اور اکیس فروری کو نعیم بھائی کے بغیر تین برس گزر گئے۔۔۔۔!
آج تک دکھ ہے جو اندر سے نہیں نکلتا۔ اپنے آپ کو کوستا ہوں، انہیں اپنے پاس اسلام آباد لے آتا۔ بہاولپور میں وہ اپنا خیال نہیں رکھتے تھے۔ میں جب بھی بہاولپور جاتا انہیں مارکیٹ لے جاتا، ان کے لیے چیزیں خریدتا تو انہیں بہت اچھا لگتا۔ انہیں اچھا لگتا کہ میں اسلام آباد سے طویل سفر کر کے ان سے ملنے بہاولپور آتا ہوں۔ انہیںکئی دوست کہتے کہ روفی سے ملانا۔ میں جاتا تو ان سے کہتا سر جی! میں نے صرف آپ سے ملنا ہے، آپ کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔
انہیں بہاولپور کے وکٹوریا ہسپتال کے آئی وارڈ سے پکڑتا‘ اور پھر ہم کنٹین پر رات گئے تک گپیں مارتے۔ آخری دفعہ ان سے ملنے گیا تو ڈاکٹرز کالونی میں گھر کی طرف لے جانے لگے، میں نے کہا: بڑا عرصہ ہوا کنٹین پر نہیں بیٹھے، چلیں وہاں چلتے ہیں۔ بولے: یار روفی! جو تمہارے ذہن میں کنٹین ہے وہ اب وہاں نہیں ہے۔ میں نے کہا: پھر بھی ہسپتال میں جہاں کہیں بھی کینٹین ہے‘ وہیں چلتے ہیں‘ مجھے آپ کے ساتھ کنٹین پر رات گئے گپیں مارنا اچھا لگتا ہے‘ روسی اور فرانسیسی ادب پر گفتگو کرنا اچھا لگتا ہے‘ بالزاک اور گارشیا کے بارے میں محبت بھری آنکھوں سے باتیں سننا اچھا لگتا ہے۔ جب سب باتیں ختم ہو جاتیں تو کہتے: چلو یار اب چلتے ہیں صبح وارڈ بھی جانا ہے۔ اس وقت تک رات کے چار بج چکے ہوتے۔ وہ آٹھ بجے تیار ہو کر ہسپتال ڈیوٹی پر نکل جاتے۔ میں دوپہر تک سویا رہتا۔ پھر وہ دوپہر کو آ جاتے اور ہم پھر وہیں سے گفتگو شروع کر دیتے۔
انہیں اپنی کتابوں کی الماری بہت عزیز تھی۔ ان کی الماری سے کتابیں غائب ہوتیں۔ جو بھی دوست آتا اٹھا کر لے جاتا۔ میں ان سے ناراض ہوتا کہ جنہوں نے کتابیں پڑھنا ہوتی ہیں‘ کچھ بھی ہو جائے وہ خریدتے ہیں‘ نہ پڑھنے والے دوسروں کی کتابیں اٹھا کر لے جاتے ہیں، چند صفحات پڑھتے ہیں، پھر کہیں پھینک دیتے ہیں‘ پھر ان سے کوئی اور کتاب اٹھا کر لے جاتا ہے اور وہ بھی چند صفحے پڑھ کر پھینک دیتا ہے اور آخرکار ردی میں بیچ دی جاتی ہے۔ ہنس کر کہتے: یار تمہیں میرے مزاج کا پتا ہے، کوئی کپڑے لے جاتا ہے تو کوئی کتاب، کوئی فون تو کوئی جوتے۔ جس کو جو پسند آتا ہے لے جاتا ہے، کیا کروں، کس کس کو روکوں!
