نیب کے متعلق وزیراعظم کے مصرع ِ طرح پر مشقِ سخن جاری ہے۔ عمران خان کا ارشاد تھا: ''نیب کے پَر کاٹنے کی مزاحمت کریں گے‘‘۔ یہ ''گِرہ‘‘ اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ ابھی چند روزقبل خود خان کے اپنے صوبے خیبر پختونخوا میں، ان کے اپنے بنائے ہوئے احتساب کمیشن کے سربراہ جنرل (ر) حامد یہ کہتے ہوئے مستعفی ہوگئے کہ ان کے پر کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ ان کے زیرتفتیش بعض کیسز کا ''کھرا‘‘ چیف منسٹر ہاؤس تک جاتا ہے۔ وزیراطلاعات کو حکومت کا سب سے بڑا اسپوکس پرسن سمجھا جاتا ہے ، جناب پرویز رشید یہ نکتہ لائے کہ کسی کے پَر نہیں کاٹے جارہے لیکن ناخن بڑھ جائیں تو تراشنے پڑتے ہیں۔ اس پر مولا بخش چانڈیونے مصرع اُٹھایا: نون لیگ چاہتی ہے، ناخن صرف اس کے ہوں اور وہ سب کو نوچتی رہے جبکہ خورشید شاہ فکرودانش سے لبریز یہ مصرع لائے: سیخ پا ہونے کی بجائے نیب کی اصلاح کی طرف توجہ دی جائے، اس کا طریق کار ٹھیک کیا جائے۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو گلہ تھا کہ وزیراعظم کی بات کا بتنگڑ بنایا جارہا ہے۔ اُن کے خیال میں منتخب وزیراعظم کو کسی بھی اِدارے کی رہنمائی کا حق حاصل ہے۔ جاوید ہاشمی نیب کے مقابل''عیب‘‘ کا قافیہ لائے۔ اُن کے بقول جو ہمیشہ ''طاقتوروں‘‘کا آلۂ کار رہا اور سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور نئی جماعتیں تراشنے کے کام آتا رہا۔ ''باغی‘‘کویہاں وہ ستم بھی یادآئے جو احتساب کے نام پر خوداس پر ڈھائے جاتے رہے تھے ع
وہ درد جاگ اُٹھے لے کے پھر سے انگڑائی
وزیراعظم کے بیان پر اُٹھنے والا گردوغبار بیٹھ رہا ہے، تو مسئلے پر سنجیدہ بحث بھی اُٹھ رہی ہے۔ حکومت کے روایتی ناقدین کو بھی یہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں کہ نیب کے معاملات اصلاح طلب ہیں۔ اس بحث میں ہمارے دوست صدیق الفاروق کا ذکر بھی ہوا، جو میاں صاحب کے دوسرے دور میں ان کے پریس سیکرٹری اور 12اکتوبر99ء کی فوجی کارروائی کے وقت ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے چیئرمین تھے۔ چوتھے روز وہ بھی اُٹھا لئے گئے ۔ ہماری فہمیدہ بھابھی اُن کی تلاش میں کہاں کہاں نہ گئیںع
غمِ عاشقی تِراشکریہ ، ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
آخر کار وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے دروازے پر جاپہنچیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ کے پروڈکشن آرڈر پر 18مئی کو (سات ماہ سے زائد''گمشدگی ‘‘ کے بعد) عدالت میں پیش کرتے ہوئے ''سرکار‘‘ کا مؤقف تھا کہ ملزم کو ''ڈمپ‘‘ کرنے کے بعد وہ بھول ہی گئی ۔ اس موقع پر جسٹس شیخ ریاض احمد یہ کہے بغیر نہ رہے کہ خدا کا شکر ہے، نظر بند صدیق الفاروق زندہ سلامت ہے۔
