خوف ہر کہیں ہے، خواہ یہ ایک انسان کی ذاتی زندگی ہو، ایک خاندان، محلے، شہر یا ریاستوں کی اجتماعی حیات۔ ہمیشہ ہر کہیں حادثات پیش آتے ہیں، آتے ہی رہتے ہیں۔ بڑے حادثے قوم کی اجتماعی نفسیات پر زخم لگاتے ہیں۔ قومی حادثات کا زخم بھر بھی جاتا ہے مگر نشان اگلے زمانوں تک باقی رہتے ہیں۔ کینسر سے شفایاب ہونے والا، بدن پر ابھرنے والے ایک ابھار کو بھی غیر معمولی خوف سے دیکھتا ہے۔ ایک صحت مند انسان اچھی خاصی گلٹی کے بھی از خود ختم ہو جانے کا انتظار کرتا ہے۔ اس پسِ منظر میں یہ بات عجیب نہیں کہ اکتوبر 2015ء سے زلزلے کے جھٹکے شروع ہو ئے تو اہلِ پاکستان لرز اٹھے۔ اکتوبر2005ء کا زخم بھرنے کے لیے دس سال کا عرصہ بہت ناکافی تھا۔
خوف میں انسان غیر معمولی برق رفتاری سے کام کرتا ہے۔ وہ نارمل نہیں رہتا۔ دو ایٹم بموں کی تباہ کاریاں برداشت کرنے والے جاپان میں یہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ عالمی جنگوں میں بھرپور حصہ لینے والے جاپان نے اپنی فوجی قوت از خود ختم کی۔ استعداد کے باوجود اس نے جوہری ہتھیاروں کی طرف پیش رفت نہیں کی۔ 2011ء کے سونامی سے جنم لینے والے فوکو شیما جوہری حادثے کے بعد عوامی اور حکومتی سطح پر جس طرح کا ردّعمل اور جوہری توانائی سے دستبرداری کی جو مہم چلائی گئی، اس میں بھی بے انتہا خوف جھلک رہا تھا۔ دہشت ناک واقعات، حادثات انسان کو اس قدر اذیت سے دوچار نہیں کرتے۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا خوف اعصاب توڑ ڈالتا ہے۔
مثبت اور منفی، زندگی پر خوف کے اثرات ہمہ جہت ہیں۔ خوف بجائے خود زندگی کی بقا کے لیے لازم ہے۔ سب سے بڑی محبت ہر جاندار خود اپنے آپ سے کرتا ہے۔ اپنی جان بچانے کا ہنر ایک شدید خوف ہی کا مرہونِ منت ہے۔ اس میں انسان اور حیوان کی کوئی تفریق نہیں۔ مسلمان جب اس خوف پہ قابو پا کر میدانِ جنگ میں اترتا اور شہید ہوتا ہے تو بدلے میں اسے دائمی زندگی دی جاتی ہے۔ جانداروں میں اپنی جان کے خوف پر کوئی جذبہ اگر حاوی ہے تو وہ اولاد سے محبت ہے۔ یہ محبت بھی خدا ہی کی پیدا کردہ ہے۔
اپنی ذات سے شدید محبت پہ اولاد کی محبت کو غالب کر دیا گیا ہے کہ جاندار اپنی نسلوں کی حفاظت کرتے رہیں۔ اس میں بھی انسان اور حیوان کی کوئی تفریق نہیں۔ اس کرّ ۂ خاک پہ ہمہ جہت پھیلتی زندگی انہی دو جذبات کی مرہونِ منت ہے۔
خوف میں ذہن غیر معمولی ، جنونی رفتار سے دوڑتا ہے۔ انسانی زندگی کے چالیس پچاس ہزار سال کا جائزہ لیں تو ایجادات کی رفتار بہت سست نظر آتی ہے۔ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد و استعمال کے بعد عقلِ انسانی پہ ایک کوڑا برستا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایجادات بارش کی طرح برسنے لگتی ہیں۔
انسانی مزاج میں جارحیت کا سبب کیا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ غلبے کی خواہش سے بڑھ کر خوف ہی اس کی بنیاد ہے۔ جوہری میدان میں جرمنی اگر غیر معمولی پیش رفت نہ کرتا تو امریکی شاید اس میدان میں کئی دہائیوں بعد اترتے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ہی بھارتی جوہری تجربوں نے رکھی۔ عمومی طور پر ہم ایک سست قوم ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے ناپید ہوجانے کے خوف میں معاشی مسائل اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود ہم غیر معمولی تیز رفتار سے ایٹم بم بنا لیتے ہیں۔ دشمن کی جارحیت کا خوف دفاعی ایجادات کا سب سے بڑا محرک ہے۔ شریف حکومت اگر غیر معمولی رفتار سے میٹرو بنا رہی ہے تو اس کے پسِ منظر میں کپتان کے برسرِ اقتدار آجانے کا خوف ہے۔
