بہار آتی تھی تو دارالحکومت پھولوں سے بھر جاتا تھا۔ شاہراہوں پر دو رویہ درخت ایسے ایسے ملبوس پہنتے تھے کہ نظریں خیرہ ہو جاتی تھیں۔ پارک اور باغات بچوں اور پرندوں سے چھلکنے لگتے تھے۔ صرف ڈرائیو کرنا بھی ایک دلکش تفریح ہوا کرتی تھی، مگر یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اب اس شہر میں پولیس کے ناکے ہیں، شاہراہیں کھدی ہوئی ہیں، ہر طرف کرینوں اور قوی ہیکل مشینری کے انبار ہیں، گاڑیوں کی رکی ہوئی طویل قطاریں ہیں اور ہر شخص کے اپنے گھر والوں کو پیغامات ہیں کہ فلاں جگہ ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوں اور تادمِ تحریر زندہ ہوں! اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بہار آئی ہے یا نہیں۔ فروری کا اختتام ہو یا مارچ کا آغاز، پھول ہیں نہ بچے نہ پرندے!
بہار یوں بھی بخت کی طرح اپنی اپنی ہے۔ اپنا اپنا بخت اپنی اپنی بہار! کرۂ ارض دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ نصف کرۂ شمالی میں، جس میں ہمارا خطہ بھی شامل ہے۔ بہار ہوتی ہے تو جنوبی افریقہ، برازیل، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور بہت سے دوسرے ملک خزاں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے طالب علم لٹریچر پڑھتے وقت عجیب الجھن میں ہوتے ہیں۔ انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی شاعری مارچ اپریل کی بہار سے بھری ہوتی ہے، مگر ان ملکوں میں خزاں کا دُور دورہ ہوتا ہے۔ کرسمس انگلستان اور یورپ میں سرما، برف اور آتش دان سے وابستہ ہے، آسٹریلیا میں کرسمس آتی ہے تو گرمیاں زوروں پر ہوتی ہیں۔ اس محرومی کا مداوا یوں کیا گیا ہے کہ ایک مصنوعی قسم کی کرسمس جولائی کے وسط میں بھی منائی جاتی ہے، جب سردی جوبن پر ہوتی ہے ع
اپنا اپنا بخت! اپنی اپنی بہار!
عاشقوں کی اور شاعروں کی بہار کیا ہے؟ جب جنون عروج پر ہو۔ جب چاند میں کوئی شکل نظر آئے، جب پاگلوں کو زنجیر کر دیا جائے۔ میرؔ نے کہا تھا ؎
کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
فانیؔ بدایونی کی بہار تو موت کے جلو میں آتی تھی ؎
فصلِ گل آئی یا اجل آئی کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
یہ اور بات کہ آج کا نوجوان شاعر علیؔ یاسر مایوس نہیں، اس کی بہار وصال سے عبارت ہے۔ وصال خواب میں بھی ہو تو بہار آفریں ہے ؎
رنگ و بُو رہتے ہیں وابستہ مرے پہلو سے
خواب میں ہاتھ ملایا تھا کسی گُل رُو سے
جمہوریت کی بہار کیا ہے؟ پورا اختیار پارلیمنٹ کا ہو۔ اوباما ہو یا ڈیوڈ کیمرون، مودی ہو یا نواز شریف، پارلیمنٹ کے پابند ہوں۔ کوئی کچن کیبنٹ ہو نہ حلقۂ خاص۔ کوئی اے پی سی ہو نہ کوئی ظاہری یا باطنی قوت، اورنج ٹرین ہو یا اقتصادی راہداری، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا نیب کے اختیارات کا معاملہ، جو مسئلہ بھی ہو، جس نوعیت کا بھی ہو، پارلیمنٹ میں اس کا فیصلہ کیا جائے۔ جمہوریت کی بہار یہ بھی ہے کہ حکومت کا سربراہ پارلیمنٹ میں آنے کا، آ کر بیٹھنے کا، بیٹھ کر سوالوں کا جواب دینے کا پابند ہو۔ اگر سربراہ حکومت مہینوں دارالعوام کو منہ ہی نہیں دکھائے گا اور قوت کو پارلیمنٹ سے نکال کر، کہیں اور مجتمع کر دے گا تو جمہوریت خزاں زدہ ہو جائے گی۔ پارلیمنٹ میں خشک زرد پتے اڑنے لگیں گے۔ عوامی قوت کا درخت ٹنڈمنڈ ہو جائے گا۔
جمہوریت کی بہار کا یہ بھی تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے، بے غرض اور درد مند ارکان بیٹھے ہوں۔ اگر جدی پشتی قریشی، گیلانی، لغاری، مزاری‘{ بگتی، زہری، رئیسانی اور چوہدری قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں آتے رہیں گے اور سفید فام آقائوں سے لی ہوئی جاگیروں کے بل بوتے پر مجبور قبائلیوں اور بے بس ہاریوں، مزارعوں سے ووٹ بٹورتے رہیں گے تو جمہوریت کے پودے پر کبھی سبز کونپلیں اور سرخ پھول نہیں کھلیں گے۔ قوم نے جن آمروں سے جان ہتھیلی پر رکھ کر نجات حاصل کی، ان کی ذریت اگر حکمرانی کرتی رہے گی تو کہاں کی جمہوریت اور کون سے پھل پھول!!
آمریت کی بہار کیا ہے؟ سارا ملک خزاں کے پنجے میں ہو، خفیہ پولیس دندناتی پھر رہی ہو، ایک ہی خاندان کے لوگ اداروں پر قابض ہوں۔ فوج اپنے ہی لوگوں کو مارتی پھرے۔ پھول صرف ایوانِ اقتدار میں کھلیں، اس آمریت کی بہاریں انڈونیشیا نے سوہارتو کے زمانے میں دیکھیں جب سہارتو کی بیگم کو ''مادام ٹین پرسنٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ حافظ الاسد اور اب بشارالاسد اور حسنی مبارک آمریت نے خوب خوب بہاریں دکھائیں۔ پاکستانی عوام کی ہمت ہے اور خوش بختی بھی کہ ہمارے ہاں آمریت آئی بھی تو ہمارا حشر الحمدللہ وہ نہ ہوا جو انڈونیشیا، مصر، شام اور تیونس کے عوام کا ہوتا رہا۔
ترقی کی بہار کیا ہے؟ یہ کہ عوام کے کام سفارش کے بغیر ہوں، ادارے مضبوط ہوں۔ سکولوں میں داخلے ہوں یا ملازمتوں کا حصول، یا ترقیاں تبادلے اور تعیناتیاں، یا ٹیکس کی ادائیگی، سب کچھ آسانی سے ہو اور میرٹ پر ہو۔ ترقی کی بہار دیکھنی ہو تو سنگاپور، کینیڈا، ڈنمارک، جاپان، ہانگ کانگ اور سوئٹزرلینڈ جیسے ملکوں میں دیکھیے۔ کسی شخص کو دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں نہ پولیس کسی کو ڈرا دھمکا سکتی ہے۔ اکثریت دیانت داری سے ٹیکس دیتی ہے اور ریاست جان و مال کی حفاظت کے علاوہ بوڑھوں، بچوں اور بے روزگاروں کی کفالت بھی کرتی ہے۔
ایک بہار کبھی کبھی پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی آتی ہے جب بہار کی آمد کا غلغلہ برپا ہوتا ہے اور شعرا آکر شاعری کے پھول کھلاتے ہیں۔ سکرین رنگوں سے بھر جاتی ہے۔ مدت ہوئی یہ بہار پی ٹی وی پر اس وقت آئی تھی جب آغا ناصر ٹی وی کے مدارالمہام بنے تھے۔ پہلی بار ان شاعروں کو بلایا گیا جو قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہوئے تھے یعنی جو بائی برتھ پاکستانی تھے۔ پھر مدتیں گزرتی گئیں، پی ٹی وی خزاں زدہ رہی۔ اب ایک اور ادیب آیا ہے تو اس ادارے نے
انگڑائی لی ہے۔ عطاء الحق قاسمی نے آ کر اسے جھنجھوڑا ہے اور آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا ہے۔ اب کے بہار کی آمد پر پی ٹی وی نے ایک نہیں دو مشاعرے برپا کیے اور ان شاعروں کو بھی گھروں سے اٹھا لائی جنہیں ''سکرین مافیا‘‘ درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا تھا۔ ایک مشاعرہ نوجوانوں کا تھا یعنی متاخرین کا! شکیل جاذب نے نظامت کی اور سماں باندھ دیا۔ پھر ایک اور مشاعرہ ہوا جو چِٹ سرے یعنی سینئر شعرا پر مشتمل تھا۔ انہیں آپ متقدمین بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ اور بات کہ متاخرین میں کچھ متوسطین بھی تھے۔ رچنا کے مصنف، شاعرِ خوش گفتار علی اکبر عباس نے نظامت کی تو ''اودے اودے، نیلے نیلے، نیلے پیلے پیرہن‘‘ سے لے کر ''غنچہ ہے اگر گل ہو، گل ہے تو گلستان ہو‘‘ تک بکھرے پھولوں کو اکٹھا کیا اور بادِ بہار کے جھونکوں سے منظرنامہ تبدیل کر کے رکھ دیا۔
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ دو بار اساتذہ کو وفاقی سیکرٹری تعلیم لگایا گیا۔ ایک بار ڈاکٹر اجمل صاحب کو اور ایک بار ڈاکٹر زیڈ اے ہاشمی کو، مگر دونوں کے عہدِ اقتدار میں سب سے زیادہ ناخوش ان کی اپنی ہی برادری رہی۔ گویا چراغ تلے اندھیرا رہا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا معاملہ الٹ ہے۔ آغا ناصر اس ادارے کے جب تک سربراہ رہے، اہلِ قلم کو اہمیت دی جاتی رہی۔ اب ایک اور ادیب نے زمام سنبھالی ہے تو پی ٹی وی کی روایتی گردن بلند بیوروکریسی شاعروں اور ادیبوں کو خاطر میں لانے لگی ہے، بلکہ سلام بھی کرنے لگی ہے۔ گھٹا چھائے اور بارش کے آثار ہوں تو دو طبقے خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔ شاعر اور کسان۔ شاعر تو اِن دنوں خوش ہیں۔ دعا کیجیے، کسان بھی خوش ہوں، خدا کرے ہماری زمین سونا اگلے، کھیت لہلہائیں اور آسودگی کا دور دورہ ہو۔