ابھی جدوجہد ہے اور عارف کا وہ جملہ: راہ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے۔
سرکاری اخبار نویسوں کو پلڈاٹ کے خلاف مہم چلانی چاہیے۔ احمد بلال محبوب کے وہ کمزور پہلو تلاش کریں۔ کچھ گھڑ لیے جائیں۔ یہ جسارت انہوں نے کیسے کی کہ نون لیگ کو سب سے زیادہ غیر جمہوری جماعت کہا۔
دلیل یہ ہے کہ حکمرانوں کو عوام کا اعتبار حاصل ہے۔ قوم سے اگر پوچھ لیا جائے کہ فوج اور حکومت میں وہ کس پر زیادہ اعتماد رکھتی ہے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ کبھی اس طرح کے سروے کیے جاتے تھے۔ تین برس ہوتے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف نے بتایا: اب انہوں نے یہ سوال پوچھنا چھوڑ دیا ہے۔ کیوں چھوڑ دیا؟
فوج فرشتوں کی نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پہاڑ سی غلطیاں اس نے کی ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل آغا محمد یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف، سبھی نے۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے عوامل ایوب خان کے عہد میں پھوٹے۔ یحییٰ خان کے دور میں اکثریتی آبادی کا خطہ کھو دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ آیا تو فرقہ واریت بڑھی، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پھیلا۔ پرویز مشرف نے روشن خیالی کا ماحول مرتب کیا۔ ادبی میلے کے نام پر بھارت کے میراثی، بھانڈ اور ڈوم جس میں ہیرو ہوئے۔ ایم کیو ایم عسکری طور پر دوبارہ منظم ہوئی۔
معاشی نمو بھی مگر انہی ادوار میں ہوئی۔ ایوب خان نے صنعت کو فروغ دیا اور زراعت کو بھی۔ ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے زمانوں میں غربت کم ہوئی۔ بنگال کو خاک و خون میں نہلا کر حریف بنا دیا گیا تو عسکری قیادت کے علاوہ اقتدار کے بھوکے قائدِ عوام بھی شریکِ عمل تھے۔ میاں محمد نواز شریف فقط جنرل محمد ضیاء الحق کے طفیل پروان چڑھے۔ وگرنہ وہ ایک صنعت کار کے سوا کیا ہوتے؟ ایسا صنعت کار جو اتفاق فائونڈری پر لیا گیا قرض سترہ برس تک ادا نہ کر سکا۔ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار مستحکم کرنے میں سیاستدانوں کا دخل کم نہیں۔ انہیں بدعنوان اور نااہل قرار دیا جائے تو یار لوگ برا مانتے ہیں ؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں ہے
امریکہ اور برطانیہ تو کیا، بھارت میں بھی فوج اقتدار سنبھالنے کی جرات نہیںکر سکتی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ملک کے پہلے (پارسی) سربراہ کری آپا کو صرف اس لیے برطرف کر دیا تھا کہ نجی گفتگو میں انہوں نے سیاست پر بات کی۔ پھر فضائیہ، بحریہ اور بری افواج کے تینوں قائدین کو سبکدوش کر دیا۔ صرف اس پر کہ وزیرِ دفاع کی بجائے براہِ راست وزیرِ اعظم سے انہوں نے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ پنڈت جواہر لعل ان سے کیوں ڈرتے؟ وہ اخلاقی اساس کے حامل تھے۔ قائدِ اعظم کے بعد اکثر پاکستانی سیاستدان ساکھ سے محروم تھے۔
دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ 1977ء کا مارشل لا پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں سمجھوتے کے بعد نافذ ہوا۔ سفید جھوٹ! اگر ایسا ہوتا تو جولائی 1977ء ہی میں بھٹو اور ان کے حریف یہ بات کیوں نہ کہتے؟ پروفیسر عبدالغفور احمد بھلے آدمی تھے مگر یہ موقف انہوں نے کئی برس کے بعد اختیار کیا۔ جنرل کی کابینہ میں وہ شامل رہے؛ تا آنکہ 1979ء کے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اثنا میں پیپلز پارٹی ایسی معتوب تھی کہ اس کے کارکنوں پر کوڑے برسائے جاتے۔ پی این اے سے لاڈ پیار کیا جاتا۔ ''جماعتِ اسلامی سیاسی سرگرمی کا مظاہرہ کرتی ہے تو میں ایک آنکھ بند کر لیتا ہوں۔ مسلم لیگ ایسا کرے تو دوسری آنکھ بھی۔‘‘ جنرل نے ایک بار کہا تھا۔ میاں طفیل کی جماعتِ اسلامی اور پیر پگاڑا شریف کی مسلم لیگ ہی نہیں، عبدالولی خان اور حنیف رامے بھی بھٹو کے احتساب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ولی خاں نے کہا تھا: قبر ایک ہے اور آدمی دو۔ ان کی آرزو کیا تھی؟ جولائی 1977ء میں حنیف رامے جنرل سے ملے تو مکر گئے۔ سوال اٹھایا تو بگڑے اور بولے: آپ لوگ مجھی پر اتنے مہربان کیوں؟