زلزلے سے بات شروع ہوئی تھی۔ زمین کا لرزنا غیر معمولی بات نہیں۔ اصل خطرہ ہمیں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیے گئے سیمنٹ سریے کے پہاڑوں سے ہے۔ ان بلند و بالا عمارتوں تلے کچلے جانے کا خوف، جن میں ہم رہتے ہیں۔
حادثات خوف کا باعث بنتے ہیں ۔کرّۂ ارض اور اس کائنات میں یہ حادثات بے حد عام ہیں۔
خلائے بسیط سے آنے والی ایک بڑی چٹان (دم دار ستارہ ) زندگی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ ماضی میں ایسے حادثات پے در پے رونما ہوتے رہے ہیں۔ آج کا انسان ایسی ہر چٹان کو ایک نام دیتا اور اس کے قریب آجانے کی صورت میں ایک لائحۂ عمل ترتیب دیتا ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ممکنہ طور پرکرّۂ ارض کے قریب سے گزرنے والی ہر چٹان کا ہم بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
اصل خطرہ ہمیں اپنے اندر سے ہے۔ انسان تباہی پھیلانے والے خطرناک ترین ہتھیار بنا چکا ہے اور وہ زندگی کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔ جہاں تک قدرتی آفات و حادثات کا تعلق ہے، موجودہ اور آنے والے زمانوں کا انسان اپنی تما م تر ترقی کے باوجود ان سے بچ نہیں سکتا۔ زندگی بہت نازک توازنوں پر استوار ہے۔ ارضی پلیٹیں سرکنے، بڑے آتش فشانوں کے پھٹنے جیسے خطرات سے بچنے کی بھلا ہم کیا تدبیر کریں گے۔ یہ بات اس لیے بھی عجیب لگتی ہے کہ ابتدا میں اس زمین پر جنم لینے والی کم و بیش ساری جاندار نسلیں ناپید ہو چکی ہیں۔ موجودہ جانور ان ابتدائی جانداروں سے بالکل مختلف ہیں۔ خواہ کتنا ہی ذہین ہو، آخر جسمانی طور پر انسان دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہے۔ وہ کھاتا پیتا، بوڑھا ہوتا اور مر جاتا ہے۔ برتر انسانی ذہانت ایک چھوٹی سی زمین کے محدود وسائل پر منحصر آدمی کو باقی رہنے والی زندگی نہیں دے سکتی۔ بالآخر اسے مرنا ہے، ختم ہو جانا ہے۔ اس بات میں قطعی کوئی شک نہیں کہ ایک دن کرّ ۂ ارض سے انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ ذہین ترین جانور ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا۔
خوف کی بات بیچ میں رہ گئی۔ خوف ہماری جبلتوں میں سے سب سے نمایاں ہے۔ یہ دماغ کے درمیانی حصے سے پھوٹتا ہے۔ خوف زندگی کی بقا کا سبب ہے مگر اسے بطور سزا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کم علمی اور جرم خوف کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ رزق نہ ملنے کا خوف کم علمی کا مظہر ہے۔ ہم دانشور اکثر اس کا شکار ہوتے اور حکمران طبقات کی حمد و ثنا بیان کرنے لگتے ہیں۔ انسان جب اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ اس سے ایسا گناہ سرزد ہو چکا، جس کی بخشش ممکن نہیں تو یہ بھی کم علمی کا خوف ہوتا ہے۔ ہمیشہ ہر جرم اور ہر گناہ اللہ معاف کر سکتاہے۔ رجوع کا دروازہ پہلے آدم سے آخری آدم تک کھلا رہے گا۔