میں لندن سے ہر سال ان کے لیے چیزیں لاتا اور ان سے قسمیں لیتا کہ اب وہ خود استعمال کریں گے، کسی کو نیا فون، لیپ ٹاپ، جیکٹیں، جوتے، شرٹس نہیں دیں گے۔ میرے بار بار کہنے سے اتنا اثر ہوا کہ کسی کو وہ چیز پسند آتی اور لے جانے لگتا تو کہتے یار روفی لایا تھا، وہ ناراض ہوتا ہے۔ تم میری فلاں شرٹ لے جائو، اس کی لائی ہوئی چیز رہنے دو، وہ پورا بنیا ہے، بہاولپور آئے گا اور پورا رجسٹر دیکھے گا کہ کون سی چیز بچ گئی ہے۔ آخر میری باتوں سے قائل ہو کر انہوں نے کتابوں کی الماری کو تالا لگانا شروع کر دیا تھا لیکن پھر بھی جو کتاب بستر پر موجود ہوتی اور کوئی دوست لے جاتا تو وہ انکار نہ کر پاتے۔ مجھے پتا تھا انہیں کون سا ادیب پسند ہے، میں ان کے لیے اسی ادیب کی زیادہ کتابیں لے جاتا تاکہ کوئی ایک آدھ اٹھا کر لے بھی جائے تو پڑھنے کے لیے دوسری کتاب موجود ہو۔ ہر تھوڑی دیر بعد چائے آتی اور وہ سگریٹ پیتے رہتے۔ میں نے کئی دفعہ انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی کہ وہ سگریٹ نہ پیا کریں۔ کہتے: اماں کو کینسر ہوگیا تھا، کیا وہ سگریٹ پیتی تھیں؟ ہر بات کا جواز ان کے پاس ہوتا تھا۔ زیادہ تنگ کرتا تو کہتے: اچھا اگلی دفعہ آئو گے تو چھوڑ دوں گا۔ میں کہتا: آپ نے سمجھ لیا ہے کہ سب بھائی بہن زندگی میں سنبھل گئے ہیں، اب انہیں آپ کی ضرورت نہیں رہی‘ لیکن اب ہم سے زیادہ ہمارے بچوں کو آپ کی ضرورت ہے۔ کہتے: یہ اچھی بدمعاشی ہے۔ پہلے اپنے ماں باپ کے بچوں کو پالا پوسا، اب اپنے ماں باپ کے پوتوں کو بھی پالوں۔ میں کہتا: بعض لوگ زندگی میں صرف دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے آتے ہیں‘ آپ کو بھی خدا نے اسی کام کے لیے پیدا کیا ہے‘ جب خدا نے ہم سے ماں باپ چھین لیے تو یقین تھا آپ ہمیں ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔
گھر میں اکثر ان کی شادی کی بات ہوتی تو ٹال جاتے۔ کہتے: چھوڑو یار کیا کرنا ہے۔ کئی بار ہاں ناں ہوتی رہی۔ خضر کا خیال تھا‘ وہ شادی نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہم سب کے بابا بن چکے ہیں۔ انہیں علم تھا، اگر شادی کر لی تو مشرقی انداز میں وہ اس حق اور درجہ سے محروم ہو جائیں گے۔ میں خضر سے کہتا: یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم انہیں اس درجہ سے نیچے آنے دیں۔ خضر کہتا: یہ ان کے ذہن میں لاشعوری طور پر ہے۔
ان کی موت ہم سب کے لیے ایسا صدمہ بن گئی جس سے شاید ہم میں سے کوئی ساری عمر نہ نکل سکے۔ تین ماہ میرے لیے بہت مشکل تھے۔ رات کو ننید نہ آتی۔ زندگی بیزار اور بور لگنے لگی۔ میں جب بھی کوئی اچھا کام کرتا یا میرے کام کی تعریف ہوتی تو میرے ذہن میں نعیم بھائی آتے کہ وہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے۔ شدید ڈپریشن میں، میں نے انہیں کئی دفعہ خوابوں میں دیکھا۔ ایک دفعہ دیکھا کہ وہ گائوں والے گھر کے صحن میں بیٹھے ہم بہن بھائیوں سے گپ لگا رہے ہیں۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ مجھے دیکھ کر کچھ ناراضگی سے بولے: یار اس لیے میں تم لوگوں سے ملنے نہیں آتا کہ تم رونے لگ جاتے ہو۔ ایک رات پھر خواب میں دیکھا تو میں نے انہیں زور سے بازو سے پکڑا اور شکایتی انداز میں پوچھا: آپ ہمارے بغیر وہاں اوپر آسمانوں پر خوش ہیں؟ ان کی سٹالن سٹائل خوبصورت مونچھیں تھیں۔ انہوں نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور اپنا سر ہلایا جیسے کہہ رہے ہوں ہاں میں وہاں خوش ہوں۔ اس خواب کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ جہاں بھی ہیں خوش ہیں۔ میرے درد اور دکھ میں کچھ کمی ہوئی۔ اگرچہ میں خوابوں پر اتنا یقین نہیں رکھتا کیونکہ میرا خیال ہے یہ ہمارے لاشعور میں چھپی خواہشوں کا مظہر ہوتے ہیں‘ لیکن اس خواب نے کم از کم میرے دکھ کو کم کرنے میں ضرور مدد دی۔ اس طرح کا خواب میں نے ڈاکٹر ظفر الطاف کے بارے میں دیکھا تو ان کی موت کی بھی اذیت کم ہوئی۔ اس خواب کے بعد میں نے ڈاکٹر انوار احمد کی کتاب میں ایک خاکہ پڑھا کہ کیسے ان کے بہت قریبی دوست خلیل صدیقی مرحوم ایک دفعہ ان کے خواب میں آئے۔ سفید رنگ میں ملبوس تھے۔ جب ڈاکٹر انوار نے ان سے اس طرح کی بات پوچھی تو وہ بھی مسکرائے اور کہا: بتانے کی اجازت نہیں لیکن میں یہاں خوش ہوں۔
