تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-02-2016

قسم ہے زمانے کی

قسم ہے زمانے کی 
بے شک انسان خسارے میں ہے 
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے 
جنہوں نے سچائی کی تلقین کی اور صبر کی 
آصف علی زرداری پہ خدا رحم کرے اور باقی سب پر بھی۔ ہم بھلا دیتے ہیں کہ اپنے اعمال کے نتائج کا ہمیں سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں بھی، اُس دنیا میں بھی۔ جب وہ جنرل راحیل شریف کو للکار رہے تھے کہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو انہیں ادراک نہ تھا کہ انجام کیا ہو گا۔ آج جب برسرِ عام وہ ہتھیار ڈال رہے ہیں تو بظاہر ایک سنگین صورتِ حال پیدا کرنے کے متمنی ہیں۔ 
پیپلز پارٹی سندھ میں ایک فارورڈ بلاک تشکیل پا چکا۔ ایم کیو ایم اور پیر صاحب پگاڑا کے علاوہ اپوزیشن کے دوسرے ارکان کی مدد سے سندھ اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد کسی بھی وقت پیش کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک نئی حکومت وجود میں آ گئی اور برقرار رہ سکی تو سندھ میں پیپلز پارٹی کا زوال بہت تیزی سے رونما ہو گا۔ ایسی کسی حکومت کے تحت انتخابات ہوئے تو ممکن ہے کہ زرداری صاحب کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ 
ظاہر ہے کہ اس سادگی سے معاملہ طے نہ پائے گا۔ شکست و ریخت زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایسی ہی دھمکی جنرل راحیل شریف کے پیش رو کو بھی موصوف نے دی تھی۔ انہوں نے صبر کیا‘ اور صبر بھی قیامت کا۔ امید ہے کہ موجودہ سپہ سالار بھی تحمل،بردباری اور دور اندیشی سے کام لیں گے۔ زرداری صاحب کا مقصود بظاہر یہ ہے کہ ایک بار پھر وہ 1990ء کی سیاست رائج کرنے کے آرزومند ہیں۔ میاں محمد نواز شریف سے مفاہمت ختم کر کے وہ فوج کے حلیف بن جائیں... اور عسکری قیادت ایک بار پھر سے وہی کھیل کھیلنے لگے۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو محلاتی سازشوں کے ایک نئے اور اذیت ناک سلسلے کا آغاز ہو جائے گا۔ فوج کے لیے ایک اور محاذ کھل جائے گا۔ ابن الوقتوں کے نئے ٹولے وجود میں آئیں گے۔ ملک مزیدمصیبت اور زیادہ مسائل سے دوچار ہو گا۔ خدا نہ کرے، خدا نہ کرے۔ 
ظاہری چکا چوند الگ، معاشی طور پر ملک ایک بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ ایک کروڑ کی بجائے، اس بار کپاس کی صرف 45 لاکھ گانٹھیں پیدا ہوئیں۔ ڈیڑھ ارب ڈالرکی روئی درآمد کرنا ہو گی۔ اس بھارت سے، جس کا دفاعی بجٹ 39 ارب ڈالر سے بڑھ کر 51 ارب ڈالر ہونے والا ہے۔ کپڑے کی برآمد میں پہلے ہی دو ارب ڈالر کی کمی ہو چکی۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کا اندازہ ہے کہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں یہ کمی 3.5 ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔ اگلے پانچ برس کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ نے اسلام آباد کو سات ارب ڈالر قرض کا وعدہ کیا ہے۔ پانچ ارب ڈالر ہم ایک برس میں کھود دیں گے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ اندیشہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ سے سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کم ہو جائیں گی۔ تیل کی قیمت گر جانے سے بحیثیتِ مجموعی ملک کو فائدہ پہنچا۔ اس کا مگر ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ کویت، امارات اور سعودی عرب میں برسرِ روزگار بہت سے پاکستانیوں کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔ پہلے سے منصوبہ بندی کر لی جاتی تو نقصان کم ہوتا۔ میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف سرکاری روپیہ لٹانا جانتے ہیں، بچانے کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ 
کاشتکار تباہ ہو چکا‘ اور سب کا سب۔ وزیرِ اعظم نے خوشخبری دی کہ آلو کی قیمت پانچ روپے کلو ہو چکی۔ یہ صدمے کی بات تھی، مسرت کی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کم از کم پندرہ روپے لاگت پر کاشتکار کو پانچ روپے ملیں تو نتیجہ معلوم۔ لاکھوں خاندانوں کی تباہی۔ چاول اور گندم کے کاشتکار کا حال بھی یہی ہے۔ بس ایک جانوروں کی افزائش کا شعبہ بچ رہا ہے۔ تنہا اس پہ مگر دیہی آبادی کی بقا ممکن نہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری اس لیے پسپا ہے کہ بجلی مہنگی ہے اور گیس میسر ہی نہیں۔ زراعت اس لیے خرابی میں مبتلا کہ بجلی، بیج، کھاد اور کرم کش ادویات گراں ہیں۔ آخرالذکر میں ملاوٹ بھی۔ کس کروفر کے ساتھ وزیرِ اعظم نے کسان پیکج کا اعلان کیا تھا۔ آس پاس کے کئی دیہات سے میں نے پتہ کیا۔ دس فیصد کاشتکاروں کو بھی زرِ تلافی نہ ملا۔ جنہیں دیا گیا، وہ بھی شکوہ سنج ہیں۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ 
یونان کو بچانے کے لیے یورپ آگے بڑھا تھا کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ پاکستان خدانخواستہ ایسے کسی بحران کا شکار ہوا تو ہماری مدد کو کون آئے گا؟ بحران تشکیل پا رہا ہے اور وزیرِ اعظم کا حال یہ ہے کہ شرمیلا ٹیگور سے ملاقات کی فرصت پاتے ہیں۔ وقت آ پہنچا ہے کہ شیخ رشید کے انٹرویو اور بھارتی ایکٹرسوں کے مشاغل بیان کرنے کی بجائے ان معاملات پہ نظر کی جائے۔ شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرنے سے زیاں اور بھی شدید ہو سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم کے سامنے قوم کو چیخ چیخ کر فریاد کرنا ہو گی۔ اقتدار کے ایک ہزار ایام میں سے دو سو سے زیادہ جنہوں نے بیرونِ ملک گزار دیے۔ 181 ایام سرکاری دوروں میں۔ 
پاک فوج سیاست سے یکسر لاتعلق تب ہو سکتی ہے، جب سیاستدان ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں ڈیڑھ سو ارب روپے میٹرو پر جھونک دینے کے بعد، دو سو ارب اورنج ٹرین کی نذر ہونے والے ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق گھر میں دھیلا نہیں اور بچوں کی ماں میلہ میلہ پکار تی ہے۔ 
اب کی بار زرداری صاحب نے اعلانیہ بات کی ہے۔ ایک طرح کا یہ معافی نامہ ہے۔ اس سے پہلے بھی عسکری قیادت کو پیہم وہ پیغام دیتے رہے۔ ان میں سے ایک یہ تھا: جب میں نے وہ سب کچھ کر ڈالا، جس کے آپ خواہشمند تھے تو آپ نواز شریف کو لے آئے۔ 
نواز شریف کو فوج نہیں لائی۔ وہ عوامی تائید کے ساتھ آئے۔ اس لیے کہ عمران خان کے ٹکٹ فروخت ہوئے۔پانچ برس زرداری اور ان کے ساتھیوں کی توجہ لوٹ مار پہ رہی۔ پرویز خٹک اینڈ کمپنی سے بلیک میل ہونے کے باوجود عمران خان کو پوری طرح اب بھی احساس نہیں کہ پارٹی کو منظم کرنے کی اہمیت کیا ہے۔ اپنی اور دوسروں کی توانائی دھرنے میں ضائع کرنے کی بجائے، اگر جماعت کی تنظیم اور پختون خوا میں حکمرانی بہتر بنانے پر ریاضت کی ہوتی تو عوام کی اکثریت انہیں اپنا قائد تسلیم کر چکی ہوتی۔ آخر کسی قدر وہ اس طرف متوجہ ہوئے۔ پوٹھوہار کی ضرب المثل یاد آتی ہے: جلد باز کو تین بار غسل خانے میں جانا پڑتا ہے۔ 
انسانی فطرت میں خوف ہے اور غلبے کی جبلت بھی۔ شہرت و اقتدار کی تمنا ہے اور یہ سارے عوامل اسے دانائی سے محروم کرتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: پروردگار نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے کہا، چل پھر کے دکھا۔ پھر اس پہ ناز فرمایا۔ ارشاد کیا: جو بھی کسی کو دوں گا، تیرے طفیل اور جو کسی سے لوں گا، تیری وجہ سے۔ 
سیلاب کا رخ صحرا کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ طوفان کی غارت گری کم کی جا سکتی ہے۔ مصائب آتے اور گزر جاتے ہیں۔ اگر دانائی کا دامن تھام لیا جائے۔ 
قسم ہے زمانے کی 
بے شک انسان خسارے میں ہے 
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے 
جنہوں نے سچائی کی تلقین کی اور صبر کی 
پس تحریر: زرداری صاحب اپنے بیان سے مُکر گئے، پھر ان کی پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی، جنرل راحیل ریٹائرمنٹ پر اصرار نہ کریں اور حکومت انہیں توسیع دے۔ ایسے لگتا ہے کہ عالی قدر کی ذہنی حالت کچھ ٹھیک نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved