تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     21-02-2016

مائنڈ پاور: انسانی سوچ کی طاقت

انسانی سوچ کی طاقت، یا مائنڈ پاور ایک حیران کن موضوع ہے۔ آپ جتنا اس پر پڑھتے جائیں حیرت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ امید اور امکانات کے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ انسانی دماغ قدرت کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ مصورِ قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ ایک اچنبھا ہے!
انسانی جسم پر سوچ اور ذہن کی حکمرانی کی بات کرنے سے پہلے اس بات کو سمجھ لیجیے کہ ہم سب اسی بادشاہ کے غلام ہیں۔ یہ ہم پر اس طرح سے حکمران ہے کہ ہم اِس کے احکامات کی روگردانی نہیں کرتے لیکن وہ لوگ جو مائنڈ پاور کو استعمال کرنا جانتے ہیں، جنہوں نے مسلسل پریکٹس سے یہ فن حاصل کر لیا ہے، وہ اس شاہکار سے ایسے ایسے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مائنڈ پاور کی اہمیت جاننے اور تسلیم کرنے والے اب اسے Alternative Medicine کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔ جی ہاں، صرف ذہن کی طاقت کو استعمال کرنے والے برسوں کے بیمار افراد اپنے جسم کے اندر ہی صحت کے سرچشمے کو متحرک کر کے بیماریوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں۔
یہ انسانی ذہن کیسے کام کرتا ہے۔ یہ مائنڈ پاور ہے کیا؟ سائنس دان اس کی دلیل کے ساتھ توضیح پیش کرتے ہیں کہ کیسے یہ حکمران ہمارے جسم اور پھر ہماری پوری زندگیوں پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے...
ہم زندگی میں ہر لمحہ کسی نہ کسی احساس سے گزرتے رہتے ہیں۔ خوشی، غمی، محبت، نفرت، انتقام، بے چارگی، بے بسی، مایوسی۔ یا پھر اس کے برعکس عزم، حوصلہ، مشکلات میں ہار نہ ماننے کا ناقابلِ شکست جذبہ۔ یہ سب احساسات اور جذبات انسانی ذہن کی پیداوار ہیں۔ مائنڈ پاور پر کام کرنے والے ریسرچرز کا کہنا ہے کہ انسانی احساسات اور جذبات نیورو پیپٹائیڈ کے نام سے ایک مالیکیول خارج کرتے ہیں۔ یہ نیورو پیپٹائیڈ پورے جسم میں سفر کرتا ہے اور ریسپٹر سیلز (Recepter cells) کے پاس جاتا ہے،جو اس سے پیغام لے کر اس کو متعلقہ کیمیکل میں بدل دیتا ہے۔ اس طرح سے پورے جسم تک ایک پیغام پہنچتا ہے۔ وہ پیغام وہی احساس اور جذبہ ہے جو انسانی ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔
خوشی، غمی، اداسی۔ ڈر،خوف، نفرت یا کچھ بھی۔ مائنڈ پاور پر کام کرنے والے سائنس دان کہتے ہیں اگر آپ یہ کہیں کہ میرا دِل اداس ہے تو اس لمحے یقینا آپ کا جسم ایسے مالیکیولز کے زیر اثر ہو گا جو اداسی اور مایوسی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جب لوگ امید، ہائی مورال اور خوشی کی ذہنی حالت میں ہوں تو خون میں انٹرفرون اور انٹرلیوکن جیسے ہارمون پیدا ہوتے ہیں جنہیں طاقتور اور پراثر اینٹی کینسرڈرگ تصور کیا جاتا ہے۔
انہی حقائق کی بنیاد پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک ہی بیماری میں مبتلا افراد جو ایک ہی جیسی دوائیں کھا رہے ہوں وہ دو مختلف نتائج کیسے سامنے لے کر آتے ہیں۔ سارا کمال مائنڈ پاور کا ہے۔ ایسے مریض جوسخت بیماری کے باوجود پُرامید رہیں، خود کو مثبت سوچ کے ساتھ جوڑے رکھیں، وہ ان مریضوں کی نسبت جلد صحت کی طرف لوٹ آتے ہیں جو بیماری میں مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہو جائیں۔ چلیے اس حوالے سے ایک دلچسپ کہانی سنتے جائیں۔ سٹامینس مورائٹس یونان سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جو برسوں پہلے، امریکہ آ کر آباد ہو گیا۔ ادھیڑ عمری میں اسے کینسر تشخیص ہوا جو آخری سٹیج پر تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب اس کے پاس زندگی کے صرف نو مہینے ہیں۔ اس کے جسم میں کینسر پھیل چکا تھا اور ان نو مہینوں میں اس کے علاج کی کوئی امید نہ تھی۔ کچھ عرصہ وہ تکلیف دہ علاج سے گزرتا رہا، بالآخر مورائٹس اور اس کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ وہ زندگی کے اس مشکل مرحلے پر اپنے آبائی وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ مورائٹس بھی یہی 
چاہتا تھا کہ اب زندگی کے جو دن باقی ہیں وہ اپنے آبائی گھر میں گزارے۔ یوں انہوں نے واپس یونان جانے کا ارادہ کر لیا۔ یونان کے انتہائی صحت بخش اور خوب صورت جزیرے اکاریا (Ikarea)کا باسی اپنے آبائی گھر آ کر ذہنی طور پر بہت مطمئن ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اس کے پرانے دوست اسے ملنے آنے لگے۔ اکثر احباب اور رشتہ دار اس کے پاس محفل جمائے بیٹھے رہتے۔ مورائٹس کی طبیعت کچھ سنبھلنے لگی تو اس نے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزیاں اُگانا شروع کر دیں۔ اب دِن بھر وہ اس کام میں مشغول رہنے لگا۔ شام کو دوستوں کے ساتھ بورڈ گیمز کھیلتا۔ اس کے اندر امید، اور خوشی کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ مثبت سوچ نے بیمار جسم کو صحت بخش پیغامات دیئے اور مورائٹس کی بیماری کی شدت معجزانہ طور پر کم ہوتی گئی۔ کہانی بیان کرنے والا یہ کہتا ہے کہ ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے نو ماہ کب کے گزر چکے تو مورائٹس واپس امریکہ گیا اور اپنے ٹیسٹ کروائے۔ ڈاکٹرز حیران تھے کہ ایک شخص جو کینسر کی آخری سٹیج پر تھا اور جسے ڈاکٹرز نے زندگی کے گنے چنے مہینے بتائے تھے وہ تیزی سے صحت یابی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ کہانی بیان کرنے والا کہتا ہے کہ مورائٹس واپس اپنے آبائی گھر آ گیا۔ زندگی کی وہ صحت بخش مثبت روٹین جاری رہی۔ وہ ایک سو دو سال زندہ رہا۔ اکاریا جزیرے میں اتنے برس جینا اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ اس جزیرے پر سو سال کی عمروں کے بزرگ ہر دوسرے گھر میں پائے جاتے ہیں۔
اگر ہم مائنڈ پاور پر ذرا سا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں جو دعا مانگنے کا تصور ہے وہ بھی دراصل مائنڈ پاور کو استعمال کر کے امید سے بھری ہوئی مثبت توانائی کو اپنے جسم اور پھر اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ موذی امراض میں مبتلا مریض جلد زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں جو دوا کے ساتھ ساتھ دعا پر کامل یقین رکھتے ہوئے کائنات کے خالق سے صحت اور زندگی طلب کرتے رہیں۔
مائنڈ پاور ایک حیران کن حقیقت ہے۔ اس سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ اس طاقت کو استعمال کر کے صرف بیمار افراد ہی اپنی زندگی کو صحت اور خوشی سے نہیں بھر سکتے بلکہ زندگی میں کامیابی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھی مائنڈ پاور، انسانی سوچ کی طاقت مثبت نتائج سامنے لا رہی ہے۔ مائنڈ سائنس کی ایکسپرٹ Dr. Lissa Rankin اپنی کتاب مائنڈ اوور میڈیسن(Mind over medicine) میں لکھتی ہیں کہ یہ حقیقت اب سائنسی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ انسانی ذہن میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ یہ جسم کو صحت یاب بھی کر سکتا ہے، بیمار بھی کر سکتا ہے۔ اس کا انحصار سوچ کی سمت پر ہے۔
یہ یقینا ایک دلچسپ موضوع ہے۔ ہمارے ہاں ابھی اس موضوع پر لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی یہاں ورکشاپس اور سیمینارز ہونے چاہئیں تا کہ ہم بھی قدرت کے اس خزانے کا صحیح استعمال جان سکیں جو انسانی ذہن اور سوچ کی صورت میں قدرت نے ہر انسان کو ودیعت کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved