چولستانیوں کو جلد اراضی الاٹ
کی جائے گی۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''چولستانیوں کو جلد اراضی الاٹ کی جائے گی‘‘ اور چونکہ اس کے بعد بھی ماشاء اللہ ''گا‘‘ آرہا ہے‘ اس لیے چولستانیوں کو خاطر جمع اور مُنہ دھو رکھنا چاہیے‘ تاہم‘ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے قبضہ گروپ کی منت سماجت کر کے ان سے کچھ اراضی واگزار کرا لی جائے اور اس طرح یہ وعدہ پورا کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''ن لیگ کا منشور خدمت ہے‘‘ جیسا کہ پیپلز پارٹی کا ہے اور اگرچہ انہوں نے بھی اس کی انتہا کر دی لیکن ہم نے اس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جبکہ اس پیمانے پر خدمت کی بنیاد ہی ہم نے رکھی تھی کیونکہ ہم سے پہلے تو اس کا وجود ہی نہیں تھا اور اب اسی خدمت کی بناء پر ہمارے کابلے کسنے کے ارادے باندھے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''سوہانرا پارک کو جلد از جلد بحال کیا جائے‘‘ اور ‘ اگر مارچ مارچ کے اندر ہی بحال کر دیا جائے تو اپنے عہد میں اسے ہم بھی دیکھ لیں گے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز بہاولپور کے قلعہ موج گڑھ میں خطاب کر رہے تھے۔
حکومت تنگ نظرہے‘ پھر بھی غیر جمہوری
عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ زرداری
سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین
آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت تنگ نظر ہے‘ پھر بھی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنیں گے‘‘ کیونکہ حکومت تو اس مجبوری کے عالم میں بھی کچھ لحاظ کر رہی ہے‘ پرائے پتر تو اپنا کام پورا کر کے ہی رہیں گے۔ نیز یہ کہ غیر جمہوری عمل میں ہماری شرکت کا سوال ہی کہاں پیدا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے میں سڑکوں پر آ جاتے تو دوسری قوت کو موقع مل جاتا‘‘ اگرچہ اب ہمارے سڑکوں پر آنے اور دھرنے دینے کے بغیر ہی دوسری قوت مجبور ہو کر موقع حاصل کرتے ہی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے کے دوران اپنے بعض رہنمائوں کی مخالفت کے باوجود حکومت کی نیّا پار لگائی‘‘ لیکن اب ہماری باری آئی ہے تو خود حکومت کی نیّا ہچکولے کھا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے کے دوران پولیس حکومت کے کنٹرول میں نہیں تھی‘‘ اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ کسی چیز پر بھی حکومت کا کنٹرول نہیں رہا ہے حتیٰ کہ نیب نے بھی وزیر اعظم کو بریفنگ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز نیو یارک میں خطاب کر رہے تھے۔
نیب نے پنجاب میں جانے کی بات کی
تو بیانات آنے لگے۔ خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ''نیب نے پنجاب جانے کی بات کی تو بیانات آنے لگے‘‘ اگرچہ ہم نے خود ہی اسے پنجاب میں جانے کو کہا تھا لیکن ہم اس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ اگر نوبت سب کے صفایا کی آ گئی تو آٹے میں گُھن کی طرح ہم بھی لگے جائیں گے بلکہ اب تو پُلوں پر سے پانی اتنا گزر چکا ہے کہ مفاہمت کا فلسفہ بھی بیکا ہو چکا ہے اور بقول شاعر‘ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نیب کے سربراہ کو کیسے بُرا کہوں جسے میں نے پوری تحقیق کر کے لگایا‘‘ اگرچہ تحقیق تو حکومت نے بھی پُوری پُوری کر لی تھی لیکن کسے معلوم تھا کہ نیب کو طاقت کا کوئی ایسا ٹیکہ لگ جائے گا کہ وہ بالکل ہی مادر پدر آزاد ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم بتائیں کہ انہیں اب کون سی پریشانی لاحق ہو گئی ہے‘‘ پتا تو ہمیں بھی ہے لیکن اب کفِ افسوس ملنے کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں‘ ان کی مدد کریں گے‘‘ اگرچہ اب ہماری مدد انہیں کام دے سکتی ہے نہ ہمیں اُن کی ‘ کیسا زمانہ آ گیا ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آبادمیں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کسی کی خوشی یا گنتی پوری کرنے کے لیے نیب کو پنجاب میں کارروائی نہیں کرنے دیں گے۔ رانااللہ
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''کسی کی خوشی یا گنتی پوری کرنے کے لیے نیب کو پنجاب میں کارروائی نہیں کرنے دیں گے‘‘ اگرچہ ہماری اپنی اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اور الطاف بھائی نے بھی دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے کارکنوں سے راشن اور دوائیں وغیرہ ذخیرہ کر لینے کی ہدایت کر دی ہے اس لیے ہم کسی کو بھی کچھ کرنے سے کیا روک سکتے ہیں‘ تاہم‘ بیان دینے میں کیا ہرج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کی کرپشن کہانیاں ہم سامنے نہیں لائے‘‘ تاکہ ہماری خدمت کہانیاں بھی سامنے نہ لائی جائیں لیکن اب تو جیسے ہاتھ سے سارا کچھ نکلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نندی پور : میٹرو بس منصوبے شفاف ہیں‘‘ کیونکہ ان میں جو بھی خدمت کی گئی ہے وہ سب کو صاف نظر آ رہی ہے‘ اس لیے کسی انکوائری وغیرہ میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی میں انجینئرنگ کی خامی ہو تو یہ شہباز شریف کا قصور نہیں‘‘ کیونکہ انجینئر وغیرہ اُن کے اختیار میں ہی نہیں تھے اور کرپشن وغیرہ کے بارے تو وہ پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ اگر ایک دھیلے یا پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو نام بدل دونگا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور ‘ اب میسج کے ذریعے موصول ہونے والی اظہر فراغ کی یہ غزل
وہ جو اک شخص مجھے طعنۂ جاں دیتا ہے
مرنے لگتاہوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ہے
تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول
یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے
تم جسے آگ کا تریاق سمجھ لیتے ہو
دینے لگ جائے تو پانی بھی دُھواں دیتا ہے
جم کے چلتا ہوں زمیں پر جو میں آسانی سے
یہ ہُنر مجھ کو مرا بارِ گراں دیتا ہے
ہاں اگر پیاس کا ڈھنڈورا نہ پیٹا جائے
پھر تو پیاسے کو بھی آواز کُنواں دیتا ہے
آج کا مقطع
دوسروں کی طرح میں بھی یہ سمجھتا تھا ظفرؔ
کہ مرے شہر پہ حملہ نہیں ہونے والا