ایک زمانے سے میڈیا پر اور سیاسی جلسوں میں دہائی دی جا رہی ہے کہ اداروں سے تصادم ٹالا جائے۔ ہر جمہوری حکومت چاہتی ہے کہ ریاستی اداروں کو راتوں رات کنٹرول کر لے مگر ایسا کرنے میں اکثر ناکامی ہی ہاتھ لگتی رہی ہے۔ اگر کوئی ادارہ منتخب حکومت کے ہتھے چڑھ جائے تو سمجھ لیجیے اُس کی خیر نہیں۔ تمام ناکامیوں کا بدلہ اُس سے لے لیا جاتا ہے۔ پی آئی اے، پاکستان سٹیل اور واپڈا کو مثال کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہر منتخب حکومت اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کو کھپانے کے لیے ان اداروں کو ڈمپنگ گراؤنڈ کی حیثیت سے استعمال کرتی ہے اور اِس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔
قومی سلامتی سے متعلق اداروں اور منتخب حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی نئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کھینچا تانی ہی نے ہمارے لیے بہت سی مشکلات پیدا کی ہیں۔ کسی بھی منتخب حکومت کے لیے سلامتی کے اداروں پر ایک خاص حد تک اثر انداز ہونا ممکن ہے کیونکہ ان اداروں کا اپنا نظام ہے جس میں مداخلت سے عام طور پر بہت کچھ اور کبھی کبھی سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے مگر اب تک کسی نے ہوش کے ناخن لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
حکومت تشکیل دینے کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے بھی ریاستی اداروں کے ساتھ اُن کی مرضی کے مطابق چلنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ بھی اپنی بات منوانا چاہتی ہے اور اس حوالے سے اس کا رویّہ بھی کبھی کبھی انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے‘ اِس کے باوجود اُسے اِس بات کا احساس ضرور رہتا ہے کہ معاملات کو ایک خاص حد تک ہی ہاتھ میں لیا جا سکتا ہے۔ احتیاط کا دامن چھوڑنے کا مطلب اور نتیجہ وہ اچھی طرح جانتی ہے۔
ن لیگ کا معاملہ مختلف رہا ہے۔ 1999ء میں آرمی چیف کی تبدیلی کے وقت اُس نے جو مہم جُوئی فرمائی تھی اُس کا نتیجہ اپنی حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی بھی بساط لپیٹ دیے جانے کی صورت میں خود بھی بھگتا اور قوم کو بھی بُھگتوایا۔ اُس ایک مہم جُوئی نے ن لیگ پر ایوانِ اقتدار کے دروازے طویل مدت کے لیے بند کر دیے۔ پارٹی کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ قائدین سعودی عرب چلے گئے یا بھیج دیے گئے۔ اور 2007ء میں بے نظیر بھٹو سے طے پانے والے میثاقِ جمہوریت کے تحت شریف برادران کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی مگر خیر، اقتدار کے لیے اُنہیں مزید 6 سال انتظار کرنا پڑا‘ یعنی ٹھیک 14 سال بعد 2013ء میں ن لیگ کے آنگن میں ایک بار پھر اقتدار کا چاند نکلا!
ہندوؤں کی مذہبی داستانوں میں آیا ہے کہ ایودھیا کے راجا دشرتھ جی نے اپنے منجھلے بیٹے رام چندر جی کو 14 سال کے بن باس پر بھیجا تھا‘ یعنی اُنہیں جنگل میں اپنی اہلیہ سیتا اور چھوٹے بھائی لکشمن کے ساتھ 14 سال گزارنا پڑے تھے۔ شریف برادران نے بھی اقتدار سے محرومی کے جنگل میں 14 سال گزارے۔ اتنی لمبی مدت تک اقتدار سے دور رہ کر اُنہیں اندازہ ضرور ہو جانا چاہیے تھا کہ اقتدار سے محرومی کیا ہوتی ہے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کے اطوار کیا ہوا کرتے ہیں‘ مگر افسوس کہ ن لیگ کے قائدین نے بظاہر کچھ بھی نہیں سیکھا۔
ن لیگ کو غلطیاں کرنے اور اُن کے نتائج بھگتنے کا شوق ہے۔ غلطیوں کے حوالے سے ن لیگ کی تاریخ اپنے آپ کو پھر دُہرا رہی ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کے طے شدہ اور مسلّمہ نظام سے اُلجھنے کا معاملہ بھی ن لیگ کے لیے کبھی کبھار کی بات نہیں۔ جنرل (ر) جہانگیر کرامت سے جنرل (ر) پرویز مشرف تک ن لیگ نے جو کچھ کیا اُس کے نتیجے میں اور کسی کو نقصان پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو، جمہوریت کو بہرحال غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ سیاسی عمل ایسا تلپٹ ہوا کہ سنبھلنے اور سنبھالنے میں زمانہ لگ گیا۔
ہمیں یقین ہے کہ قارئین کو یاد ہی ہو گا کہ کسی زمانے میں ن لیگ نے بھی احتساب کے نام پر مخالفین کی گوشمالی شروع کی تھی اور اس حوالے سے سیف الرحمٰن اُسی طرح بدنام ہوئے تھے جس طور پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے رحمٰن ملک بدنام ہوئے۔ اب پھر احتساب کا غلغلہ ہے اور ن لیگ اپنی تاریخ دُہرانے پر تُلی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اِس بار احتساب کا چُھرا ن لیگ کے ہاتھ میں نہیں!