پاکستان میں سیاسی مخالفین کے ''احتساب ‘‘ کی کہانی بڑی دلچسپ رہی ہے۔ بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان ‘‘ سے آغاز کریں تو سیاسی مخالفین کی Physical Elimination(پہلے ہی سال ڈاکٹر نذیر اور خواجہ رفیق کی شہادت) سے لے کر ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت بغاوت کے مقدمات تو معمول تھے ہی، چودھری ظہوراِلٰہی پر بھینس چوری کے (مضحکہ خیز) مقدمے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ اس عہدِ ستم سے قطع نظر، ہمارے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی حکومت میں کسی سیاستدان یا طاقتور بیوروکریٹ کا احتساب نہیں ہوسکتالیکن بعض حقائق اس کے برعکس بھی موجود ہیں۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے جناب محمد خان جونیجو پر سیاسی مخالفین کیا کیا پھبتیاں نہیں کستے تھے؟ وہ بلاشبہ جنرل ضیاء الحق کے Hand Picked تھے لیکن وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ اپنے ''خالق‘‘ کے مرغِ دست آموز بننے پر تیار نہ ہوئے۔ وہ Assertکرنے لگے ۔ اپنے باوردی صدر کی حکم عدولی میں بھی انہیں عار نہ ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر،اپنی کابینہ کے تین ارکان کی برطرفی اور اِن وزارتوں کے تین وفاقی سیکرٹریوں کے خلاف کارروائی بھی کر گزرے(ان تین وزرأ میں سیالکوٹ کے مردِ آہن انور عزیز بھی تھے۔)
البتہ 1988ء سے (محترمہ کی پہلی وزارتِ عظمیٰ ) ''احتساب‘‘ ، سیاسی انتقام کا ذریعہ بھی بنا۔یہ الگ بات کہ اتفاق فونڈریز میں ''بجلی چوری‘‘ کی چیکنگ اُلٹا وفاقی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بن گئی کہ یہاں بجلی کے میٹرز کی رفتار معمول سے زیادہ تھی۔ ''اتفاق‘‘ کے لیے خام مال لانے والے ''جوناتھن‘‘ جہاز کی کراچی پورٹ پر مہینوں تک بندش، احتساب کا ایک اور دلچسپ انداز تھا۔ صدر غلام اسحاق خاں نے 6اگست1990ء کو بے نظیر حکومت کی برطرفی کے لیے جن الزامات کو جواز بنایا، ان میں کرپشن کا الزام بھی تھا۔ مسٹرٹین پرسنٹ کا خطاب پانے والے جناب زرداری انہی الزامات کے تحت زیرحراست رہے اور پھرایوانِ صدر نے یہ دلچسپ منظر بھی دیکھا کہ نوازشریف حکومت کی برطرفی پر پیپلزپارٹی کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے (وہی )صدر غلام اسحاق خان انہی زرداری صاحب سے بلخ شیرمزاری کی عبوری کابینہ میں وزارت کا حلف لے رہے تھے۔ محترمہ کے دوسرے دور میں قائد حزبِ اختلاف میاں نوازشریف کے سوا، شریف فیملی کا کوئی فرد نہیں تھا جس کے خلاف مقدمات قائم نہ کئے گئے ہوں۔ شہبازشریف اور حمزہ اڈیالہ جیل میں رہے۔ شریف فیملی کے بزرگ میاں محمد شریف کو ایمپریس روڈ پر ان کے دفتر سے اُٹھا لیا گیا۔ گجرات کے چودھری برادران بھی گرفتار ہوئے۔ شیخ رشید پر کلاشنکوف ڈال دی گئی۔ اعجازالحق بھی گرفتار ہوئے لیکن اس پر ''طاقتوروں ‘‘ کا ردّعمل اتنا شدید تھا کہ مجسٹریٹ نے تھانے میں جا کر اس کی ضمانت لے لی۔
میاں صاحب کے دوسرے دور میں احتساب کا نیا سلسلہ تھا۔ بیشتر الزامات وہی تھے جو خود محترمہ کے اپنے صدر(فاروق لغاری بھائی) نے 5نومبر1996ء کو اُن کی برطرفی کے حکم نامے میں عائد کئے تھے۔ پھر احتساب کا نعرہ 1997ء کی انتخابی مہم کا اہم اور مقبول ترین نعرہ بن گیا۔ یہی دور تھا جب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو کرپشن کی عالمی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر قرار دیا۔ اس دور کی کرپشن کے سب سے زیادہ قصے خود مغربی ذرائع ابلاغ کی زنیت بنے۔ سرے محل کا انکشاف لندن کے سنڈے ایکسپریس نے کیا۔ یہ میاں صاحب کا دوسرا دور تھا، جب سیف الرحمن کی زیرقیادت احتساب سیل (جسے بعد میں احتساب بیورو کا نام دے دیا گیا)سرگرم ہوا۔ پاکستانی عدالتوں کے علاوہ حکومت نے سوئس عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ۔ اس کے لیے حکومت نے سوئس حکومت کے نام درخواست میں کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری نے مختلف کیسوں میں‘ جن میں اے آروائی گولڈ، آبدوزوں کے سودے، کوٹیکنا، ایس جی ایس ٹریکٹر سکیم، رائس ایکسپورٹس اور ٹیکسٹائل کوٹہ مینجمنٹ شامل ہیں، کمیشن اور کک بیکس کے ذریعے بھاری رقوم وصول کیں، بعض سوئس باشندوں نے ان کے ''فرنٹ مین‘‘ کے طور پر ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ ان کی دولت(کالا دھن) کوسوئس بنکنگ سسٹم کے ذریعے سفید بنانے میں اپنا کردارادا کیا۔ جس پر سوئس حکومت نے کرمنل انویسٹی گیشن کا آغاز کیا اور ٹھوس شہادتوں کی بنا پر بے نظیر بھٹو ، آصف زرداری ، نصرت بھٹو اور اُن کے فرنٹ مینوں کے اکاؤنٹ منجمد کردیئے جس کے خلاف سوئس باشندوں (فرنٹ مینوں) کی اپیل انویسٹی گیٹنگ جج ڈینیئل ڈیوارڈ نے مسترد کردی تھی۔ بعد میں ایک کیس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اورآصف زرداری کو سزا بھی ہوئی جس کے خلاف اپیل اس لیے معرضِ التوا میں پڑی رہی کہ جناب زرداری ہر پیشی پر امریکہ سے میڈیکل سرٹیفکیٹ بھجوادیتے تھے۔ ادھرپاکستان میں جسٹس قیوم ملک کی سربراہی میں دورُکنی بنچ نے بھی ایک مقدمے میں سزا سُنا دی تھی ۔ سپریم کورٹ نے اپیل میں انہیں بے گناہ تو قرار نہ دیا، البتہ اس سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمے کی ازسرِ نو سماعت کا حکم جاری کردیا۔اسی دوران 12اکتوبر1999ء ہوگیا۔ جنرل مشرف کے سات نکاتی پروگرام کا ایک نکتہ احتساب بھی تھا۔ احتساب بہت اہم تھا۔ یکم نومبر کو نئے قومی احتساب بیورو (نیب) کا اعلان کرتے ہوئے مشرف کا دعویٰ تھا کہ فوج اور عدلیہ سمیت سب کا احتساب ہوگا۔ جنرل امجد جیسا نیک نام جنرل اس کا سربراہ مقرر ہوا اور پھر نیب اور احتساب پر جو گزری، اس کی کہانی ''پڑھتا جا، شرماتا جا‘‘ والی تھی۔ اِسے سیاسی وفاداریاں خریدنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ پیر پگارا (مرحوم) نے دریا کو کوزے میں بند کردیا تھا: ''بیکریاں ہڑپ کرجانے والے بے گناہ قرار پائے(بلکہ اقتدار میں شریک بھی ہوگئے) کہ انہوں نے اطاعت قبول کر لی تھی اور پیسٹری کھانے والے معتوب ٹھہرے کہ انہوں نے سرکشی کی راہ اختیار کی تھی‘‘۔
جنرل شاہد عزیز، ڈکٹیٹر کے نہایت قابلِ اعتماد رفقا میں شمار ہوتے تھے‘ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں نیب کا چیئرمین بنادیا گیا۔ اس دور کی ساری کہانی انہوں نے ''یہ خاموشی کہاں تک‘‘؟ میں بیان کردی ہے۔ ایک منظر: ''صدر صاحب نے میز پر رکھے کاغذات کو ہاتھ کے جھٹکے سے دھکیلا، وہ پھسلتے ہوئے میز کے آخری سرے پر جا کر ٹھہر گئے۔ اُنہوں نے غصے سے مجھے گھورتے ہوئے کہا:
"I don't care what you have written in it. I don't even want to read it"
بھٹو فیملی کے خلاف مقدمات کو انہوں نے سیاسی سودے بازی کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھاجو 5اکتوبر 2007ء کو این آر او میں معاف کردیئے گئے۔