پاکستان میں اسلامی نظام کے بعد سب سے مقبول، محبوب، مرغوب اور مطلوب نعرہ احتساب کا ہے۔ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، یہ دو الفاظ ہماری اجتماعی زندگی پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہر دس میں سے نو افراد کی رائے یہ ہو گی کہ اسلامی نظام فوراً قائم کر دیا جائے اور احتساب کا معیار وہ ہو جو حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھا۔ ایک بدّو بھی کھڑا ہو کر پوچھ سکتا تھا کہ یا امیرالمومنین مالِ غنیمت میں سے کپڑے کے جو ٹکڑے تقسیم کئے گئے تھے‘ ان سے تو کُرتا نہیں بن سکتا تھا، پھر آپ نے اس کپڑے کا لباس کیسے سلوا لیا؟ اور امیرالمومنین معترض کو ڈانٹ کر بٹھا دینے کے بجائے اپنے بیٹے کی شہادت پیش کرتا تھا کہ اس نے اپنے حصّے کا کپڑا اپنے والد کو پیش کر دیا تھا تاکہ وہ (بے چارا) اپنا کُرتا سلوا سکے۔
ہمارے ہاں ہر شخص دوسرے کو اسلام کا مکمل نمونہ بنانے پر بضد رہا ہے اور ہے۔ الف کی خواہش ہے کہ ب اور ب کی خواہش ہے کہ ج صحابہ کرامؓ کا مکمل نمونہ بن جائے۔ اس کی چال ڈھال، انداز و اطوار اور گفتار و کردار میں ہر وہ خوبی نظر آنی چاہئے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں تھی... لیکن اپنے معاملے میں ان سوالوں پر توجہ دینے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اپنے شہتیر نظر نہیں آتے، لیکن دوسروں کی آنکھوں میں پڑے تنکے نکالنے کے لیے تن من کی بازی لگانے کو جہادِ اکبر قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام کے جیّد علمبرداروں نے اسلام بذریعہ قانون نافذ کرنے کا مجرّب نسخہ دریافت کر رکھا ہے۔ ان کے نزدیک ہر برائی ختم کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ تھا (اور ہے) کہ قانون بنا ڈالا جائے۔ گویا قانون بن جائے گا تو برائی کے ہاتھ پائوں ٹوٹ جائیں گے۔ جب ایک قانون بننے کے بعد مطلوب نتیجہ نہیں نکلتا تو دوسرا قانون بنانے کی تیاری شروع کر دی جا تی ہے، اور اس کے لیے ہنگامے اُٹھائے جاتے اور فلک شگاف نعرے لگائے جاتے ہیں۔ قانون پر قانون بنتے چلے گئے، کتاب قانون ضخیم ہوتی گئی، لیکن اسلامی نظام کی دلّی ابھی تک دور ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ آج ہمارے معاشرے میں جو سماجی اور اخلاقی برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں، چالیس پچاس سال پہلے انہیں ڈھونڈنے کے لیے خوردبین کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، توہین رسالت، (فرقہ وارانہ یا غیر فرقہ وارانہ) دہشت گردی، خود کش حملے، گینگ ریپ، بوائے فرینڈ، عزت کے نام پر قتل، جعلی دوائیں، غذا میں ملاوٹ، ایسے الفاظ یا تراکیب ہیں جو اپنے بچپن تو کیا لڑکپن میں بھی کبھی سننے کو نہیں ملے تھے، جبکہ آج اخبارات کے صفحات سے لے کر ٹی وی سکرینوں تک ان کا سکہ چل رہا ہے۔
ملکی قوانین کا جائزہ لیا جائے تو ماشاء اللہ ہمارا دستور اسلامی ہے، ہماری مملکت کا نام اسلامی ہے، ہمارا سرکاری مذہب اسلام ہے، کوئی غیر مسلم ہمارا سربراہِ مملکت نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں کوئی غیر اسلامی قانون نافذ نہیں ہو سکتا کہ اگر اسمبلی اسے منظور کر دے تب بھی وفاقی شرعی عدالت اسے ساقط قرار دے سکتی ہے۔ ہر قانون کے ایک ایک جز کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنے ہی کے لیے اس کا وجود عمل میں لایا گیا، اور مالیاتی قوانین کے علاوہ وہ ہر ہر قانون کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اُس پر ''اسلامی‘‘ ہونے کی مہر لگا چکی ہے۔ گویا، اب کتابِ قانون میں کچھ بھی غیر اسلامی نہیں۔ اس کے باوجود بداخلاقی، فحاشی، عریانی، ظلم و ستم، مار دھاڑ کا ایسا بازار گرم ہے کہ الحفیظ و الامان۔ ہمارے ٹیلی ویژن پر وہ وہ مناظر دکھائے جاتے ہیں اور جنسی تراکیب و ترغیبات کے وہ وہ حربے آزمائے جاتے ہیں، جو چند عشرے پہلے تک ان فلموں میں بھی نہیں دکھائے جا سکتے تھے، جو باقاعدہ ٹکٹ لے کر، مخصوص مقامات (سینما گھروں) ہی میں دیکھی اور دکھائی جاتی تھیں۔ بازار ہائے حسن میں چھپ چھپا کر جانے والے بھی اُس غمزہ و عشوہ و ادا، سے مستفیض نہیں ہو پاتے تھے، اب جن کا فیض آپ کو گھر بیٹھے بٹھائے میڈیا کے ذریعے پہنچ رہا ہے۔ جرائم اور دہشت گردی کی جن وارداتوں کو مغربی ملکوں میں رات گئے بھی دکھانے اور دہرانے کی جرأت نہیں کی جا سکتی، ہمارے ہاں پرائم ٹائم میں وہ سب دھڑلّے سے سنائی اور دکھائی جا سکتی ہیں۔ کتابِ قانون کے کسی پیراگراف اور اہل دُنیا و سیاست کے کسی طرزِ اظہار کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
جو درگت یہاں اسلامی اخلاق و اقدار کی بن رہی ہے، وہی احتساب کی ہے۔ ہمارے ہاں اہل اقتدار اپنے مخالفین کا احتساب کرنے کے شوق میں ہمیشہ سے مبتلا رہے ہیں۔ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والوں کا مُنہ سونگھ کر غداری کی بدبو بھی دریافت کی جاتی رہی ہے، لیکن اپنے حامیوں کو ولی بلکہ قطب کے درجے پر فائز سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہاں، اگر کسی میں بغاوت کے آثار دیکھے جائیں تو اسے بذریعہ احتساب نشانِ عبرت بنانے میں کوتاہی نہیں کی جاتی۔ ماضی گواہ ہے کہ ایک وقت کی اپوزیشن دوسرے وقت کی حکومت بنی ہے، تو اُس نے بھی اسی راستے پر چلنے کو ترجیح دی ہے۔ گویا، ہر گروہ دوسروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو احتساب گردانتا (رہا) ہے، اور اپنے احتساب کو انتقامی کارروائی کہہ کر واویلا مچانے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ ہر سیاست دان، مذہبی شخصیت یا اعلیٰ سرکاری افسر کو اس کے مخالف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ احتساب کا اولین حق دار قرار پائے گا، گویا، اپنے بارے میں جھوٹ اور دوسروںکے بارے میں سچ بولنا بائیں اور دائیں دونوں ہاتھوں کا کھیل ہے۔ اگر سب گروہوں کی زبان پر اعتبار کر لیا جائے تو ہمارے مقتدر طبقات سب کے سب مستوجب سزا ہیں، اور اگر اپنی شان میں گروہی قصیدوں کو مدنظر رکھا جائے تو سب سو فیصد پوتّر قرار دیے جا سکیں گے۔ ثابت ہو جائے گا کہ گزشتہ چھ دہائیوں میں ہمارے ہاں کرپشن اور بددیانتی جیسے کیڑے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے احتساب کے لیے قوانین آزادی کے ابتدائی برسوں ہی سے بننا شروع ہو گئے تھے۔ ان کی تفصیل جمع کی جائے، تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ احتساب ہی کے نام پر چار بار مارشل لا کا نفاذ ہوا۔ ہر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے سیاست کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنے کے نعرے کو اپنے وجود کا جواز بنایا، اور رخصت ہوا، تو کرپشن کی کہیں بڑی داستانیں اور سکینڈل ترکے میں چھوڑ گیا۔ اب پھر مُلک میں احتساب کے نعرے گونج رہے ہیں۔ پردے کے پیچھے، پردے کے اوپر، اور پردے کے باہر یہی کچھ دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے۔ فہم و دانش کے تاجرو! دریا میں جتنی بھی چھلنیاں لگا لو گے، غلاظت اُس وقت تک کم نہیں ہو گی، جب تک کہ اسے دریا میں انڈیلنے والے ہاتھ نہ توڑے جائیں... ایک دوسرے سے ڈرنے اور ڈرانے کا مشغلہ جتنا بھی دلچسپ ہو، اس کا حاصل کچھ نہیں ہو گا۔ احتساب کا قانون سب پر لاگو ہونا چاہیے کہ قومی خزانے پر پلنے والے کسی ادارے کو استثنیٰ مانگنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہر شخص کی آمدنی کا حساب کرنے، اس کے ذرائع کی جانچ پڑتال کرنے، مقدمہ بنانے، چلانے اور فیصلہ کرنے والے سب کے سب خود مختار و خود کار ہوں تو بات بننا شروع ہو گی، وگرنہ تو احتساب کے نام پر سیاست ہی کا بازار گرم رہے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)