جب بھی کسی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کو احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو سیاسی انتقام کا الزام لگا کر دُہائیاں دی جاتی ہیں تاکہ میڈیا اور عوام کی ہمدردی بٹوری جا سکے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا احتساب شروع ہوا تو ظاہر ہے کہ اُن کی طرف سے وہی ردعمل آیا جس کا سب کو اندازہ تھا۔ مگر یہ بات اب تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ جب پنجاب میں ن لیگ کے خلاف اب تک واضح طور پر کوئی احتسابی کارروائی نہیں کی گئی تو حکومت کیوں چراغ پا ہے۔ لگتا ہے کہ ایک دو قریبی وزرا کو واضح ٹاسک دیا گیا ہے کہ انہیں یومیہ بنیاد پر نیب کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ایسا کہنا ہی ہے جس سے معاملات کا ''متنازع پن‘‘ برقرار رہے! یعنی کوشش یہ ہے کہ معاملات الجھے ہی رہیں، میڈیا کے محاذ پر کھڑی ہوئی توپوں کے لیے گولے کم نہ پڑیں!
سینیٹر پرویز رشید صاحب نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ نیب کو کسی بھی طور ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ ایک باضابطہ ریاستی ادارے کو قومی ترقی کی راہ میں دیوار یا رکاوٹ قرار دیا جائے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے حکومت کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے یہ بھی فرمایا تھا کہ قومی احتساب بیورو کے طریق کار اور قوانین کے حوالے سے بیشتر سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں۔ اور یہ کہ اتفاق رائے سے نیب کی اصلاح کی جائے گی۔
اتوار کو ٹیکسلا کے اورنج فیسٹیول میں پرویز رشید نے ایک بار پھر اپنی ''توپ البیان‘‘ کا رخ نیب کی طرف کیا اور اِس بار وہ زیادہ جارحانہ موڈ میں دکھائی دیے۔ انہوں نے محض اصلاحات کی بات کرتے کرتے ناخن تراشنے کی بات بھی کر ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے افسران نیب سے خائف ہیں کیونکہ بعض منصوبوں کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز پر بھی نیب کے اعتراضات سامنے آتے ہیں۔
اہل وطن حیران ہیں کہ قومی تاریخ کے ایک انتہائی اہم موڑ پر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ایک طرف بیرونی دشمن جان کے درپے ہیں۔ دوسری طرف اندرونی دشمن ہیں جو سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دے رہے۔ ایسے میں منتخب حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان کھینچا تانی؟ یہ تو ستم بالائے ستم والی بات ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کس کو سمجھایا جائے، ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ کیا جائے۔
اگر ن لیگی وزرا اور رہنماؤں پر حرف آ رہا ہوتا تو اُس کا چراغ پا ہونا فطری امر ہوتا‘ مگر یہاں تو ن لیگ کو افسران کی فکر بھی لاحق ہو گئی! کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ن لیگ اب بہت سے افسران یعنی حکام کے مفادات کی نگہبان ہونے کا اعتراف بھی کر رہی ہے؟ اور ظاہر ہے کہ ایسی نگہبانی فی سبیل اللہ تو نہیں ہوا کرتی!
کرپشن کی روک تھام کے دعوے سبھی کرتے ہیں اور اس معاملے میں ن لیگ تو ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ تو پھر اب کرپشن کی روک تھام کے پورے نظام ہی پر سوالیہ نشان لگانے کی تیاری کیوں؟
اس حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ اس بار ن لیگ کی منتخب حکومت کو باندھ کر رکھنے کی کوشش کچھ زیادہ ہی کی گئی ہے۔ جنہیں جو کرنا ہے وہ کر ہی رہے ہیں مگر خود ن لیگ کیا کر رہی ہے۔ اس نے اپنے وجود کو پنجاب تک محدود کر لیا ہے اور سوچ لیا ہے کہ کسی اور صوبے کے ساتھ خواہ کچھ ہوتا رہے، جب پنجاب کی بات آئے گی تو شور مچا کر اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کر گزرے گی! چھوٹے صوبوں کی کرپشن اور بدانتظامی دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے پاس ن لیگ کو نو گزا پیر بنانے کا سنہرا موقع موجود ہے مگر وہ اپنی جماعت کو شاہ دولہ کے چُوہے میں تبدیل کرنے کے درپے ہیں! کیوں؟ اِس کیوں پر پوری پارٹی کو غور کرنا چاہیے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ اِس بار ن لیگ اپنی تاریخ نہ دُہرائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ، خاکم بہ دہن، جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کی تاریخ بھی خود کو دُہرائے!