مچھر دانی استعمال کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
شفیق الرحمن نے صحیح طریقہ یہ بتایا ہے کہ مچھردانی بستر پر لگائیں۔ پھر ایک طرف سے مچھردانی کا کپڑا اٹھا دیں۔ جب سب مچھر اندر چلے جائیں تو کپڑا گرا دیں۔ اب خود آپ باہر سو جائیں۔
لیکن کیا آج کل کے بچوں کو معلوم ہے کہ مچھر دانی کیا ہے؟
چلیے، مچھردانی کے قصے کو ایک طرف رکھیے۔ کیا ہمارے کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو معلوم ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کیا ہے، کہاں ہے اور کیا کرتی ہے۔
آج کل کے بچوں کو مچھردانی کا نہیں علم۔ آج کل کے سٹوڈنٹس کو اپنے ملک کی پارلیمنٹ کا نہیں پتہ۔ دونوں کو چھوڑیے۔ آپ یہ بتا دیجیے کہ مچھردانی اور پارلیمنٹ میں کیا چیز مشترک ہے؟
سارے مچھر، مچھردانی کے اندر بھیج کر، انہیں مچھردانی میں بند کر دینا چاہیے اور خود باہر سو جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ بھی تو ایسے ہی چل رہی ہے۔ الیکشن کرائے گئے۔ سپیکر ڈپٹی سپیکر چنے گئے۔ ارکان کو مراعات دی گئیں۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کا دروازہ بند کر دیا گیا اور سارے قومی مسائل پر بحث پارلیمنٹ سے باہر ہونے لگی! وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی کو خاطر میں نہیں لاتے، وزیر اعظم قومی اسمبلی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ قومی اسمبلی نے کوشش کی کہ وزیر اعظم ہر بدھ کو آ کر سوالوں کے جواب دیں کہ برطانیہ میں یہی ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں جو ''قبائلی‘‘ طرزِ حکومت ہے، اس میں اسمبلی فِٹ ہی نہیں ہوتی۔ قبیلے کا سردار جہاں چاہے، دربار منعقد کر کے فیصلے صادر کر دیتا ہے۔
نیب کے حوالے سے جو مصرع وزیر اعظم نے اٹھایا تھا، اس پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وزیر قانون نے پوری پوری غزلیں کہہ دیں۔ وزیر اعلیٰ نے تین اہم نکتے اٹھائے ہیں۔ اول، احتسابی عمل کو قومی منصوبوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دوم، نیب خود کو اپنے مقاصد تک محدود رکھے۔ اور سوم، ''ہماری حکومت میں کوئی کرپٹ ہوہی نہیں سکتا‘‘۔
کیا قومی منصوبوں کو احتساب سے آزاد کر دیا جائے؟ کیا دنیا کے کسی جمہوری ملک میں ایسا ہوا ہے؟ یہ جو خلقِ خدا قومی منصوبوں کے حوالے سے چیخ و پکار کر رہی ہے، اس کا کیا بنے گا؟ مثلاً ہر جگہ، سوشل میڈیا کے اندر اور باہر، لاہور میٹرو بس کا امرتسر میٹرو بس سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ امرتسر میٹرو بس منصوبہ بھی 2013ء میں مکمل ہوا۔ اس کی لمبائی 31کلو میٹر ہے۔ بارہ کلو میٹر لمبائی پلوں پر مشتمل ہے۔ بسوں کی تعداد 78ہے۔ اس پر کل لاگت نو ارب پاکستانی روپے آئی ہے، یعنی فی کلو میٹر 29 کروڑ پاکستانی روپے۔ اس کے مقابلے میں لاہور میٹرو بس کے منصوبے کی لمبائی 27 کلو میٹر ہے۔ پل صرف آٹھ کلو میٹر لمبے ہیں۔ بسوں کی تعداد 64 ہے۔ کل لاگت 30 ارب روپے ہے یعنی فی کلو میٹر ایک ارب دس کروڑ روپے۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ سیمنٹ اور سٹیل دونوں انڈیا میں پاکستان کی نسبت زیادہ مہنگے ہیں۔ کہاں لاہور میں لاگت ایک ارب دس کروڑ پاکستانی روپے فی کلو میٹر اور کہاں پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر امرتسر میں لاگت 29 کروڑ پاکستانی روپے فی کلو میٹر۔ یعنی چار گنا کم! راولپنڈی میٹرو بس کی لاگت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایک امریکی ادارے کا، جو اس قبیل کے منصوبوں کے تجزیے کرتا ہے، کہنا ہے کہ پاکستانی میٹرو منصوبے پوری دنیا کے گراں ترین منصوبے ہیں۔ اب اگر محترم وزیر اعلیٰ کا یہ فرمان مان لیا جائے کہ قومی منصوبے احتساب سے آزاد ہونے چاہئیں تو اس ایک ارب دس کروڑ روپے فی کلو میٹر کی آسمان بوس قیمت کا حساب کتاب کون کرے گا؟ آخر ''امریکی پبلک ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن‘‘ کو پاکستان کی موجودہ حکومت سے کیا دشمنی ہے جو ان منصوبوں کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ مہنگا قرار دے رہی ہے؟ کیا وزیر اعلیٰ عالمی ادارۂ انصاف میں اس ایسوسی ایشن کے خلاف مقدمہ درج کرنا پسند فرمائیں گے؟ انہیں پوری دنیا کو قائل کرنا ہو گا کہ پاکستان کے قومی منصوبے کسی بھی قسم کے دائرۂ احتساب سے باہر ہیں۔
