تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-02-2016

قانون اور نفاذِ قانون

بد عنوان عناصر کے احتساب کے لیے ایک ادارہ قائم ہوا 'نیب‘۔ اب اس کے احتساب کے لیے ایک کمیشن کا قیام زیر غور ہے۔ کل اگر کمیشن کی کارکردگی بھی قابل اعتراض ٹھہری تو کیا اس کے احتساب کے لیے مزید ادارہ بنے گا؟ کیا یہ سلسلہ یوں ہی دراز ہوتا رہے گا؟
قانون کسی خلا میں نہیں، ایک زندہ سماج میں نافذ ہو تا ہے۔سماج کی اخلاقی اور معاشی تفہیم کے بغیر قانون کا نفاذ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ اہل سیاست ہوںیاعدلیہ‘میڈیاہو یا بیوروکریسی مجھے گمان ہوتا ہے کہ ان سب کو اخلاقیات ِقانون اور سماجیات کی تربیت چا ہیے۔ مذہبی انتہا پسندی سے لے کر مالی کرپشن تک ، معاملات کو جس طرح حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ انہیںپیچیدہ اور مضحکہ خیز بنا دیتی ہے۔ قانون ہمیشہ آئیڈیلز کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے، نفاذ لیکن معاشرتی حالات کے تابع ہوتا ہے۔ نفاذ کسی فرد پر ہوتا ہے اور اخلاقیاتِ قانون کے مسلمات میں شامل ہے کہ فیصلہ کرتے وقت مجرم کے حالات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ یہ اسلامی قانون میں بطور مسلمہ مانا جاتا ہے اور دنیاوی قانون میںبھی۔ 
وزیر اعظم کا مقدمہ کچھ ایسا بے بنیاد نہیں۔ اپنے جوہر میں یہ وہی مقدمہ ہے جو خیبر پختون خوا کی حکومت نے قائم کیا ہے؛تاہم اہل سیاست کی عمومی شہرت ایسی ہے کہ وزیر اعظم کے اس بیان کو احتساب سے بچنے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔اس سماج کی حقیقت (Reality) اور تاثر (Perception) دونوں کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے۔ 
نفاذِ قانون اور اخلاقیات قانون کے باب میں چند باتیں اہم ہیں۔ایک تو یہ کہ قانون کو ممکن حد تک سادہ ہونا چاہیے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ضرورت سے زیادہ قوانین موجود ہیں۔ ایک جرم کے لیے بہت سے قوانین ہیں۔ یہ تعدد انصاف کے راستے میں حائل ہے۔ اسی کرپشن کو دیکھ لیجیے۔ ملک میں جب پہلے ہی ایسے قوانین اور ادارے موجود ہیں جو مالی بد عنوانی کے جرم کو زیر بحث لاتے ہیں تو نیب کی کیا ضرورت تھی؟ حکومتوں نے موجود اداروں کو فعال بنانے کے بجائے ، احتساب کے لیے ایک نیا ادارہ بنا دیا۔ موجود اداروں سے جس عدم فعالیت کی شکایت پر' نیب‘ بنا تھا، وہی شکایت نیب کے خلاف پیدا ہونے لگی ہے۔ اب اس کے لیے ایک اور ادارہ بنایا جا رہا ہے۔ یوں قانون در قانون اور اداروں پر ادارے بنائے جا رہے ہیں جس سے حصولِ انصاف کا عمل بھی پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ2005ء میں جو مقدمات قائم ہوئے، 2016ء تک، ان کا فیصلہ کیوں نہیں ہو سکا؟ یہی نہیں ، گیارہ سالوں میں یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ وہ مقدمات درست تھے بھی یا نہیں۔ یوں بہت سے لوگ بلا وجہ کٹہرے میںکھڑے ہیں اورذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔
دُوسری اہم بات یہ ہے کہ ایک غیر مثالی نظام میں عدالتیں مثالی فیصلے نہیں سنا سکتیں۔ رانا ثنا اﷲ کی بات میں وزن ہے کہ اگر میاں منشا جیسے سرمایہ کار کو آئے دن عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں گے تواسے کیا پڑی ہے کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کرے اور ساتھ اس کی سزا بھی بھگتے۔ یہ اخلاقیاتِ قانون کے مسلمات میں سے ہے کہ ہر فرد بے گناہ ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی جرم ثابت ہو جائے۔ اگر حکومت یا کسی ریاستی ادارے کو کسی فرد کے خلاف کوئی شکایت ہے تو یہ اس کا کام ہے کہ وہ اس الزام کی تحقیقات کرے۔ اگر اس کے پاس شواہد موجود ہیں تو اس کے بعد وہ عدالت کا رخ کرے۔ اس سے پہلے ہر کسی کوملزم سمجھنا اورہراساں کرنا یا تحقیقات کے نام پر رسوا کرنا، اخلاقیات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر ہم میڈیا پر انحصار کریں تو پھر اس ملک میں کوئی ایک پارسا آدمی نہیں ہے، الا وہ جو کسی کالم نگار کا دوست ہے۔ اب جو کسی کے دوست نہیں ہیں ، وہ کیا کریں؟ 
تیسرایہ کہ جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہو جائیں تو بھی قانون کا نفاذ مشکل ہوتا ہے۔ کراچی اور سندھ میں، ہم اس کے مظاہر دیکھ چکے ۔ کراچی آپریشن ایک عرصے سے شروع ہے۔ آج تک کسی بڑے ملزم کے خلاف کوئی ایک مقدمہ ثابت نہیں ہو سکا۔ آپریشن کا آغاز ہوا تو یہ تاثر تھا کہ ایم کیو ایم اصل ہدف ہے۔ معاملات آگے بڑھے تو پتا چلا کہ ہدف پیپلز پارٹی ہے۔ کیا معلوم ، کل انکشاف ہو کہ کراچی اور سندھ تو بہانہ تھا، اصل مجرم تو پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں شیر شاہ سوری نام کا ایک حکمران رہا ہے۔کہتے ہیں کہ اس کے عہد میں چاروں طرف امن تھا۔اس دور میں آبادی کے ایک بڑے حصے کے معاملات ایک کوتوال کے پاس تھے۔ اس پورے خطے میں وہ امن اور انصاف کا ذمہ دار تھا۔ریاست کے سامنے صرف ایک آدمی جواب دہ تھا۔ اگر کہیں جرم ہوتا یا بے انصافی ہوتی تو ریاست صرف کوتوال کو طلب کرتی۔ یہ ایک سادہ قانون تھا جس نے انصاف کو آسان بنا دیا۔ مالی کرپشن کی ایک خاص قسم کو پاکستان میں جس طرح ام المسائل بنا کر پیش کیا گیا، اس نے انصاف کے ایک موضوعی (Subjective) تصور کو جنم دیا۔ سماج کو اس حوالے سے اتنا حساس بنا دیا گیا کہ ایک عامی تو کیا ، ایک پڑھا لکھا آدمی بھی یہ خیال کرتا ہے کہ اگر ملک کے انتظامی نظام سے کرپشن ختم ہو جائے تو اگلے دن دودھ کی نہریں بہنے لگیں۔ 
کل شاہ محمود قریشی صاحب نے فرمایا کہ سارے چور نیب اور احتساب کے خلاف جمع ہو گئے ہیں۔ اب شاہ صاحب سے بہتر کون جانتاہے کہ روحانیت اور مذہب کے نام پر جو چوری جاری ہے، اس کی طرف کسی کی نگاہ نہیں ہے۔ جو نذرانے ایک خانقاہ کے حصے میں آتے ہیں ، ان کا کوئی حساب ہوتا ہے نہ ان پر کوئی ٹیکس ہی لگتا ہے۔سماج اس طرح کی کسی کرپشن کے بارے میں حساس نہیں ہے۔ اسی طرح اس ملک کا جاگیردارمزارعوںکو کم اجرت دے کر جو کرپشن کرتا ہے، وہ بھی کسی شمار میں نہیں۔ ایک خاص طرح کی کرپشن کو ہمارے ہاں بطور خاص ہدف بناتے ہوئے، کرپشن کے بے شمار مظاہر سے صرف ِنظر کر لیا گیا ہے۔
کرپشن سے نفرت مبارک مگر اس کے لیے چند امور کا ادراک لازم ہے:
1۔ قانون کو ممکن حد تک سادہ بنایا جائے۔ غیر ضروری قانون اور ادارہ سازی کے بجائے،موجود قوانین کو مختصر کرتے ہوئے، ایک سادہ نظام احتساب قائم کیا جائے۔
2۔ ہر فرد کو بے گناہ سمجھا جائے ، الا یہ اس کے خلاف شواہد موجود ہوں۔
3۔ نفاذِ قانون کے باب میں سماج کی عمومی اخلاقی حالت اور نظام کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
4۔ قانون کا نفاذ کرتے وقت ریاست کے اجتماعی مفادات کو پیش نظر رکھا جائے۔ 
5۔ پولیس ، عدلیہ اور بطور خاص اراکین پارلیمنٹ کی تربیت کا اہتمام کیا جائے اور انہیں اخلاقیات قانون کے ساتھ سماجیات کی بھی تعلیم دی جائے۔
6۔ میڈیا پر الزام تراشی کا جو کلچر فروغ پذیر ہے، اس نے ریاستی اداروں پہ عمومی اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔ ا س حوالے سے میڈیا کی تربیت کا کوئی اہتمام کیا جائے۔
ہم ایک مثالی معاشرے میں نہیں رہتے۔ سماج کا ہر طبقہ کمزوریوں کا شکار ہے۔ ہمیں تنقید کرتے وقت اس پہلو کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اصلاح ایک تدریجی عمل ہے اور اس کے لیے تنقید سے زیادہ اصلاح کی خواہش اہم ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved