تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     22-02-2016

ساڈے سپّاں نال یارانے

بہت دن پہلے بچوں سے محبت کی شاعری کرنے والے فقیر منش صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے تیتر اور بٹیر کا منظوم معرکہ لکھا۔اس سٹوری کا مورال یا کہانی کا انجام یوں تھا۔
ایک تھا تیتر ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گُم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
آج کل سیاسی منظر نامے پرچونچ اور دُم کی کہانی پھر چھا گئی ہے ۔وہ بھی پارلیمان کے اندر باہر دونوں جگہ۔اس میں تازہ اضافہ ناگن جیسی ''زلفیں‘‘اور ساتھ ساتھ گنجے سَر بلکہ مونچھ کا بھی ہے۔ یہ سب اب پارلیمانی الفاظ اور ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔آنے والی نسلوں کے لیے لطیفوں کی پٹاری۔
پوٹھوہار کے شُہرئہ آفاق شاعر ضمیر جعفری نے گنجے سر کو پینشن کے ساتھ جوڑ کر یہ شاہکار تخلیق کیا۔
جارَج، گنجے پینشنروں کے سر کی مالش کرتا ہے
یعنی اب بھی ایک طرح کے جوتے پالش کرتا ہے
اُردو ادب ، پنجابی لوک ورثے میں لڑائی اور جوتا ہمیشہ لاز م و ملزوم رہے ۔جب سے سیاست میں شیرآئے '' غیر معصوم‘‘لوگ ان کی دُم کا تذکرہ بھی خوب کرتے ہیں۔کبھی شیر کی دُم کاٹنے کا اعلان ۔ کبھی شیر دُم دبا کر یا بچا کر بھاگ جاتا ہے۔شیر موجود ہو تو اس کی دُم پر پاؤں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی سیاست کاروں کے بقول سیاست کے شیر کی دُم پر پاؤں آ گیا ہے ۔یہ طے کرنا باقی ہے کہ پاؤں ہاتھی کا ہے یا گینڈے کا...؟ وزیراعظم کو اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے احتساب پر غصہ ہے، جس کے اظہار کے لیے چیف ایگزیکٹو صاحب کے جمہوری اقوالِ زریں یہ ہیں۔
نمبر ایک،نیب معصوم لوگوںکو پریشان کر رہا ہے۔
نمبر دو،احتساب والے اپنا طرزِ عمل بدل لیں ورنہ...؟
نمبر تین،شریف اہلکاروں کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں۔
نمبرچار،ووٹ عوام دیتے ہیں احتساب کیوں ہو...؟
نمبرپانچ،احتساب پارلیمنٹ کی نگرانی میں ہو۔
نمبر چھ،پنجاب میں شفافیت ہے پھر احتساب کیسا...؟
ان ہدایات نما ارشادات کی روشنی میں حکومت ِ پنجاب کا ترجمان بولا'' کراچی والی کارروائی پنجاب میں نہیں ہونے دیں گے۔‘‘اگلے روز وفاقی حکومت کا ترجمان وزیر بھی کہہ اٹھا '' سندھ والے احتساب کی پنجاب میں گنجائش نہیں۔‘‘
وزیراعظم کے اقوالِ زریں سے بہت پہلے13نومبر کو میں نے ٹی وی ٹاک میں ایک میٹنگ کی '' کتھا‘‘ سنائی۔وزیراعظم ہاؤس کی اس میٹنگ میں معصوم اہلکار،معصوم وزیر اور معصوم تاجر شریک تھے۔ساتھ انکشاف کیا کہ حکومت احتساب کے نئے ادارے پر کام کر رہی ہے۔یہ مسودہ تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔وزیراعظم نے آخر کار قوم کی مشکل آسان کی اورتاریخی فیصلہ سنا دیا۔ ان کے فرنٹ مین تاجر ''معصوم‘‘ ہیں ۔شوفر کی طرح کام کرنے والے بیوروکریٹ بھی معصوم۔جس کے بعد قوم کو یہ طے کرنے میں آسانی ہو گئی کہ جو غیر معصوم ہیں انہیں سندھ،فاٹا،کے پی کے،آزاد کشمیر وغیرہ میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ 
معصومانہ جمہوریت کی ہر خواہش سے معصومیت جھلکتی ہے۔آپکی سہولت کے لیے حکمرانوں کی چند معصوم خواہشوں کی جھلکیاں ۔
پہلی خواہش،پانچ سال کا عرصہ بہت تھوڑا ہے۔اقتدار کا دور مزید بڑھا نا چاہیے۔
دوسری خواہش،خزانہ اپنے باغ کی مولی ہے۔ اسے لُٹانے کی پوچھ گچھ کرنے والے ظالم اور جمہوریت کے دشمن ہیں۔
تیسری خواہش، 15سال کی ایل این جی،50سال کے پُل،100سال کی سڑکیں،200سال کے میگا پراجیکٹ،300سال کی بجلی اور ہزار سال کے فیصلے کرنے کا حق معصوم جمہوریت کو حاصل ہے۔
چوتھی خواہش،کوئی عدالت، تفتیشی ایجنسی، اختلافی آواز اور کوئی اپوزیشن نہیں چاہیے۔ورنہ جمہوریت کی معصومیت پر حرف آئے گا یا انگلی اٹھے گی۔
ان معصوم خواہشوں کی روشنی میں چند معصوم تجاویز پیش خدمت ہیں۔
پہلی تجویز،پاکستان کا نام قائداعظم ؒ نے پاکستان رکھا۔فیلڈ مارشل کے دور میں اسے ری پبلک آف پاکستان بنا دیا گیا۔ 73ء میںیہ اسلامی جمہوریہ بنا۔آئین میں پچیسویں ترمیم کر کے وطن کا نام'' معصوم جمہوریہ‘‘ رکھ لیا جائے۔
دوسری تجویز،ملک کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ فرنگیانہ خیال پر مبنی ہے۔پہلے پارلیمینٹ کو مجلسِ شوریٰ میں بدلا گیا ۔اسی طرح چیف ایگزیکٹو کے لفظ میں ترمیم کر کے اسے '' امیر المومنین ‘‘ لکھاجائے۔
تیسری تجویز،پاکستان میں ایک ہی خبر نامہ نشر کرنے کی اجازت ہو ۔تاکہ اصلی اور بے لاگ سچ عوام تک پہنچے۔یہ خبر نامہ پڑھنے والے ضیاء دور کے ماہراینکر واپس بلائے جائیں۔ 
چوتھی تجویز،ملک بھر میں ماسوائے معصوم ضرورت کے۔''ون ڈش‘‘کا قانون ہو۔ہیرا پھیری کو روکنے کے لیے یہ قانونی وضاحت ضروری ہے۔''ون ڈش کا مطلب ہے آپ روٹی کھا سکتے ہیں یا دال۔آپ پیاز کھا سکتے ہیں یا چٹنی۔ایک سے زائد ڈش کھانا فضول خرچی ۔سزاکے طور پرمسلسل 6ماہ سرکاری بلیٹن سننے کا جرمانہ کیا جائے گا‘‘ ۔
پانچویں تجویز، تمام سیاسی ، غیر سیاسی تنظیموں کو کالعدم قرارد یا جائے،تاکہ معصوم جمہوریت جمہوری ماحول میں پھَل پھول سکے۔
یہی معصوم طرزِ حکومت چند سال ''اور‘‘ گزار گئی تو ان شاء اللہ 73ء کے آئین میں درج Principles of policyیعنی ریاست کے رہنما اصول بدل جائیں گے۔ روٹی ،کپڑا ،مکان ،تعلیم ،زندگی،ریلیف جیسے آؤٹ آف فیشن رہنما اصولوں کی جگہ میری تجاویز قبول ہوںگی۔
ایک دن مجھے صدر ہاؤس سے فو ن آیا۔ ارجنٹ میٹنگ میں شرکت کے لیے کہا گیا۔تب پی پی پی کی حکومت پہلا سال مکمل کرنے والی تھی۔میں وزیر نہیں تھا۔صدر کے کمرے میں پہنچا ۔ایک وفاقی وزیر ،ایک عدد مشیر اور چیف ایگزیکٹو موجود تھے۔وزیر نے صدر صاحب سے کہا آپ کی سیاست قائدِعوام جیسی ہے۔مشیر کے چہرے پر زرد رنگ کی لہر آئی،جیسے یہ احساسِ شکست کا حملہ تھا۔ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر کہا جناب وزیر صاحب مجھے آپ سے اتفاق نہیں ۔پھر مشیر بولا صدر صاحب کی سیاست مہاتما گاندھی جیسی ہے۔صدر زیرِ لَب مسکر ائے ،میری طرف دیکھا۔میں نے پنجابی میں کہا تھوڑا کم کرو۔پھر35فٹ لمبے شیر کا شکار کرنے والے شکاری کا لطیفہ سنایا۔دونوں سینیٹر شرمندہ ہو گئے۔
آج زمینی حقیقت یہ ہے کہ منی لانڈرنگ والے معیشت کو ڈس چکے ہیں۔مہنگائی کا ناگ پھَن پھیلا ئے ہر روز غریبوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ہر دشمن ملک سے پُھنکار کی آواز آتی ہے Do More۔ مطالبہ ہے کہ ایٹمی اثاثے رول بیک کرو۔ملک میں قرضوں کی آخری حد پر پابندی کا قانون موجود ہے،لیکن اسے اقتدار کا''اینا کونڈا‘‘عرف اژدھا سانپ نگل چکا ہے۔
عوام کی حالت دیکھ کر شاہ حسین یاد آتے ہیں۔جن کے دوشعرکامریڈ ، ملتانی وکیل الیاس خان نے کل بھجوائے۔شاہ حسین نے ہماری تاریخ لکھی یا تقدیر۔فیصلہ آپ کر لیں۔میرا مشورہ ہے جو اسے تاریخ سمجھیں وہ اپنی تقدیر بدلنے کی تیاری کریں۔
شاہ حُسینا، اَسی جوگی ہوئے
ساڈے، سپّاں نال یارانے
لُوں لُوں دے مڈھ، آپ لڑائیے
کر کر نِت، بہانے
(ترجمہ)شاہ حسین ہم جوگی ہوئے۔ہمارا یارانہ سانپوں کے ساتھ ہے۔جسم کے ہر حصے میں ہم ان کو خود کاٹنے کی اجازت دیتے ہیں۔ہر دفعہ نیا بہانہ تراش کر۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved