امریکہ کوپاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں لا حق خطرات کی دیرینہ پریشانی ایک بار پھر دامن گیر ہو گئی کہ'' کہیں پاکستان کے ٹیکٹیکل ایٹمی اثاثوں کو کوئی انتہا پسند نہ لے اُڑ ے؟۔‘‘ ہمارے ایٹمی اثاثوں پر سب سے زیا دہ فکر مند رہنے والوں کا یہ پیار بھرا خدشہ اس وقت پھر سامنے آگیاجب پاکستان کو آٹھ ایف سولہ امریکی جنگی طیاروں کی فروخت کا اجا زت نامہ جاری کیا جا رہا تھا‘ امریکہ کے اس رویے کو آپ گاجر اور چھڑی والا پرانا نسخہ سمجھ سکتے ہیں ۔ وائٹ ہائوس میںمحکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے بارہ فروری کو میڈیا کے سوالوں کے جوا ب میں بتایا: ہمیں پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے بارے میں خدشات ہیں کہ کہیں یہ غلط ہاتھوں میں نہ چلے جائیں۔امریکہ کے مخصوص ادارے کی خفیہ نگرانی میں کام کرنے والے کارنیگی اور سٹمسن ریسرچ فائونڈیشن کی جاری کر دہ حالیہ رپورٹ سامنے رکھیں تو وہ اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ پاکستان کے پاس سالانہ20 ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت ہے ‘جبکہ اس کے مقابلے بھارت کے پاس صرف پانچ ایٹمی ہتھیار سالانہ کی صلاحیت‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت کے مقابلے میں کہیں زیا دہ برترہے۔امریکہ کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ونسنٹ سٹیورٹ نے امریکہ کی سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستان نے اپنے ایٹمی اثا ثوں کی حفاظت کے بلا شبہ قابل تعریف انتظامات کر رکھے ہیں اور امریکہ کو اُمید ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کی حفاظت پر پہلے سے بھی زیا دہ اور بھر پور توجہ مر کوز رکھے گا۔ امریکی جنرل سٹیورٹ نے اپنی رپورٹ کے آخر میں تسلیم کیا کہ '' پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیتوں میں دن بدن ترقی کرتا جا رہا ہے۔‘‘
یہ پاکستان کا یا اس کی آئی ایس آئی کا قصور تو نہیں ہے کہ اگر بھارت کے پاس صرف اس قدر صلاحیت ہے کہ وہ سال میں صرف پانچ ایٹمی ہتھیاروں تک ہی محدود ہو چکا ہے۔ امریکہ سمیت روس اور مغرب کی عالمی قوتیں بھارت کی پچیس سالوں سے بھی زیا دہ عرصے سے در پردہ ہر قسم کی مدد کرنے کے با وجود اس کی ایٹمی صلاحیتوں کو پاکستان کے برا بر نہیں لا سکیں تو اس کا غصہ پاکستان پر نکالنا کسی طور مناسب نہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کے جنگی جنون میں مبتلا ہمسائے کو کہنا پڑا ہے۔'' پاکستان کو ایف سولہ جنگی طیارے ملنے کی خبروں نے اسے انتہائی دکھی کر کے رکھ دیا ہے‘‘ لگتا ہے کہ یہ دکھ اس کی جان کا روگ بن کر رہ گیا ہے جو خود امریکہ، برطانیہ، جرمنی ، کینیڈا، اسرائیل ، فرانس اور روس سے انتہائی تباہ کن اسلحے خرید کر اس کے انبار لگا رہا ہے۔
آج دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی میں بھارت کا نام ٹاپ 10 میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے ایک سو سے زائد چوٹی کے دانشوروں، آرٹسٹوں ، لکھاریوں اور ادیبوں جنہیں ان کی بہترین قومی خدمات کے عوض بھارتی حکومت نے مختلف وقتوں میں ایوارڈز سے نوازا تھا نے اپنے ایوارڈز بھارتی حکومت کی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نفرت انگیز انتہا پسندی کے خلاف احتجاجاًواپس کر دیئے ہیں۔ صدر پرناب مکھر جی نے مودی حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ'' بھارت کی انتہا پسندی ہمیں عالمی برادری میں تنہا کرتی جا رہی ہے‘‘۔ یہ تو کل کی بات ہے کہ مدراس ہائیکورٹ کے جسٹس کانت بھری عدالت میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ '' کاش میں بھارت میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ نسلی اور مذہبی انتہا پسندی کے اس سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے مجھے خود کو بھارت کا شہری کہتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے ‘‘۔بھارت میں ہر جانب اس شدت کی انتہا پسندی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کسی بھی وقت بھارت کے ایٹمی اثاثے کسی ا نتہا پسند ہندو تنظیم کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں۔ کیا امریکیوں کو یاد نہیں ‘ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس کی بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات ا نتہا پسندی اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی پر امریکہ میں داخلے پر پابندی تھی۔ مودی نے این ڈی ٹی وی پر سینہ تان کر کہا کہ وہ پاکستان کے خلاف وہی کچھ کرے گا جو اس نے 2002ء میں بحیثیت وزیر اعلیٰ بڑودہ گجرات میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔ ایسا وزیراعظم تو کسی بھی وقت جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کر سکتا ہے جس سے اس کے ایٹمی اثاثے کرنل پروہت جیسے کسی انتہا پسند فوجی گروپ کے ہاتھ لگ جائیں۔ مغربی ممالک کے میڈیا پر یہ خبر تو دھوم مچا گئی جس میں داعش کے لوگ ایک لڑکے کو میوزک سننے پرذبح کر رہے ہیں لیکن بھارت کی بیس فروری کی وہ خبر بتانے سے سب نہ جانے کیوں ڈر رہے ہیں جس کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کو موبائل فون رکھنے اور اسے استعمال کرنے پر سزا کے طور پر پانچ دن شہر میں جھاڑو دینا پڑے گا؟۔ کیا یہ فیصلہ داعش سے ملتا جلتا نہیں ہے؟۔ انتہا پسندی ایسا نفسیاتی مرض ہوتا ہے جس میں مبتلا لوگوں میں نیکی اور بدی کی تمیز نہیں رہتی ۔
کیا یہ سچ نہیں کہ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے ہر اہم اور حساس اداروں میں آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے لوگوں کی تعیناتیاں زوروں پر رہیں جن کی پاکستان دشمنی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ یہ وہ سوچ ہے جس کے شکار بھارتی پہلے دن سے ہی پاکستان کے وجود کوسرے سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ آر ایس ایس دنیا کی بد نام ترین انتہا پسند تنظیم ہے جس نے بھارت کے ''بابو‘‘
مہاتما گاندھی کو صرف اس جرم میں قتل کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں نرم رویہ کیوں رکھنے لگے تھے۔بھارت کی بری، بحری، فضائی افواج کے حساس اداروں کے علا وہ پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں میںکرنل پروہت اور میجر رمیش جیسے وشوا ہندو پریشد کے دہشت گردوں کی بھر مار ہے جن کی زندگیوں کا اولین مقصد ہی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اگر بھارت کے ایٹمی اثاثے لگ جائیں تو اس سوچ کے گروپوں سے کچھ بھی بعید نہیں ہو سکتا۔جس تنظیم کو بھارتی فوج سے ریٹائر ہونے والے انتہا پسند فوجی افسران تربیت دینے پر مامور ہوں‘ جن کی برین واشنگ کیلئے برہمچاری قسم کے آر ایس ایس کے پنڈٹ اور سوامی لیکچر دیتے ہوں‘ انہیں مسلم دشمنی میں چلتے پھرتے بم بننے سے کون روک سکتا ہے؟۔ جہاں کی ہندو آبادیوں میں شبانہ اعظمی اور ان کے مشہور ترین شاعر شوہر کو کوئی ہندو اپنا یا اپنے قریب کا گھر کرائے پر لینے یا دینے کیلئے تیار نہ ہو کہ وہ نام کے ہی سہی مسلمان تو ہیں، جو سمجھوتہ ایکسپریس کو تباہ کرتے ہوئے بخوبی جانتے ہوں کہ اس میں سفرکرنے والے صرف مسلمان ہیں‘ چاہے وہ بھارتی ہوں یا پاکستانی‘ ایسے نفسیاتی مریض جو گجرات میں ایک سے دس سال کے مسلم بچوں کو زندہ آگ میں جلتا دیکھ کر ان کے گرد وحشیانہ رقص کرتے ہوں ان کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آ جائیں تو ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