تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-02-2016

بھیڑ چال کی بھی واپسی؟

بڑی مشکل سے، بہت منت مرادوں سے مُردے میں دوبارہ جان پڑی ہے۔ پاکستان کی فلمی صنعت ایک بار پھر انگڑائیاں لیتی ہوئی بیدار ہوئی ہے اور کچھ کر دکھانے کے عزم سے سرشار بھی دکھائی دے رہی ہے۔ 
1980 ء کے عشرے میں پاکستان کی فلمی صنعت پر قیامت ٹوٹی۔ 1981 ء میں وی سی آر نے انٹری دی تو بھارتی فلموں کا کریز انتہا کو چُھونے لگا۔ گھر گھر فلم دیکھنے کی سہولت متعارف ہوئی تو سنیما ہال میں فلم دیکھنے کا رجحان کمزور پڑتا گیا۔ ہر چیز مہنگی ہوئی تو سنیما ہال جاکر فلم دیکھنا بھی بہت مہنگا ہوگیا اور خاص طور پر فیملیز کے لیے تو ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ ''لیڈ‘‘ متعارف کرائی گئی تو گھر بیٹھے بیس تیس روپے میں تین چار فلمیں دیکھنا بھی ممکن ہوا۔ مارکیٹ محدود ہوئی تو فلمیں بنانے کا رجحان بھی دم توڑتا گیا۔ پاکستانی فلموں میں عوام کی دلچسپی گھٹنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وی سی آر پر یا لیڈ کے ذریعے بھارتی فلمیں دیکھنے سے معلوم ہوگیا کہ ہماری کون سی ''شاہکار‘‘ فلم کس بھارتی فلم کا چربہ ہے! ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے پروڈیوسرز افغانستان جاکر بھارتی فلمیں دیکھتے تھے اور پوری کی پوری فلم یہاں کاپی کرلیا کرتے تھے۔ 1965 ء سے پہلے ایسا کرنا اِس لیے ناممکن تھا کہ تب تک بھارتی فلمیں ہمارے سنیما گھروں میں ریلیز ہوا کرتی تھیں۔ مقابلہ سخت تھا اِس لیے فلم میکرز کو بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ کہانی نویس، اسکرین پلے رائٹرز، مکالمہ نگار، اداکار، موسیقار، نغمہ نگار سبھی جاں فشانی کا مظاہرہ کرکے بھارتی فلموں کو منہ دینے میں کامیاب رہتے تھے۔ 
فلموں کی، اور بالخصوص اردو فلموں کی ڈیمانڈ میں کمی آئی تو کراچی میں فلم سازی متروک ہوئی اور صرف لاہور میں فلمیں بنائی جانے لگیں اور اُن میں اردو فلمیں برائے نام تھیں۔ صرف پنجابی فلموں کی پروڈکشن سے لاہور کی فلمی صنعت یک رنگی ہوگئی۔ اِس کے نتیجے میں، ظاہر ہے، جمود تو طاری ہونا ہی تھا۔ پنجابی فلموں میں جگت بھی تھی اور بڑھک بھی۔ مگر یہ سب کچھ توازن کے ساتھ اچھا لگتا تھا اور فلم کی ڈیمانڈ احسن طریقے سے پوری کرتا تھا۔ 1960ء اور 1970 ء کے عشرے میں بنائی جانے والی پنجابی فلمیں آج بھی بھرپور تفریح فراہم کرتی ہیں۔ زوال کے دور میں بنائی جانے والی پنجابی فلمیں بڑھک اور جگت کا بھونڈا ملغوبہ بن کر رہ گئیں۔ گنڈاسا کلچر عام ہوا۔ رفتہ رفتہ جٹ، بٹ اور گجر برادری نے فلم انڈسٹری پر ہر اعتبار سے قبضہ کرلیا۔ جن لوگوں کا فلم میکنگ سے کوئی تعلق نہ تھا وہ بھی گِھسے پٹے موضوعات پر بنائی جانے والی پنجابی فلموں میں پیسہ لگانے لگے۔ اس کا جو نتیجہ نکل سکتا تھا وہی نکلا یعنی کراچی کی طرح لاہور میں بھی فلم میکنگ نے دم توڑ دیا۔ نگار خانے ویران ہوئے، فنکار گھر بیٹھ گئے۔ شان، معمر رانا اور چند دوسرے اداکاروں نے کسی نہ کسی طور فلم انڈسٹری کو زندہ رکھا۔ مگر مجموعی طور پر تو پژمردگی ہی چھائی رہی۔ 
ایک عشرے کے دوران لاہور کے نگار خانوں کی رونق کچھ بحال ہوئی۔ یہ سب جدید ٹیکنالوجی اور انڈسٹری میں جوان خُون کی آمد کا نتیجہ تھا۔ مگر سید نُور، شان اور معمر رانا جیسے لوگ بھی لاکھ کوشش کے باوجود پنجابی فلموں کا مجموعی رجحان تبدیل نہ کرسکے۔ سید نُور انتہائی باصلاحیت مصنف اور ہدایت کار ہیں مگر کوئی شخص تنِ تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ سید نُور نے کئی اچھی فلمیں دی ہیں اور اب بھی دے سکتے ہیں مگر اِس کے لیے اوروں میں بھی تو کچھ دَم چاہیے۔ 
پرویز مشرف کے دور میں ''خدا کے لیے‘‘ آئی اور اِس ایک فلم نے ثابت کردیا کہ پاکستان کی فلمی دنیا کے لوگ بھی انتہائی معیاری فلمیں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ''خدا کے لیے‘‘ کے موضوع پر تو تحفظات کا اظہار کیا جاسکتا ہے مگر اپنے کونٹینٹ اور ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے یہ فلم دنیا بھر میں کہیں بھی ریلیز کیے جانے کے قابل تھی۔ اِس کے بعد ''بول‘‘ نے بھی ثابت کیا کہ اب پاکستانی فلم انڈسٹری بحالی کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ 
''خدا کے لیے‘‘ اور ''بول‘‘ کے بعد تو لائن لگ گئی۔ گزشتہ برس ریلیز ہونے والی ''مور‘‘ کہانی، اسکرین پلے، سنیماٹو گرافی، لوکیشنز اور اداکاری کے اعتبار سے انتہائی معیاری فلم تھی اور اِس فلم کو بھی بھارت کی بیشتر فلموں کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ لاہور سے کراچی، جوانی پھر نہیں آنی، رانگ نمبر، ہو من جہاں، بن روئے، وار اور دوسری بہت سی فلمیں ہر اعتبار سے معیاری قرار دی جاسکتی ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر کا بزنس بھی اچھا رہا ہے۔ 
اب بھارت سمیت دنیا بھر کی فلمیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ایسے میں شائقین کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ کہانی جاندار ہونی چاہیے، اسکرین پلے ایسا ہونا چاہیے کہ فلم بین کو سیٹ سے اُٹھنے نہ دے اور مکالمے بھی معیاری و منفرد ہوں تو بات بنے گی۔ ہمارے جواں سال فلم میکرز کونٹینٹ پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ مغربی دنیا سے سیکھ کر آنے والے نوجوان کچھ کر دِکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ سیٹ ڈیزائننگ، لائٹنگ، ساؤنڈ ریکارڈنگ، بیک گراؤنڈ میوزک، پلے بیک سنگنگ، سنیماٹو گرافی، کوریو گرافی ... سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے فلم میکنگ کو بھی اب انتہائی نازک فن میں تبدیل کردیا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی کمزور ہو تو فلم نہیں چلتی۔ اداکاری بھی جامع درکار ہے اور ہدایت کاری بھی۔ ہمارے ہاں بھارت کی فلمیں بھی ریلیز ہو رہی ہیں۔ ایسے میں اپنے ہاں کی فلموں کا بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ فلم انڈسٹری کو نمایاں انداز سے کام کرنے والے فنکار درکار ہیں نہ کہ فلم میکرز۔ ڈائریکٹر بننے کے چکر میں بہت سے اچھے اداکار ضائع بھی ہوجاتے ہیں۔ جاوید شیخ بھی فلم میکنگ کی طرف گئے تھے مگر شکر ہے کہ جلد واپس آگئے اور اپنے اصل ہنر یعنی اداکاری کو پھر گلے لگالیا۔ ایک بات تو یہ ہے کہ فلم میکنگ کی طرف ہر ایک کو نہیں آنا چاہیے اور دوسرے یہ کہ فلم میکرز بھی مقدار پر معیار کو ترجیح دیں تو بہتر۔ زیادہ مگر فرسودہ موضوعات پر ناکارہ فلمیں بنانے سے بہتر ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری سال بھر میں چند مگر معیاری فلمیں بنائے جو ناظرین کی توقعات پر پوری اتریں اور سرمایا لگانے والوں کو بھی فلم میکنگ کی طرف آنے کی تحریک ملے۔
1970 ء کے عشرے میں اور اُس کے بعد 1980 ء کے عشرے کے وسط تک فلم انڈسٹری کو نصیب ہونے والی کامیابی کو وی سی آر کے ساتھ ساتھ بھیڑ چال نے بھی تباہی سے دوچار کیا تھا۔ سترہ اٹھارہ سال کے جمود کے بعد اب فلم انڈسٹری بحالی کی راہ پر گامزن ہوئی ہے تو اِسے بھیڑ چال سے بچانا لازم ہے۔ فلم میکرز کو سکرپٹ پر سب سے زیادہ توجہ دینا ہے۔ اچھوتے موضوعات پر فلمیں بناکر ہی ناظرین کی توقعات پر پورا اترا جاسکتا ہے۔ اگر گِھسے پٹے موضوعات ہی کو گلے کا ہار بناکر کام کرنا ہے تو فلم انڈسٹری کی دیرپا بحالی کی اُمّید نہ رکھنا بہتر ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved