نیب پر تحفظات ہیں لیکن کبھی بھی احتساب
بند کرنے کا نہیں کہا : پرویزرشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویزرشید نے کہا ہے کہ ''نیب پر تحفظات ہیں لیکن کبھی بھی احتساب بند کرنے کا نہیں کہا‘‘ اور تحفظات بھی محض اتنے سے ہیں کہ وہ حکومت کو پریشان نہ کرے اور اس کی قربانیوں کو بھی دیکھے جو عوام کی خدمت کے لیے دن رات پیسے اکٹھے کرنے میں لگی ہوئی ہے تاکہ وہ ٹیکس وغیرہ بخوبی ادا کر سکیں اور آئی ایم ایف کی خوشنودی بھی حاصل رہے جس کی کرامات کے طفیل ہی ملکی خزانہ زرمبادلہ سے بھرا ہوا ہے بلکہ اچھل اچھل کر اور چھلک چھلک کر باہر بھی آ رہا ہے اور یہ فالتو پیسہ دبئی وغیرہ بھجوانا پڑتا ہے تاکہ وہاں بھی عوام کی خدمت کی جا سکے جو وہاں روز بروز اکٹھے ہو رہے ہیں اور اب سندھ کے بعد پنجاب سے بھی عوام وہاں پہنچنا شروع ہو جائیں گے حتیٰ کہ پوری حکومت ہی عوام بن کر وہاں پہنچ سکتی ہے‘ بس کوئی دن ہی جا رہا ہے‘ اگرچہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ حکومت کی یہ قربانیاں کبھی رنگ بھی لائیں گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
نیب کے قوانین میں ترامیم کی
ضرورت ہے : مصدق ملک
وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''نیب کے
قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے‘‘ اور یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ ان قوانین میں ترامیم کی یک لخت ضرورت پڑ گئی ہے حالانکہ یہ سالہا سال سے اسی طرح چلے آ رہے تھے کہ ایک دم وزیراعظم کو کھانا کھاتے ہوئے اس کا خیال آ گیا اور وہ اسی خیال میں مگن کھاتے ہی چلے گئے‘ سو اسی حساب سے چورن بھی زیادہ کھانا پڑا اور تب کہیں جا کر یہ خیال مکمل ہوا چنانچہ قوم کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور وزیراعظم کے فہم و فراست میں دن دگنی ترقی کی دعا کرنی چاہیے‘چاہے چورن کا خرچہ کتنا بھی زیادہ کیوں نہ ہو جائے‘پروا نہیں کیونکہ صاحب موصوف کا ایک ہی تو شوق ہے اور وہ اللہ میاں کا یہ فرمان ہر وقت یاد رکھتے ہیں کہ تم ہماری کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے اور خدانخواستہ جھٹلانا تو درکنار‘ وہ اس کا اثبات ہی اتنے خشوع و خضوع سے کرتے رہتے ہیں کہ اس پر رشک آتا ہے کہ اللہ نے کیسے کیسے نیک بندے پیدا کر رکھے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
خیبرپختونوا میں علماء کو بھتے کی
پرچیاں مل رہی ہیں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں علماء کو بھتے کی پرچیاں مل رہی ہیں اور یہ اس لحاظ سے ضرور مستحسن ہے کہ چلو کچھ مل تو رہا ہے ورنہ حکومت اس ضمن میں اپنے فرائض کماحقہ‘ ادا نہیں کر رہی اور محض خاکسار کی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کر کے ہی یہ سمجھ رہی ہے کہ حاتم طائی کی قبر پر لات مار رہی ہے حالانکہ یہ لات اس قدر بے جان ہوتی ہے کہ اس سے قبر کا کچھ بھی نہیں بگڑتا ‘اس لیے انہیں اپنی لات کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ ان کا جن سے واسطہ پڑا ہوا ہے وہ لاتوں کے بھوت ہیں‘ باتوں کے نہیں‘ نیز پرچیاں بھیجنے والوں کو چاہیے کہ خالی پرچیوں کی بجائے ان کے ساتھ کچھ فی سبیل اللہ بھی ارسال کر دیا کریں تاکہ پرچی پر عمل کرنے کی توفیق بھی
علمائے کرام کو ارزانی ہوتی رہے چنانچہ خاکسار اب ایسی ہی کسی پرچی کا منتظر رہے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں جماعتی ذمہ داران سے بات چیت کر رہے تھے۔
پنجاب میں ضرورت پڑی تو
رینجرز بلائیں گے : نہال ہاشمی
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں ضرورت پڑی تو رینجرز بلائیں گے‘‘۔ بس ذرا نیب سے نمٹ لیں کیونکہ رینجرز نے بھی معاملات نیب ہی کو بھیجنا ہیں یا زیادہ سے زیادہ وہ پولیس کی خدمات حاصل کریں گے تو اس صورت میں بھی انہیں منہ کی کھانی پڑے گی کیونکہ پولیس پہلے سے بھی زیادہ فرض شناس ہو چکی ہے اور اپنے جملہ فرائض جانفشانی سے ادا کر رہی ہے ‘ تھانہ کلچر تبدیل ہو چکا ہے اور بقول وزیراعلیٰ صاحب ایک دھیلے کی بھی رشوت ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ بہت باریک کام ہے اور اسے ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ تاہم نیب سے نبٹنے کا ایک طریقہ یہ بھی زیر غور ہے کہ جملہ سیاسی شخصیات اور افسران بیورو کریسی سے کہہ دیا جائے کہ وہ پلی بارگیننگ کے لیے تیار رہیں اور یہی سمجھیں کہ اپنی نیک کمائی میں سے زکوٰۃ نکال رہے ہیں اور اس طرح اپنی عاقبت کے حوالے سے بھی بے فکر ہو جائیں کہ نیکی کا بدلہ انسان کو ضرور ملتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
اظہار تشکر
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا جملہ آڑھتیان پنجاب حکومت کے شکر گزار ہیں کہ آلو کی برآمد کی وجہ سے کچھ ہمارا بھی دال دلیا ہو گیا ہے کیونکہ آلو کی تقریباً ساری فصل کسانوں سے اونے پونے خرید کر سٹاک کر لی گئی ہے اور اپنی سہولت کے مطابق اسے برآمد کر کے حکومت کی طرح ہم بھی ملکی خدمت میں لگے ہوئے ہیں جبکہ کسانوں کو حکومت نے خدا ترسی سے کام لیتے ہوئے اللہ میاں کے سپرد کر رکھا ہے جو کہ نہایت صابر و شاکر واقع ہوئے ہیں اور زبانی کلامی ہی حال دہائی کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ ملک کا چونکہ زیادہ تر دارومدار زراعت ہی پر ہے اس لیے حکومت نے پہلے ہی انہیں اوقات میں رکھا ہوا ہے اور اپنی طرح انہیں بھی قناعت پسند بنا دیا ہے اور وہ سڑکوں پر اس لیے بھی نہیں آتے کہ اورنج لائن ٹرین کی وجہ سے شہر کی سڑکیں ہی اکھاڑ دی گئی ہیں اور احتجاج تو لاہور کی سڑکوں پر ہی مؤثر ثابت ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا شہر بھی یہی ہے۔
المشتہر : انجمن آڑھتیان پنجاب
آج کا مقطع
میں شاعری سے آپ کو روکوں گا ظفرؔ کیا
اتنا ہے کہ پہلے ذرا یہ کام سمجھیے