مجھے اس کھیل کی سمجھ نہیں آئی کہ اینٹ سے اینٹ بجاتے بجاتے‘ جناب آصف علی زرداری نے اچانک ایڑی پر کھڑے ہو کر گھومنا کیوں شروع کر دیا؟ انہوں نے بڑی مدت جیل کے اندر گزاری ہے اور جیل میں رہ کر بھی اپنے ساتھیوں اور پرستاروں کو مستقل امیدوں سے سرشار رکھا۔ حکومتی ذرائع ہر طریقے سے زرداری پر لگے ہوئے الزامات کو مختلف دلیلوں کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ زرداری صاحب کا واحد ترجمان ان کے وکیل فاروق نائیک تھے‘ جو حکومت کی طرف سے ہر نئے الزام کے جواب میں ایک قانونی قسم کی تردید اور وضاحت‘ میڈیا میں دے دیتے۔ لوگ اس کے بیان کو نظرانداز کر تے۔ سب جانتے تھے کہ فاروق نائیک جو کچھ بھی کہیں گے‘ وہ ان کی عدالتی بحث کا حصہ ہو گا‘ جو وہ آصف زرداری کے مقدمے میں پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت کیا کرتے۔ فاروق نائیک کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے کسی بھی لمحے‘ آصف زرداری کے دفاع کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ نائیک صاحب بہت کم تقاریر کرتے اور بیانات دیتے ہیں۔ عموماً انہیں ٹاک شوز میں بلایا جاتا تھا اور وہ ڈنکے کی چوٹ پر آصف زرداری کی صفائی پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ آصف زرداری کے دور میں جب پہلی مرتبہ انہیں خود اقتدار میں آنے کا موقع ملا‘ تو میرے ساتھ ان کے تعلقات اچھے تھے اور ان کے خلاف جو مخالفانہ مہمات چلائی گئیں‘ میری نظر میں وہ سب ناقص اور طفلانہ تھیں۔ زرداری صاحب کے صدر بنتے ہی سیاسی پنڈتوں نے ان کی رخصت کی پیش گوئیاں شروع کر دی تھیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ ایک سرکاری پنڈت نے زرداری کے صدر بننے کے تین چار مہینے کے بعد پیش گوئیاں شروع کر دی تھیں کہ انہیں بہت جلد ایوان اقتدار سے باہر پھینک دیا جائے گا۔
زرداری صاحب خود بھی اپنی سلامتی کے حوالے سے انتہائی محتاط تھے۔ انہیں ہر وقت اندیشہ رہتا کہ دشمن انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے قتل کر دیں گے۔ اپنے تحفظ کے لئے انہوں نے ایک انتہائی جدید گن بھی پاس رکھ لی تھی‘ جسے خفیہ طور پر وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتے۔ ملاقاتیوں کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ صدر صاحب نے ایک گن رکھی ہوئی ہے۔ مجھے اس بات کی خبر تھی کہ زرداری صاحب کو اپنی زندگی شدید خطرے میں نظر آ رہی ہے اور وہ ان دیکھے دشمن کے مقابلے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ بدقسمتی یہ تھی کہ لکھنے والوں اور ٹاک شو کرنے والوں کی اکثریت‘ ان کے لئے مخالفانہ جذبات رکھتی تھی اور وہ کسی نہ کسی بہانے زرداری صاحب کی کردار کشی کرتے رہتے تھے۔ اپنی ذات پر تنقید کا زرداری صاحب نے کبھی جواب نہیں دیا اور نہ ملاقات ہونے پر شکایت کی۔ میں بھی ایسے ہی تجربے سے گزرا ہوں۔ صرف ایک دو مرتبہ انہوں نے باتوں باتوں میں طعنہ دیا کہ تم نواز شریف کے حامی ہو‘ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ جب مجھے نواز شریف کے دور میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سربراہ لگایا گیا‘ تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گریڈ 22 کی ملازمت میں تو پیٹ بھرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میاں صاحب کے رخصت ہوتے ہی مجھے فوری طور پر برطرف کر دیا گیا اور میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے واپس لاہور آ گیا۔
