کشور ناہید کی کتاب کا چھپنا تو ایک خبر ہے ہی‘ وہ جو کچھ بھی کرے‘ جہاں بھی آئے‘ جائے ایک خبر سے کم نہیں ہوتا۔ وہ ایک ایسا دستخط ہے جس کے بغیر ہمارے شعر و ادب کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ پچھلے دنوں انتظار حسین پر اس کے کالم کا عنوان تھا: کاش میں انتظار حسین کی طرح لکھ سکتی‘ ہو سکتا ہے کبھی انتظار حسین نے بھی یہ خواہش کی ہو‘ میں تو کئی بار کر چکا ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آدمی اپنی ہی طرح کا لکھتا ہے‘ اور یہ بھی کہ جیسے دوسرے کی بیوی اپنی بیوی سے زیادہ خوبصورت لگتی ہے‘ اسی طرح دوسرے کا لکھا ہوا بھی۔ وہ اپنے لکھے ہوئے ہر لفظ میں اپنی پوری شخصیت بھر دیتی ہے جس کے کئی رُخ ہیں‘ کئی طرفیں ہیں۔ اس کے بغیر نہ ہماری گفتگو مکمل ہوتی ہے نہ کوئی مجلس‘ اس کا ہر شعر‘ ہر لفظ وہ خود ہے۔ وہ ہمیں اشارے کرتی رہتی ہے‘ اپنی رنگ رنگ کی کتابوں کے ذریعے ''آباد خرابہ‘‘ اس کا تازہ اشارہ ہے!
اُس کے مدّاحوں کو اس کی نئی نظم کا انتظار رہتا ہے جو ایک یا دو مخصوص رسالوں کے بغیر آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گی۔ یہ کتاب حسب معمول سنگ میل پبلی کیشنز ہی نے چھاپی ہے جس میں نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی۔ نظم اس کا زیادہ مضبوط اور کارگر اشارہ ہے جس میں وہ زندگی کے سارے موضوعات اور مسائل پر کمنٹ کرتی نظر آتی ہے‘ ایک کمٹ منٹ اور ایک اتھارٹی کے ساتھ‘ اور صاف بتاتی رہتی ہے کہ وہ اندر سے کیا کیا کچھ ہے۔ اس نے ایک دنیا دیکھی ہے اور دنیا کو اپنا آپ بھی دکھایا ہے کہ دیکھو‘ ایک لکھاری کو اس طرح کا ہونا چاہیے۔
اس مختصر اور سمارٹ سی کتاب کا کوئی دیباچہ ہے نہ انتساب۔ پہلی ہی نظم ''خواہش‘‘ کو آپ اس کا پیش لفظ بھی کہہ سکتے ہیں جو کچھ اس طرح سے ہے :
میں منٹو کی طرح/اپنا کتبہ خود تجویز کرنا چاہتی ہوں/اُس نے لکھا تھا/وہ اس زمین کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے/سچ ہے وہ تھا بھی/عورت پہ ہونے والی زیادتیوں کو/افسانے کا روپ اس زمانے میں دیتا تھا/جبکہ ساری دنیا کی عورتیں/اپنے حقوق کے لیے جاگی نہیں تھیں/پاکستان نے اس پر دشنام کے اتنے چھینٹے پھینکے/کہ وہ ناراض ہو کر/اپنا افسانہ دس روپے میں فروخت کرنے لگا/دشنام کے چھینٹوں نے میرے لباس کو بھی/بے لباسی میں تبدیل کر دیا ہے/مگر میں خود کو اپنے عہد کی/سب سے بڑی شاعرہ نہیں کہہ سکتی ہوں/میں اپنا کتبہ موت سے پہلے/اس لیے لکھنا چاہتی ہوں/کہ دوسرے ملکوں میں مصروف/میرے بیٹوں کو/شاید فرصت ہی نہ ملے/یا پھر دھیان ہی نہ آئے/ مجھے اپنے آپ کو دائم کرنے کا خیال/کیوں آ رہا ہے؟/کیا کتبہ دائمیت کی نشانی ہوتا ہے/لندن میں مارکس کا کتبہ دیکھ کر/اس کے کارناموں اور خود اُسے/فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے/کچھ لوگ عظیم شاعر تھے/مگر ان کو کتبہ بھی میسر نہیں آیا/ظہور نظر...ایک بڑا شاعر/جیسا اکیلا تھا ویسا ہی پڑا ہے/خوشونت سنگھ نے اپنی راکھ/پاکستان کے دریا میں ڈالنے کی/وصیت کی تھی/میرا دل بھی راکھ ہونا چاہتا ہے/پر میرا مذہب اجازت نہیں دیتا ہے/یوں تو دفن ہونے کے بعد/وجود خاک ہی بن جاتا ہے/کتبہ آپ کو نہیں/آپ کے زمانے کو یاد رکھتا ہے۔