میاں صاحب محترم 1985ء میں دھاندلی سے جیتے۔ جماعتِ اسلامی نے ثبوت دکھائے تو قومی اسمبلی کی نشست اسے دان کر دی۔ باقی تاریخ ہے۔
بھارت میں سیاسی پارٹیاں مضبوط اور ملک گیر تھیں۔ فوجی سربراہوں کی برطرفی کے بعد نہرو نے یہ کہا تھا: اقتدار کی آرزو اب دفن ہو جائے گی۔ پاکستان میں شخصیات غالب تھیں۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مضبوط شخصیات بھی باقی نہ رہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل کرنے کے لیے سیاستدان ایک دوسرے کو غدار قرار دینے لگے۔ اپوزیشن تو رہی ایک طرف، آزاد پریس بھی گوارا نہ تھا۔ ایوب خان کے عہد میں اخبارات اگر پا بہ زنجیر تھے تو بھٹو کے دور میں اس سے زیادہ ۔ میاں محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی کے لیے آئینی ترمیم مرتب کر لی تھی۔ یہ کہ وزیرِ اعظم کو آئین میں حسبِ منشا تبدیلی کا اختیار دے دیا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا کی آزادی ایک فوجی آمر کا تحفہ ہے۔ نواز شریف یا بے نظیر بھٹو سے کبھی اس کی امید نہ کی گئی۔ ذہنی اور فکری طور پر یتیم اخبار نویسوں کی وہ ہمیشہ سرپرستی کرتے رہے۔ اب بھی کرتے ہیں۔ 2008ء میں عباس اطہر مرحوم اور جناب عبدالقادر حسن کی موجودگی میں خادمِ پنجاب سے یہ سوال کرنے کی جسارت کی تھی کہ اس فیّاضی سے آپ کو کیا ملا؟
قائم علی شاہ اور شہباز شریف سے تو کیا امید، کپتان بھی احتساب کا مضبوط ادارہ نہیں بنا سکتا۔ کابینہ بغاوت کر دے گی۔ احتساب کمیشن کے اختیارات اسی کے ایما پر محدود کیے گئے۔ آئندہ بھی محدود ہی رہیں گے۔ سوال ہے کہ کسی جنرل کا احتساب کیو ں نہیں؟ جنرل کیانی کے دور میں دو فوجی افسروں کو سزا دی گئی۔ کرپشن نہیں، جرم فقط یہ تھا کہ سرمایہ کاری کے باب میں ایک ناقص فیصلہ صادر کیا۔ اب خود کیانی صاحب کے بھائیوں پر نیب چڑھ دوڑی ہے۔ ایک بھی ثبوت بدعنوانی کا ابھی تک نہیں ملا۔ صرف انہی پر نہیں، جنرل پر بھی تبرّیٰ ہے۔ اپنے بھائیوں کو انہوں نے کاروبار کی اجازت کیوں دی؟ حمزہ شہباز، سلمان شہباز، حسن نواز اور حسین نواز کے بارے میں یہ بات کیوں نہیں دہرائی جاتی؟ شریف شہزادے دودھ بیچتے ہیں اور مرغیاں بھی۔ ایل ڈی اے سٹی کے لیے پنجاب حکومت نے خواجہ سعد رفیق ہی پر عنایت کیوں فرمائی؟ اپنے ذاتی کاروبار کا معائنہ کرنے کے لیے بھاگ بھاگ کر وزیر اعظم لندن جاتے ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں اختلاف کس بات پر ہے؟ زرداری صاحب صوبے میں لوٹ مار کا لائسنس مانگتے ہیں۔ میاں صاحب کو اعتراض نہیں۔ اگر ہے تو اس پر کہ کراچی میں لاشیں نہ گریں۔ خادمِ پنجاب نے یہ حیران کن دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت میں کوئی کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔
سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے اپنے بعض گورنروں کو سزا دی تھی۔ پھر ملوکیت آئی اور زوال شروع ہو گیا۔ پھر حسین ابنِ علیؓ کا سر نیزے پر رکھا گیا۔ تین سو برس سے مغرب کی حکمرانی ہے کہ قانون بالاتر ہے۔ سوویت یونین اسی لیے ٹوٹا اور یتیم سوشلسٹ اب اسی لیے امریکہ کے دسترخوان پر ہیں کہ سوویت یونین اور مائوزے تنگ کے ادوار میں من مانی کے لیے انقلابی حکمران آزاد تھے۔
اکیسویں صدی کا نظامِ حکومت فوج تشکیل نہیں دے سکتی۔ ادبار کا علاج سیاسی پارٹیوں کی جمہوری تشکیل میں ہے۔
عسکری قیادت کی مدد سے نہیں، ایک شائستہ جمہوری جدوجہد سے زرداری اور نواز شریف کو پیچھے دھکیل دیا جائے گا تو سلطانیء جمہور کا در کھلے گا۔ اب جدوجہد ہے اور عارف کا وہ جملہ: راہ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے۔