رہا یہ کہنا کہ نیب خود کو اپنے مقاصد تک محدود رکھے، تو آخر نیب کے مقاصد کیا ہیں؟ یہی کہ وہ ملک میں کسی بھی سطح کی کرپشن کو روکے! اگر قومی منصوبوں کی لاگت حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے تو نیب کا فرض ہے کہ اس کی چھان بین کرے۔ وزیر اعلیٰ کا تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کی حکومت میں کوئی کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ تو پھر نیب سے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ آن را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک؟ اس میں کیا شک ہے کہ آپ کی حکومت میں کرپشن نہیں ہوئی۔ نیب جو کچھ کرنا چاہتی ہے کرنے دیجیے۔ خود ہی شرمندہ ہو کر جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی۔ روزنامہ دنیا کے رپورٹر محمد حسن رضا نے خبر دی ہے کہ نیب پنجاب کے ایک کلیدی افسر کو تبدیل کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اگر حکومت کی آنکھ پر پٹی نہیں بندھی تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس قسم کی ساری کوششوں کا اثر منفی ہوتا ہے۔
ہم مچھر دانی کی طرف واپس آتے ہیں! سوال یہ ہے کہ نیب کا مسئلہ حکومت قومی قومی اسمبلی میں کیوں نہیں پیش کرتی؟ سید خورشید شاہ نے درست کہا ہے کہ وزیر اعظم اس سارے معاملے کو پارلیمنٹ میں لاتے تو ان کا سیاسی قد مزید اونچا ہو جاتا! پٹھان کوٹ کے معاملے کو بھی پارلیمنٹ سے باہر ہی نمٹایا جا رہا ہے۔
نیب کے قواعد و ضوابط میں خامیاں ہو سکتی ہیں۔ انہیں دور کرنا چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ خامیاں تو پہلے دن سے چلی آ رہی ہیں۔ ان خامیوں کی تپش اس وقت کیوں محسوس ہوئی جب نیب کا رخ پنجاب کی طرف ہوا؟
ہنگاموں کے اس تلاطم خیز سمندر میں ہمارے وزیر اعظم صاحب نے سکون کا ایک جزیرہ بھی آخر ڈھونڈ ہی نکالا۔ بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے جاتی امرا میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ان کے اہلِ خانہ بھی موجود تھے۔ خبر کا دلچسپ ترین حصہ یہ ہے کہ یہ ملاقات وزیر اعظم کی خواہش پر ہوئی۔ اس سے پہلے ہمارے ایک وزیر اعظم نے ایک اور مشہور اداکارہ انجلینا جولی سے ملاقات کی تھی۔ ان دنوں پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا ہوا تھا۔ لاکھوں بے گھر پاکستانی آسمان تلے بے یارومدد گار پڑے تھے۔ انجلینا جولی اقوامِ متحدہ کے سفیر کی حیثیت سے آئی تھی۔ اس نے ایک لاکھ ڈالر ذاتی جیب سے عطیہ دیا تھا جو پاکستان کے کسی بھی امیر شخص (بشمول زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب) کے عطیے سے زیادہ تھا۔ اُس وقت کے وزیر اعظم کی خواہش پر انجلینا جولی بھی وزیر اعظم سے ملی تھی۔ وزیر اعظم کے اہلِ خانہ خصوصی طور پر ملتان سے آئے تھے۔ میز پر بے تحاشا کھانے دیکھ کر انجلینا جولی کا دل متلانے لگا ہو گا، جبھی تو اس نے ایک بیان دیا کہ اتنا کھانا دیکھ کر اسے سخت صدمہ ہوا۔ اس کے بقول یہ کھانا سیکڑوں سیلاب زدگان کے لیے کافی تھا جو آٹے کے ایک چھوٹے سے تھیلے اور پانی کی ایک ذرا سی بوتل کی خاطر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ وزیر اعظم اور ان کے اہلِ خانہ نے جب انتہائی قیمتی تحفے دیئے تو انجلینا جولی کو مزید صدمہ پہنچا۔ وزیر اعظم ہائوس کا اندرونی ٹھاٹھ باٹھ اور چارٹرڈ جہازوں کی آمدورفت سے وہ حیران ہوئی۔ انجلینا جولی نے جو رپورٹ اقوامِ متحدہ کو پیش کی اس میں اقوامِ متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستانی حکومت، غیر ملکی امداد مانگنے سے پہلے اپنی عیاشی کو لگام دے اور اپنے اخراجات کم کرے۔
نہیں معلوم شرمیلا ٹیگور نے وزیر اعظم کے محلات دیکھ کر کیا سوچا اور کیا کہا۔ ہو سکتا ہے جاتی امرا کی بھول بھلیاں دیکھ کر اس بھارتی اداکارہ کو باچا خان یونیورسٹی یاد آئی ہو جہاں جناب وزیر اعظم نے قدم رنجہ ہی نہیں فرمایا۔
ہماری قومی تاریخ سرخ، نارنجی، ارغوانی اور کاسنی رنگوں سے بھری پڑی ہے۔ کہیں شکاگو ٹرائی بیون کی رپورٹر کِم بارکر نظر آتی ہے، کہیں انجلینا اور کہیں شرمیلا! اور ہاں! اس تاریخ کے صفحات پر بھارتی اداکار شتروگھن سنہا بھی تو ہے۔ اگر کوئی ہماتڑ پاکستانی خاندان، بی جے پی سے تعلق رکھنے والے کسی بھارتی اداکار سے راہ و رسم بڑھاتا تو عقابی نظریں رکھنے والے صحافی، جو مردِ مومن مردِ حق کا رشتہ اورنگزیب عالم گیر سے جا جوڑتے ہیں، ایسے خاندان کا وہ تیاپانچہ کرتے کہ لوگ عبرت پکڑتے مگر ''ہمار ے لیے سب جائز ہے‘‘۔