امریکہ نے بالآخر 65 سال بعد اپنے چہرے سے وہ نقاب اتار ہی دیا جس میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے اصل قاتل کا چہرہ چھپا ہوا تھا۔ ہنری ٹرومین کی دھمکی کے جواب میں لیاقت علی خان کے پاکستان میں موجود امریکی طیاروں کو چوبیس گھنٹوں میں باہر لے جانے کے حکم سے سیخ پا ہو گیا۔ پھر ڈان انہیں لیاقت باغ راولپنڈی پہنچا کر ختم کروا دیتا ہے۔ اگر لیاقت علی خان اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل اور جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کو بغور دیکھیں کہ انہیں ان کی قتل گاہوں تک کون لے کر آیا کیونکہ اس میں ایک مماثلت پائی جارتی ہے۔
1988ء میں جنرل ضیاء سمیت تیس فوجی افسران اور عملے کے ارکان اور پھر 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت ستائیس افراد کی ہونے والی شہا دتوں کو سامنے رکھیں تو قتل کی ان دونوں وارداتوں کا طریقہ کار اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہے، لیکن تیاریاں ایک دوسرے سے ملتی جلتی نظر آتی ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کسی طور پر بھی امریکہ سے لئے گئے MIAI ٹینکوں کی کارکردگی دیکھنے کے لئے بہاولپور جانے کو رضامند نہ تھے کیونکہ علم نجوم کے ماہرین سمیت با خبر ایجنسیوں نے انہیں خبردار کر رکھا تھا کہ وہ آرمی ہائوس سے کہیں آنے جانے سے گریز کریں۔ لیکن جنرل ضیاء الحق جیسے محتاط ترین شخص کے خاتمے کے لئے اپنے طور پرجن لوگوں نے تیاریاں کر رکھی تھیں ان کا منصوبہ اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا تھا کہ انہیں بہاولپور لے جایا جائے۔ اس منصوبے کا حکم دینے والے ڈان کا منصوبہ ہی یہ تھا کہ انہیں سی ون تھرٹی میں ہر صورت سوار کرایا جائے۔ منصوبہ سازوں نے اس کے لئے سب سے پہلے میجر جنرل محمود درانی کو آگے کیا تاکہ وہ جنرل ضیاء کو امریکی ٹینکوں کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے لئے بہاولپور بلائیں۔ جنرل ضیاء کا ملٹری سیکرٹری رہنے کی وجہ سے جنرل درانی جنرل ضیاء اوران کی فیملی کے بے حد قریب تھے اور جنرل ضیاء ان پر اعتماد بھی کرتے تھے۔ اس کے با وجود نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ ضیاء الحق کی چھٹی حس انہیں بہاولپور جانے سے روک رہی تھی ۔ جنرل درانی اپنے باس سے بار بار فون پر گزارش کر چکے تھے کیونکہ وہ اس تقریب کے میزبان اور آرمرڈ ڈویژن کے کمانڈر بھی تھے۔ جنرل درانی کی جانب سے فون پر بار بار درخواست کرنے پر جنرل ضیاء نیم دلی سے ہاں کر بیٹھے۔ ادھر انتہائی محتاط منصوبہ ساز جو ضیاء اور ان کے ساتھیوںکی موت کا سامان تیار کر چکا تھا اسے خدشہ تھا کہ وہ عین وقت پر بہاولپور جانے سے انکار کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ان کی اس وقت کی ذہنی کیفیت سے لمحہ بہ لمحہ آ گاہ رہتے تھے۔ جیسے ہی اس نے اندازہ کیا کہ شکار اس کی تیار کی گئی شکار گاہ آنے سے خوف زدہ ہے، کیونکہ یقین کی حد تک اس کے ذہن میں سما چکا ہے کہ اس کا پرانا دوست ملک اس کی جان کے در پے ہو چکا ہے، سو ڈان کے لئے ضروری ہو گیا کہ اپنے دوست کے دل کا یہ خوف کم کرنے کے لئے ایسا شخص ان کے سامنے لا یا جائے جس کو دیکھ کر وہ سوچیں کہ اپنے آدمی کو یہ کیسے چارہ بنا سکتے ہیں؟ ڈان جانتا تھاکہ رافیل کی ہمراہی ان کے شکار کی گھبراہٹ دور کر دے گی۔ جنرل درانی کی جانب سے نرم کئے گئے لوہے کو اور زیا دہ نرم کرنے کے لئے جس ہتھوڑے کو استعمال کیا گیا وہ تھے پاکستان میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل جنہوں نے جنرل ضیاء کو پیغام پہنچایا کہ وہ امریکی ٹینکوں کا مظاہرہ دیکھنے کے لئے ان کے ساتھ بہاولپور جانا چاہتے ہیں۔ جیسے ہی امریکی سفیر کی یہ خواہش ذاتی طور پر فون کے ذریعے جنرل ضیاء کے سامنے آئی، انہوں نے پروگرام کی منظوری دے دی۔ اس اعتماد اور بھروسے کی
ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنرل ضیاء الحق اور رافیل کی 1975ء میں تب سے گہری دوستی چلی آ رہی تھی جب جنرل ضیاء آرمی چیف اور آرنلڈ رافیل اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں سینئر پولیٹیکل افسر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی رافیل کی خواہش سامنے آئی ضیاء الحق بہاولپور جانے پر آمادہ ہو گئے۔
لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی کی جلسہ گاہ تک پہنچانا کسی اور کے ذمے تھا اور پھر انہیں انجام تک پہنچانے کی ڈیوٹی کسی اور نے ادا کی۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہا دت کی طرف آئیں تو وہ اس وقت تک محفوظ تھیں جب تک وہ اپنی بم پروف گاڑی میں سوار تھیں، لیکن تیار کی جانے والی قتل گاہ پر پہنچ کر جیسے ہی وہ اپنا سر گاڑی کی ہیڈ روف سے باہر نکالتی ہیں تو ڈان کا تیار کردہ موت کا شکنجہ ان کے ارد گرد کس دیا جاتا ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ نشانہ بن گئیں جبکہ گاڑی میں ان کے ساتھ سوار تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں پر مکمل محفوظ رہے۔ یہ تو روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اگر محترمہ بینظیر بھٹو اپنا سر گاڑی کے ہیڈ روف سے باہر نہ نکالتیں تو وہ بھی گاڑی میں سوار دووسرے لوگوں کی طرح بچ جاتیں، لیکن ڈان کے لئے ان کا سر با ہر نکالنا اپنے تیار کئے جانے والے منصوبے کی تکمیل کے لئے
سب سے ضروری تھا، بالکل اسی طرح جیسے جنرل ضیاء کو بہاولپور جانے کے لئے سی ون تھرٹی طیارے میں سوار کرانا لازمی تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس وقت تک کے تمام جلسوں کی جانب دیکھیں تو وہ جلسے سے خطاب کرنے کے بعد فوراً اپنی منزل کی جانب روانہ کر دی جاتی تھیں اور ان حالات میں جب ملک بھر کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ ذاتی طور پر ان سے مل کرانہیں لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ میں شرکت کے لئے روک رہے تھے تو انہیں اور ان کی پارٹی سکواڈ کے ذمہ داران کو چاہئے تھا کہ اس جلسہ کو ریلی بنانے سے احتراز کرتے ہوئے انہیں جلدی سے نکال کر لے جاتے۔
17 اگست1988ء کو جنرل ضیاء اپنے تیس دوسرے فوجی افسران کے ہمراہ سی ون تھرٹی طیارے کی تباہی سے لقمہ اجل بنتے ہیں اور پندرہ گھنٹے بعد اگلے دن اٹھارہ اگست کو صبح سات بجے پاکستان ایئر فورس کی ایک ٹیم اس جگہ کا معائنہ کرنے کے لئے پہنچتی ہے تو وہ ملبہ کے ارد گرد ہزاروں ''فٹ پرنٹس‘‘ دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتے ہیں کہ ملبے میں موجود حساس اشیاء وہاں سے لے جائی جا چکی تھیں۔ اس طرح وہ تمام نقش مٹا دیئے گئے جن سے قاتلوں تک رسائی ممکن ہو سکتی تھی۔ پتھالوجسٹ، سی ایم ایچ بہاولپور ملبے سے ملنے والی لاشوں یا ان کے جسموں کے بچے کھچے حصوں کا پوسٹ مارٹم شروع کرتا ہے تو اسے حکم ملتا ہے کہ یہ پوسٹ مارٹم فوری طور پر روک دیا جائے اور یہی کچھ محترمہ کے ساتھ کیا گیا۔