پاکستان اتنا بے بس اور کمزور کبھی نہ تھا۔ اس قدر مجبور کہ اب بیگانے نہیں اپنے بھی بلیک میل کرتے ہیں ... ؎
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد‘ آں آشنا کرد
امریکہ نے تو خیر ہمیں ہمیشہ بلیک میل کیا‘ سپرپاور ہے اور ہماری حکمران اشرافیہ کا ان داتا۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ اُس نے بلیک میل کیا یا ہمیں ہونے کا شوق تھا ؎
کجھ شہردے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
مگر اب بھارت بھی بلیک میلنگ پر اُتر آیا ہے۔ ہم نے امریکی دبائو اور بھارتی معلومات پر پٹھان کوٹ کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کی مگر ہمارا شکریہ ادا کرنے کے بجائے بھارت نے اسے اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا اور وزیر دفاع منوہر پاریکر پھر چلّائے کہ صرف ایف آئی آر کا اندراج کافی نہیں‘ ہماری مرضی کے مطابق تفتیش کرو۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ ''تکلیف پہنچانے والوں کو ہم نے بڑھ کر تکلیف دینے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ کب؟ کیا؟‘ اور کیسے؟یہ فیصلہ ہم اپنی سہولت کے مطابق کریں گے‘‘۔
بھارت کو یہ جرت ہمارے معذرت خواہانہ طرزعمل سے ہوئی۔ نریندر مودی حکومت نے پٹھانکوٹ میں اپنی ناکامی اور رسوائی کا ملبہ ہم پر ڈال کر اپنے عوام کو بے وقوف بنایا۔ بھارت کے طول وعرض میں ان دنوں فساد برپا ہے‘ اس کی جمہوریت‘ سیکولرازم‘ حکومت کی کارگزاری اور ملکی ترقی و خوشحالی پر سنجیدہ سوالات اُٹھ رہے ہیں‘ سرینگر میں دو تین حملہ آورچھ سات فوجیوں اور کمانڈوز کی ہلاکت کے بعد قابو نہیں آئے‘ جبکہ پنجاب میں جاٹوں نے دہلی کا دانہ پانی بند کر دیا ہے۔ بھارتی پولیس اور دیگر سویلین ادارے ان فسادات کو روکنے میں ناکام رہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پیدا ہونے والا تنازعہ دوسرے تعلیمی اداروں تک پھیل گیا اور بھارتی حکومت نے بی جے پی کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کے خلاف غدّاری اور مُلک دُشمنی کے الزام میں مقدمات درج اور گرفتاریاں شروع کر دی ہیں۔ یہ بھارت کا وہ مکروہ چہرہ ہے جو اب تک بھارتی میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی مسلمان اور پاکستان دشمنی میں چھپا رہا اور مسلمانوں کو دہشت گرد‘ انتہا پسند‘ پاکستان کا حامی ‘سیکولرازم کا دشمن قرار دے کر ریاستی دہشت گردی کا دفاع کیا جاتا رہا؛ مگر کنہیا لال اور دوسرے آزاد خیال طلبہ نے مقبول بٹ اور افضل گرو کی پھانسی پر سوال اُٹھا کر نہ صرف بی جے پی بلکہ بھارت کے سیکولرازم کو بھی بے نقاب کر دیا۔
مودی سرکار نے جموںوکشمیر میں فوجی مظالم ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں‘ بدھوں‘ عیسائیوں اور ہندو دلتوں کے خلاف اکثریتی آبادی اور حکمران جماعت کے امتیازی سلوک‘ انتہا پسندانہ اقدامات اور بہیمانہ مظالم کے علاوہ مشرقی پنجاب میں پیدا ہونے والی بے چینی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا پروگرام بنایا اور ''بغل میں چُھری مُنہ میں رام رام‘‘ کی روایتی پالیسی اختیار کی۔ مودی کی جاتی اُمرا یاترا اور منوہرپاریکر سے لے کر اجیت دوول تک اندرونی معاملات میں مداخلت کا شور‘ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں جس کا مقصد فاٹا‘ بلوچستان اور کراچی میں بھارتی مداخلت پر پاکستان کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹانا اور پٹھانکوٹ واقعہ کی آڑ میں پاکستان کے سول ملٹری تعلقات میں دراڑ ڈالنا ہے‘ ورنہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پاریکر کو یہ بیان دینے کی ضرورت نہ تھی‘ یہ سیدھی سادی بلیک میلنگ ہے ۔
جس طرح امریکہ کی دیکھا دیکھی بھارت نے بھی ہمیں بلیک میل کرنے کی ٹھانی ہے اور یہ نہیں سوچا کہ پاکستان بنگلہ دیش‘ نیپال یا بھوٹان نہیں‘ نیوکلیئر اسلامی ریاست ہے جس کی جذبہ جہاد سے سرشار فوج اور قوم کبھی دبائو میں نہیں آئیگی ؎
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
اسی طرح ہماری حکمران اشرافیہ کو تاجر و صنعتکار بھی بلیک میل کر رہے ہیں‘ ٹیکسوں کی ادائیگی پر تاجر تیار نہیں اور نیب کے بہانے صنعتکار اپنی بداعمالیاں چھپانے میں مصروف ہیں۔ جب چودھری نثار علی خان‘ پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ یہ کہتے ہیں کہ اگر نیب صنعتکاروں سے پُوچھ گچھ کرے گی تو وہ ملک میں سرمایہ کاری کیسے لائیں گے تو عام آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ کار دوڑے دوڑے جاتے ہیں وہاں کیا بے ضابطگی‘ قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر ہے؟ قومی اثاثے کوڑیوں کے بھائو بکتے ہیں اور ٹیکس دینے کا کوئی رواج نہیں؟کیا چین‘ ترکی‘ ملائشیا‘ دبئی اور سنگاپور میں اندھیر نگری ہے کہ سرمایہ کار جا کر ''ات‘‘ مچا دیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہو؟
نہیں ایسا ہرگز نہیں‘ کرپشن کے حوالے سے سخت قوانین کے بل بوتے پر چین‘ ملائشیا‘ ترکی اور سنگاپور نے ترقی کی ۔ قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور بلاتمیز و تفریق احتساب کے سبب سرمایہ کاروں کو اپنی جان و مال اور سرمائے کا تحفظ ملا۔ وہاں بے محابا ٹیکس چوری کا رواج ہے نہ دوگنا‘ تین گنا ناجائز منافع خوری کا اور نہ حکمرانوں کے علاوہ ان کے فرنٹ مینوں سے مل کر قومی اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنے کا۔ غیر معمولی منافع اور ٹیکس چوری کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان سرمایہ کاروں کی جنت ہے ۔یہاں اصل مسئلہ بدامنی ہے جس کا تدارک اس وقت ممکن ہے جب انصاف ‘ احتساب اور قانون کی حکمرانی کا کلچر فروغ پائے اور کسی کی جان و مال‘ عزت و آبرو اور سرمایہ کو کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ نیب کی شکایت آخر بیرونی سرمایہ کار کیوں نہیں کرتے؟ چین نے یہ شرط کیوں نہیں لگائی کہ پہلے نیب ختم کرو پھر ہمارے سرمایہ کار اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ ہوں گے‘ یہ محض بہانہ بلکہ ڈرامہ ہے۔