وہ میرے بچوں سے بہت پیار کرتے۔ ان کی موت کے کچھ دن بعد اپنے چھوٹے بیٹے کو کسی بات پر ڈانٹا تو وہ رونے لگا اور کہا: آج تایا ابو زندہ ہوتے تو ان سے آپ کی شکایت کرتا اور دیکھتا آپ کیسے مجھے ڈانتے ہیں۔ میں اپنے آنسو چھپائے کمرے سے نکل گیا۔
اپنی پروفیشنل زندگی میں مشکل وقت آتے تو میں اپنی بیوی سے کہتا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو نعیم بھائی میرے بچوں کے گارڈین ہوں گے۔ مجھے علم تھا وہ انہیں مجھ سے زیادہ پیار دیں گے۔ ان کی موت نے مجھے کسی حد تک کمزور کیا‘ لیکن پھر مجھے یاد آتا کہ وہ کیسے بہادر تھے اور ساری عمر ہمیں بہادر بن کر جینے کا کہا۔ ڈر اور خوف ان کی زندگی میں نہ تھا۔ ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر کا ترجمہ کر کے میں نے اسے نعیم بھائی کے نام کیا تو مسکرائے اور بولے: میں کیوں؟ اماں بابا کے نام کیوں نہیں؟ میں نے کہا: وہ ماں باپ تھے، آپ ہمارے گاڈ فادر ہیں۔ انہوں نے ہمیں جنم ضرور دیا لیکن زندگی میں بڑا آپ نے کیا، پیار آپ نے دیا۔ اٹلی کی کہاوت ہے: یہ زندگی اتنی ظالم ہے کہ آپ کو زندہ رہنے کے لیے ایک باپ اور ایک گاڈ فادر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں، ہمیں آپ جیسا گاڈ فادر ملا۔
جب وہ گارشیا کے ناول 'تنہائی کے سو سال‘ کا ترجمہ اردو میں کر رہے تھے تو اس سے زیادہ خوش میں نے انہیں کبھی نہ دیکھا تھا۔ مجھے بتاتے اس کا کون سا کردار ہمارے گائوں جیسل کلاسرا کے فلاں بزرگ سے ملتا ہے۔ ہنستے، قہقہے لگاتے اور کرداروں میں کھو جاتے۔ بالزاک کے بعد گارشیا سے انہیں محبت تھی۔ آخری دنوں میں انہوں نے One hundred years of solitude کے ترجمہ کے بعد گارشیا کے ایک اور ناول In Evil Hour کا ترجمہ شروع کیا۔ آدھے سے زیادہ کر چکے تھے کہ کوئی دوست ان کو بتائے بغیر ان کے کمرے سے اصل ناول اٹھا کر لے گیا۔ بہاولپور میں ڈھونڈنے کی کوشش کی‘ نہ ملا۔ مجھے فون کیا، میں نے اسلام آباد اور لاہور چیک کیا تو بھی نہ ملا۔ بولے: روفی صاحب کہیں سے ڈھونڈو۔ میں کچھ دن بعد لندن گیا اور جاتے ہی ایمزان سے ڈھونڈا اور ان کے لیے لایا۔ ان کو تھمایا تو ان کے چہرے پر جو خوشی آئی وہ آج تک نہیں بھولا۔
ان کی وفات اتنی اچانک ہوئی اور ہم سب اتنے صدمے کا شکار ہوئے کہ مجھے یاد نہ رہا کہ وہ اس کا ترجمہ تقریباً مکمل کر چکے تھے۔ اب اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
بہن نے کہا: گھر میں ان کی جو اشیا محفوظ رکھی ہیں ان میں تلاش کرو۔ تین سال ہو گئے ہیں‘ اتنی ہمت نہیں کر سکا کہ ان کے کمرے میں جائوں جہاں ان کی کتابیں، کمپیوٹر، کپڑے، جوتے، کتابیں، ایش ٹرے بہن نے محفوظ کر رکھے ہیں۔ بہن کسی کو ہمارے گائوں کے آبائی گھر میں جانے نہیں دیتی۔ خود ہر ہفتے اس کی صفائی کرتی ہے۔ مجھے کہہ چکی ہے: کسی وقت جائو، اس کمرے میں بیٹھو اور ان کی تحریریں ڈھونڈو۔ اسے کہتا ہوں: ہاں کرتا ہوں اور ہر دفعہ بھول جانے کی اداکاری کرتا ہوں۔ تنہائی کے تین سال گزر گئے ہیں۔ ہر دفعہ یہ سوچ کر گائوں جاتا ہوں کہ اس بار ضرور کمرے میں بیٹھ کر نعیم بھائی کی سب چیزوں کو دیکھوںگا‘ انہیں چھوئوںگا۔ بچپن سے میرے اندر محفوظ ان کے لمس کو محسوس کروںگا‘ بالزاک اور گارشیا کے ناولز کو ہاتھوں میں لوں گا جنہیں وہ لیٹ کر پڑھتے تھے۔ اور ہر دفعہ قدم نہیں بڑھا پاتا اور دروازے سے ہی لوٹ آتا ہوں!