو اختلافات سے کافی بچا کر رکھا ہوا ہے۔اُن کی خوش نصیبی سمجھیں یا حُسنِ انتظام کہ اُن کے دور میں نظامتِ حج کا معیار بہتر رہاہے، کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا اور بالعموم حجاجِ کرام نے حج کے سرکاری انتظامات پر اطمینا ن کا اظہار کیاہے ،اس سے اُن کے وقار میں اضافہ ہواہے۔بعض مذہبی افراد جن کے پاس عالَمِ غیب سے مالی وسائل آتے ہیں ،وہ اپنے نمود (Exposure)کا شوق پورا کرنے کے لیے آئے دن اعلیٰ ہوٹلوں میں اُن کے لیے مختلف عنوانات سے استقبالیہ مجالس منعقد کرتے رہتے ہیں ،دونوں کا شوق پورا ہوجاتا ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے،جس کا جی چاہے ''پیسا پھینک تماشا دیکھ‘‘کا شوق پورا کرسکتا ہے ۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ پہلے دولت کی طلب ہوتی ہے اور جب دولت مل جائے تو پھر وہ اپنی شخصیت کی نمودچاہتا ہے اور اس کے لیے اسے کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، جسے ہماری سیاسی اصطلاح میں Jackکہاجاتا ہے،سو ہمارے وزیرِ محترم سے کسی کی مراد بر آئے تو حرج کی بات نہیں ہے ۔
لیکن پھر اچانک نہ جانے انہیں کیا سوجھی کہ نظامِ صلوٰۃ کا بار اپنے سر لے لیا اور ابتدائی طور پر اسلام آباد کی تمام مساجد میں جمعۃ المبارک اور پنج وقتہ نماز کی جماعت تمام مساجد میں ایک وقت پر قائم کرنے کا منصوبہ بنالیا ،جس میں خود اُن کے بقول انہیںاسلام آباد میں بھی پوری کامیابی نہیں مل سکی۔یہ کام اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں مذہب سرکاری کنٹرول میں ہے یا ملوکیت کا نظام ہے یا کسی نہ کسی طرح کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہے۔پاکستان میں روایتی طورپر مذہب ہمیشہ ریاست کے کنٹرول سے باہر رہا ہے اور اس کے کچھ فوائد بھی ہیں کہ مسجدیں آباد ہیں اور دینی شعائر کا التزام ہے،جب کہ وہ ممالک جہاں مذہب اور مسالک حکومتی کنٹرول میں ہیں ،وہاں بالعموم ائمہ اور خطباء میں تدیّن اور تشرّع کا التزام بھی کم ہے ۔مجھے محکمۂ اوقاف کے ایک ذمے دار نے بتایا کہ سندھ میں محکمۂ اوقاف کی بہت سی مساجد میں ائمہ اور مؤذنین اپنے اپنے مقامِ تقرری پر فرائض انجام نہیں دے رہے اور بعض تو گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔
اسلام کے مقاصدِ شرعیہ میں ریاست کا کام فرائض کے التزام اور محرّمات سے اجتناب کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ دستورِ پاکستان کی رُو سے ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تمام مسلمانوں کو سہولتیں فراہم کرے ۔ اسلام میں نمازوں کے اوقات میں یُسر یعنی آسانی کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔صحیح مسلم کی ایک حدیثِ مبارک کا مفہوم ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نماز کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا۔آپﷺ نے اُسے فرمایاکہ دو دن ہمارے ساتھ یہاں قیام کرو۔پہلے دن آپ نے پانچوں نمازیں ہرنماز کا وقت شروع ہونے پر ابتدائی وقت میں پڑھائیں اور دوسرے دن پانچوں نمازیں آخری وقت میں پڑھائیں۔پھر آپﷺنے اُسے فرمایاکہ ہر نماز کا وقت اس ابتدا اور انتہا کے درمیان ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کے لیے آسانی ہوتی ہے ، مثلاً شہروں میں جمعۃ المبارک کی نماز کہیں ایک بجے قائم ہوتی ہے ،کہیں سوا ایک بجے،کہیں ڈیڑھ بجے اور کہیں دو بجے یا اس کے بھی بعد ،اورلوگ اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی مسجد میں جماعت کو پالیتے ہیں ۔یہاں تک کہ قیام پاکستان کے پہلے سے پورے سال کے دوران قادریہ مسجد ،سولجربازار کراچی میں جمعۃ المبارک کی نماز ساڑھے تین بجے ادا کی جاتی ہے اورجس کوکراچی میں کہیں بھی جمعہ کی جماعت نہ ملے اور کسی مجبوری یا ضرورت کی وجہ سے تاخیر ہوجائے ،تو وہ وہاں جاکر جمعہ کی نماز پڑھ لیتا ہے ۔
پس جس معاملے میں دین نے آسانی فراہم کی ہو، اُس میں لوگوں کو مشقت میں ڈالنے میں کون سی دینی حکمت کارفرما ہے۔اور ہمارے ملک میں تومحراب ومنبر آزاد ہیں ،اُن پر یہ پابندی کون عائد کرے گااور بیٹھے بٹھائے ریاست کے لیے مسائل پیدا کرنے میں کس کا فائدہ ہے،یہ حکمرانوں کے سوچنے کی بات ہے ۔ یہ ''ظلِّ الٰہی‘‘کا دور نہیں ہے کہ بادشاہ سلامت کے ذہن میں جو بھی بات آگئی وہ ''حکمِ حاکم مرگِ مفاجات‘‘کا مصداق بن گئی ۔وزیرِ اعظم جنابِ نواز شریف نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں ایک شریعت بل پیش کیا تھا جو اپنی اصل شکل میں پاس نہ ہوسکا ۔میڈیا کے بعض لوگ آج بھی اُسے ظلِّ الٰہی بننے کی خواہش سے تعبیر کرتے ہیںاور اُسے انہوں نے بھلایا نہیں ہے ،سو اب پھر ایسی بے مقصد مشق کی کیا ضرورت ہے ۔اسی لیے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ لفظِ حکومت کی ایک اصل (Origin)حکم ہے ، جس کے معنی Writیا اتھارٹی کے ہیںاور دوسری اصل حکمت ہے، جس کے معنی دانش اور فراست کے ہیں ۔لہٰذا حکومت کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے حاکم کوصاحبِ دانش وفراست اور عقل مندہوناچاہیے تاکہ غیر دانش مندانہ فیصلوں سے اس کی اتھارٹی متأثر نہ ہو۔اورریاست یا حکومت کی اتھارٹی کے لیے ضروری ہے کہ حکمران اپنے ملک کے زمینی حقائق اور قوم کی ذہنی نہاد (Mindset)کو سامنے رکھ کر قوانین بنائیں اور احکام جاری کریں تاکہ بعد میں انہیں اپنے کیے پر ندامت نہ اٹھانی پڑے۔
اسی طرح ایک سرکاری خطبہ جاری کرنے کی خواہش بھی ''آبیل مجھے مار‘‘کے مصداق ہے ۔ریاست اور حکومت کی ضرورت یہ ہے کہ مسجد کے منبر کو نفرت انگیزی اور فساد کو انگیخت کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور اس سلسلے میں قوانین سخت اور واضح ہونے چاہئیں اور اُن کا اطلاق بھی کسی امتیاز کے بغیر ہونا چاہیے تاکہ حکومت کے بارے میں کسی جانب داری یا کسی کے لیے بے جا رعایت کا تأثّر پیدا نہ ہو۔آئے دن میڈیا لال مسجد اور مولانا عبدالعزیز کی داستانیں بیان کرتا رہتا ہے ،پہلے حکومت اسے تو اپنے ضابطے میں لائے۔ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ تمام مسالک کے ذمے دار علماء اور اہلِ مدارس وجامعات حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ کوئی ذی ہوش یہ نہیں چاہے گا کہ ہمارا ملک جو پہلے ہی دہشت گردی اور تخریب وفساد کا شکار ہے ،اس میں مزید فتنہ پردازوں کو پنپنے کا موقع دیا جائے۔
حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دینی جماعتوں اور دینی مدارس وجامعات نے دھرنے کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً حکومت کے خلاف ابھرنے والی مختلف تحریکات کے موقع پر اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا اور موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔حالانکہ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اور اس سے پہلے کی تحریکات میں سب قوتیں حکومتِ وقت کے خلاف یکجا ہوجاتی تھیں ،یہی وجہ ہے کہ مسلح افواج کے اُس دور کے مہم جُو سربراہان منتخب حکومت کو معزول کر کے تختِ اقتدار پرمتمکن ہوتے رہے ہیں ۔لیکن اب کسی حد تک ہماری سیاسی قیادت میں بھی پختگی آئی ہے اور دیگر طبقات کے سیاسی شعور میں بہتری آئی ہے اور لوگوں کی سمجھ میں آگیا ہے کہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود قوم وملک اور ریاست وحکومت کا مفاد جمہوری نظام کو تسلسل کے ساتھ چلانے میں ہے ۔ حالانکہ حکومتِ وقت سے عوام کو بہت سی شکایات بھی ہیں اورالیکٹرانک میڈیا بھی آئے دن عوام کے جذبات کو انگیخت کرنے میں لگا رہتا ہے، لیکن الحمد للہ !نظام جیسے تیسے چل رہا ہے ۔ہماری دعا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے ملک کے حالات میں بہتری آئے ، نظامِ حکومت میں دیانت وامانت فروغ پائے اور کرپشن کی لعنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو۔
گزشتہ دورِ حکومت کے برعکس ہماری عدالتِ عظمیٰ وعدالت ہائے عالیہ نے بھی بالآخر تحمّل کا شعار اختیارکرلیا ہے اور ایک ٹھہرائو کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے ،ورنہ ماضی میں آئے روزگرما گرم ٹِکرٹیلی ویژن اسکرین پر چلتے تھے اور ایسا سماں بندھ جاتا تھا کہ نظامِ حکومت کسی بھی لمحے منہدم ہوسکتا ہے۔وزیرِ اعظم جنابِ نواز شریف کے مزاج میں بھی کافی ٹھہرائو آیا ہے اور وہ عُجلت کی بجائے سوچ سمجھ کر فیصلے اور اقدامات کر رہے ہیں ۔حالانکہ بعض لوگوں کو اُن کی اس سست روی کے بارے میں شکایات بھی ہیں ،لیکن سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے میں ہی بہتری ہے۔اس لیے کہ ہمارے گِردوپیش اور پورے خِطے میں حالات مخدوش ہیں ۔مشرقِ وسطیٰ آتش بداماں ہے اور وہاں پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان پڑوسی ممالک میں اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر (Areas of Influence) کے پھیلائو کی ایک غیر اعلانیہ سرد جنگ اور مسابقت جاری ہے ،جو پوری امتِ مسلمہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
آج ہی اخبارات میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نتن یاہو کا بیان شائع ہوا ہے کہ شام کو تین حصوں، ایک علوستان (Alwites)،دوسرا شامی کردستان اور تیسراشامی دروزستان میں تقسیم کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میونخ معاہدے سے مطمئن نہیں ہیں ، یہی بات اسرائیلی وزارتِ انٹیلی جنس کے سربراہ ریم بین بارک نے کہی ہے۔ انہوں نے کہا: اس کے بعد ان کی مرضی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑیں یا پرامن بقائے باہمی کا طریقہ اختیار کریں۔لیکن اگر خدانخواستہ ایک بار ایک مسلم ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب ہوگئی اور اُسے اقوامِ متحدہ اور اقوامِ عالَم کی طرف سے پذیرائی مل گئی تو پھر تمام مسلک ممالک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔امریکہ کے زیرِ قیادت عالمی طاقتیں جب چاہیں گی کسی بھی مسلم ملک میں انتشا ر پیدا کر کے تقسیم کی راہ ہموار کرتی رہیں گی۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم اوروزیرِ انٹیلی جنس کا یہ بیان الارمنگ ہے اور اسے آسانی سے نہیں لینا چاہیے۔مزید یہ کہ امریکی ترجمان نے آج پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔سوہمارا عاجزانہ مشورہ ہے کہ ہوش کے ناخن لیں ،علامہ اقبال نے کہا ہے :
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں، آسمانوں میں
نوٹ: یہ کالم سوموار 15فروری کو لکھا گیا ہے۔