ایک اور نظم جو مجھے بطور خاص اچھی لگی وہ ہے ''خاک ہونے سے پہلے‘‘ اور شاید اس پہلی نظم کا تسلسل بھی ہے‘ ذرا دیکھیے :
تمہارے اندر زندگی جاگتی ہے/اور بے قراری پہلو بدلتی ہے/تمہیں زندگی سے بہت محبت ہے/کینسر نے تمہاری آنکھوں کو دریا/اور گفتگو کو خاموشی میں بدل دیا ہے/تم جینا چاہتے ہو/ہر مسیحا کے در پر دستک دیتے ہو/نام بے نام ادویات/تریاق سمجھ کر قبول کر لیتے ہو/کبوتر ہو کہ بلبل/ان کے پیروں میں دعائوں کی گرہیں/باندھتے ہو/ہر رات موت سے مکالمہ کرنے کی کوشش میں/تم ہار جاتے ہو/ہر درگاہ سے
زندگی مانگتے ہو/اس طرف میں/طویل عمری کی گرفت سے/رہائی پانا چاہتی ہوں/میرے شادابیوں کے پیرہن بوسیدہ ہو کر لٹک رہے ہیں/میں تو موت سے دوستی کرنا چاہتی ہوں/چلو اس دوراہے پر/جہاں تم موت کے پاس کھڑے ہو/اور میں زندگی کو زہر اب میں بدلنا چاہتی ہوں/لو خضر سی زندگی تم لے لو/اور فنا کی قندیل/میرے ہاتھ میں پکڑا دو/آئو وعدہ وفا کرنے کے لیے/میں چشم براہ ہوں۔
اس کے علاوہ متعدد ایسی نظمیں ہیں جو نسبتاً بڑے موضوعات اور مسائل کا احاطہ کرتی ہیں‘ جن میں احتجاج بھی ہے‘ مایوسی بھی‘ امید بھی اور افسوس بھی۔ ان میں ٹینڈر نوٹس‘ سوات کا نوحہ‘ سانحہ کراچی 13 مئی‘ ہزارہ بستی والوں کا حزنیہ‘ لیاری کا حزنیہ‘ شامی نقل مکانیوں کا حزنیہ‘ نوحہ بلوچستان کا‘ نوحہ پشاور کے بچوں کا‘ میرا وطن قید میں ہے‘ خُود کو طالب کہتے ہو‘ شریعت کونسل۔ عورت تم سے مخاطب ہے‘ آمنہ بی بی‘ قید تنہائی اور کئی دوسری نظمیں شامل ہیں‘ اور اب اس کی غزل کے تیور دیکھیے:
اپنی بے چہرگی چھپانے کو
آئینے کو اِدھر اُدھر رکھا
اُجلی شام میں لپٹا وعدہ تازہ میرے اندر تھا
باہر کیسے جاتی میں‘ دروازہ میرے اندر تھا
ساری بستی سوگوار تھی جب لفظوں کی موت ہوئی
گور پڑا تھا کوئی اور‘ جنازہ میرے اندر تھا
ہوا نے کاٹ دی تحریر میرے اشکوں کی
یہ داغ دل میں نیا آشیاں بناتے رہے
منزلیں راستہ پوچھیں وہ مسافر ہم تھے
آسماں ڈھونڈنے نکلے‘ وہ دعا تھے ہم لوگ
آئینہ دیکھنا منظور نہیں تھا اُس کو
لطف دیتا تھا ہوا بن کے گزرنا اُس کا
تربتر ہے مرے ہاتھوں میں وہی جامنی رنگ
تم نے پوچھا تھا کہ ہوتی ہے گھٹا بھی تازہ
مجھ کو دریوزہ گرِ خواب بنا دیتا ہے
جب بھی آتا ہے مری پیاس بڑھا دیتا ہے
کبھی بھلایا نہیں‘ یاد بھی کیا نہیں ہے
یہ کیسا جرم ہے جس کی کوئی سزا نہیں ہے
ہرجبیں لالۂ خوں سے ہے تپیدہ لیکن
دل یہ کہتا ہے اسی کوچے میں آباد رہو
بلا سے بھول گئے وہ جو آشنا تھے کبھی
میں آج اپنے شبستاں میں بے خطر گئی ہوں
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو
زندگی چاہیں تو خوابوں سے سوا کچھ نہ ملے
ڈوبنا چاہیں تو حاصل ہمیں دریا ہی نہ ہو
پس سرورق شاعرہ کی رنگین تصویر ہے‘ ٹائٹل قدوس مرزا نے بنایا اور قیمت 400 روپے ہے۔
آج کا مطلع
سرپر ہے سوار اب تک، اسباب نہیں اچھا
اوڑھا ہوا ماتھے پر محراب نہیں اچھا