اکادمی سے میری تنخواہ 20 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس میں سے بجلی اور ٹیلیفون کے بل بھی کٹتے اور اگر میں دفتر میں آنے والے کسی مہمان کو کھانا کھلا بیٹھتا‘ تو میرا سٹاف اسی شام یا اگلے روز صبح کو مدارات کا بل میرے سامنے رکھ دیتا۔ مجھے بتایا گیا کہ گریڈ 22 کا ملازم اپنے مہمان کو غالباً 50 یا 70 روپے کا کھانا کھلا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ پرانے اور گھاگ افسروں نے یہ طریقہ بنا رکھا ہے کہ جتنے بھی مہمان آ جائیں‘ وہ انہیں پُرتعیش کھانا کھلا دیتے اور ہوٹل کے منیجر سے کہا جاتا کہ وہ کھانے کی کل رقم کے مطابق‘ ایک ایک تکّے کا بل بنا دیں۔ ان بلوں کو بعد ازاں اتنی احتیاط سے تیار کیا جاتا کہ پڑھنے والے کو یہی پتہ چلتا کہ افسر صاحب نے‘ اپنے ہر مہمان کو ایک ایک تکہ پیش کیا
ہے‘ جو لنچ کے بل کے مساوی ہوتا۔ یہ حرکت اتنی چھوٹی اور شرمندہ کرنے والی ہے کہ مجھ جیسا باہر کا آدمی اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہماری حکومت چلانے والے افسران بالا ایسا کچھ بھی کرتے ہوں گے۔ میں چونکہ اتفاقاً اس ملازمت پر چلا گیا‘ تو یہ ترکیب میرے علم میں آئی اور اس کے بعد مجھے پتہ چل گیا کہ ہمارے افسران پیسے کے معاملے میں کتنے ذہین ہیں؟ یہی وہ افسران ہیں جو ملزموں‘ غرض مندوں اور درخواست گزاروں کے فیصلے کرتے ہیں۔ ہر غرض مند جانتا ہے کہ اسے کسی بھی محکمے سے کام نکالنے کے لئے ''سپیڈ منی‘‘ کا انتظام ضرور کرنا پڑے گا۔ یہ 1999ء تک کی باتیں ہیں۔ اس کے بعد کرپشن کی ٹیکنالوجی میں کیا کیا جدتیں آئی ہیں؟ یہ میں نہیں جانتا‘ مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ پرانے زمانے لد گئے۔ اب ''اچھے کام‘‘ کرنے والے نفیس لوگوں میں صفائی‘ ندرت اور سلیقے‘ واضح طور سے سامنے آ جاتے ہیں۔ بھید کھلنے پر بڑی کرپشن کرنے والا کوئی بھی شخص شرمندہ نہیں ہوتا۔ اکثر تو خود ہی بتانے لگتے ہیں کہ میں نے فلاں کام کیا تھا‘ اس میں سے اتنے کروڑ آئے اور بیچ میں سہولت کار کو بھی بڑی رقم دینا پڑی۔ کرپشن میں اتنی صفائی اور ہنرمندی آ گئی ہے کہ اب نیب اور ایف آئی اے والے بھی مالیاتی جرائم کا سراغ لگانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ آپ نے حال میں پکڑے گئے چند فنکاروں کی کہانیاں‘ اخباروں میں پڑھی ہوں گی اور کمائی گئی رقوم کی مالیت پڑھ کر آپ کے ہوش ٹھکانے آ گئے ہوں گے۔ لاکھوں کروڑوں کے زمانے چلے گئے۔ اب اربوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ عین والے عربوں کی نہیں الف والے اربوں کی۔ ویسے دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ الف والا ارب ہزاروں‘ لاکھوں اور کروڑوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ رقم ڈالروں میں ہوتی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے گریڈوں والے عہدیدار اتنی ہی بڑی بڑی رقموں سے کھیلتے ہیں۔ ان کا میل جول عین والے عربوں سے ہوتا ہے اور وہ الف والے اربوں سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔ عین والے عرب کی ہم اس لئے عزت کرتے ہیں کہ حضورپاکﷺ کی ولادت انہی لوگوں کی سرزمین پر ہوئی۔ ہم اسی نسبت سے ان کا احترام کرتے ہیں۔ عین والا عرب ہی ہمیں شاہی میزبانیوں سے نوازتا ہے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی؟ لیکن میرے خیال کے مطابق زیادہ دور نہیں گئی۔ ہم آصف زرداری کے بیان کا ذکر کر رہے تھے۔ ہمیں یوں لگا جیسے یہ ان کی سیاسی قلابازی لگتی ہے۔ لیکن جس دنیا میں وہ چلے گئے ہیں‘ وہاں پر جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ ہمیں اس کا پتہ نہیں۔ یہ اور ہی درجے کی دنیا ہے۔ اس میں اقتدار اعلیٰ سے فیض یاب ہونے والوں کے لئے کرسی پر موجود رہنا یا نہ رہنا بے معنی ہوتا ہے۔ جب ایک بار اقتدار اعلیٰ مل گیا‘ تو پھر الف والے اربوں اور عین والے عربوں کی دنیا ایک ہو جاتی ہے۔ میں نے امریکہ اور یورپ کے کچھ جوا خانے دیکھے ہیں اور کچھ کے بارے میں سنا ہے۔ ان میں جو اعلیٰ درجے کے ہیں‘ وہاں پر عین اور الف والے‘ آپ کو ایک ہی صف میں نظر آئیں گے۔ لین دین ڈالرز اور پونڈز میں ہوتا ہے۔ ان سب کی جیبوں اور بنکوں میں جمع شدہ پیسہ روپوں میں نہیں ہوتا۔ جوئے خانوں کی طرح بنکوں میں بھی یہ ایک ہی کرنسی چلاتے ہیں۔ پاکستان میں رہ کر جو شخص‘ دنیا میں جہاں جہاں اپنی کرپشن کی کمائی جمع کرتا ہے‘ ان کی اکثریت لین دین کے لئے لندن یا دبئی کے دورے کرتی ہے۔ زرداری صاحب نے اب اپنا ڈیرہ دبئی میں جما لیا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران نمبر ایک سے نمبر دو کے رئیس بننے والوں کا مرکز ان دنوں لندن ہے‘ لیکن لین دین دبئی میں کیا جاتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ پرانے اور نئے ارباب اقتدار جو بظاہر ایک دوسرے کے مخالف لگتے ہیں‘ دبئی میں جا کر ان کے مفادات اس طرح مل جاتے ہیں‘ جیسے مظفر آباد میں نیلے اور بھورے پانی والے دریا ملتے ہیں۔ یہ نیلم اور جہلم ہیں۔ ان کا پانی مل جانے کے بعد بھی دور تک الگ الگ دھاروں میں رہتا ہے۔ بھورا اور نیلا پانی صاف ایک دوسرے سے الگ نظر آتا ہے۔ پانی بھی ایک رہتا ہے‘ دریا بھی ایک رہتے ہیں اور آگے چل کر گھل مل جاتے ہیں۔ ہمارے ارباب اقتدار بھی اس وقت گھل مل جانے کے مقام پر پہنچے ہوئے ہیں اور یہ مقام مظفر آباد کے بجائے دبئی ہے۔ بات آصف زرداری سے شروع ہوئی تھی‘ مگر تمام ممکنہ مقامات اور موڑوں سے گزرتی ہوئی وہیں پہنچی ہے‘ جہاں اسے پہنچنا تھا۔ آصف زرداری اور نواز شریف بظاہر‘ ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے باوجود ایک ہی نظام کا حصہ ہیں۔ بے شک زرداری صاحب کا نیا بیان‘ حامد میر نے اپنے ٹویٹر کے ذریعے جاری کیا اور بعد میں خود ہی تردید بھی جاری کر دی‘ جس میں آصف زرداری سے کہلوایا گیا ہے کہ میں اور میری پارٹی نے کبھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ سارے میڈیا میں شہ سرخیاں آ گئیں۔ لوگوں نے اپنے اپنے تبصرے بھی کئے اور آج تردید ہو گئی۔ یہ دونوں سیاستدان‘ ریٹائر ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے آج کے بیان میں کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا صفایا کر کے جائیں گے۔ واقعی؟ میں کرپشن کرنے والوں کو‘ لوگوں کی جانیں لینے والے دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں۔ کرپشن ہی دہشت گردی کی جڑ ہے۔ یہ رہی تو دہشت گردی بھی رہے گی۔