نیب سے تنگ سرمایہ کاروں‘ صنعتکاروں نے پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کا خُون نچوڑ کر‘ ریاست سے وقتاً فوقتاً زرتلافی اور غیر معمولی مراعات لے کر کالا دھن سفید کرنے کی سکیموں اور دیگر حکومتی مراعات سے اپنی صنعتی ایمپائرز کھڑی کیں۔ طویل عرصے تک دوسرے ممالک کی سستی اور معیاری مصنوعات کا راستہ روکے رکھا کیونکہ یہ دوسرے ممالک تو کجا اپنے ملک میں بھی ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ یہ مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کا رونا روتے ہیں مگر سستی لیبر کا ذکر کبھی نہیں کرتے اور منافع کی شرح کا بھی جو غیر معمولی ہے۔ ساری دنیا کے لیے حیران کن۔ کسی بھی غیر ملکی سرمایہ کار سے بات ہو تو وہ منافع کے حوالے سے پاکستان کو بے مثل قرار دیتا ہے کیونکہ یہاں کوئی پوچھنے والا ہے نہ کارٹیلز کو کنٹرول کرنے والا۔ جن سرمایہ کاروں نے دبئی‘ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کا رُخ کیا وہاں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ‘کوئی اُن سے پوچھے۔پاکستان نہ بنتا تو متحدہ ہندوستان میں ان صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کی کیا حیثیت ہوتی؟ اندازہ لگانا مشکل نہیں‘ مگر ناشکرے پن کی انتہا ہے کہ نیب نے اگر ان سے پوچھ لیا کہ اثاثے کس بھائو خریدے‘ بیرون ملک رقم کیسے منتقل کی ؟ تو اپنی صفائی دینے کے بجائے یہ احسان جتلانے اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
انہیں یہ حوصلہ اورجرات ہمارے ماضی اور حال کے حکمرانوں کی عطا ہے جن کے اپنے کاروبار اور اثاثے بیرون ملک ہیں ۔یہاں صرف وہ سیر سپاٹا اور حکمرانی کرنے آتے ہیں اور جونہی حالات ناسازگار ہوں بریف کیس اٹھا کر بیرون ملک سدھار جاتے ہیں جیسے آصف علی زرداری امریکہ‘ لندن اور دبئی میں عیش کر رہے ہیں اور شوکت عزیز گویا پاکستان سے واقف ہی نہیں۔ لیکن ایک نیوکلیئر اسلامی ریاست کیا اپنی حکمران اشرافیہ‘ سرمایہ کاروں‘ بھارت اور امریکہ سے ہمیشہ بلیک میل ہوتی رہے گی؟ حکمران کیا سرمایہ داروں‘ صنعتکاروں اور تاجروں کی وکالت کریں گے یا کبھی مظلوم پاکستان اور مجبور عوام کی بھی۔ نیب کی ناخن تراشی درست مگر کوئی عوام کا خُون چُوسنے والے ڈریکولائوں کے ناخن بھی تراشے گا۔ کیا اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے پاکستان اس لیے بنایا تھا؟ قائداعظمؒ نے اسی ذہنیت کا اندازہ لگا کر ایک بار کہا تھا کہ اگر یہ ملک جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ظلم و ستم اور ناجائز منافع خوری کی آماجگاہ بننا ہے تو بہتر ہے کہ میں اپنی جدوجہد ترک کر دوں ‘مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے جہاں غریب عوام کا خُون چُوسا جائے۔
سول و فوجی‘ موجودہ و سابقہ حکمرانوں‘ سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں‘ صنعتکاروں‘ ججوں‘ جرنیلوں‘ صحافیوں اور سیاسی‘ کاروباری مولویوں کا بے لاگ احتساب ملک و قوم کی ضرورت ہے اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کی ضمانت۔ زیادتی کسی سے نہیں ہونی چاہیے ‘ناانصافی ہرگز روا نہیں مگر احتساب اور مواخذہ ہر کرپٹ‘ قانون شکن اور قوم کا لہو پی کر سرمائے کے انبار لگانے والے شخص کا ہونا چاہیے۔ یہاں کوئی مقدس گائے نہیں‘ ہم مسلمان ہیں اور یہ ہمارا ایمان ہے ۔بلیک میلنگ امریکہ کی ہو‘ بھارت یا اپنی طاقتور و خُون چُوس اشرافیہ کی ناقابل قبول ہے۔ اگر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