تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-02-2016

آدمی غنیمت ہے (1)

سید انیس شاہ جیلانی آف محمد آباد‘ صادق آباد‘ جو وہاں اپنے والد صاحب کے نام پر قائم مبارک شاہ لائبریری چلاتے ہیں‘ کئی نثری مجموعوں کے مصنف ہیں، جنہوں نے مجھے اپنے لاثانی طرز تحریر کا اسیر کر رکھا ہے‘ ان کی ایک بوسیدہ سی کتاب ہاتھ آئی ہے جو شاید ان کی لائبریری کا واحد محفوظ نسخہ تھا۔ زیرنظر کتاب مختلف مشاہیر پر لکھے گئے ان کے خاکوں کا مجموعہ ہے اور جو مشاہیر نہیں بھی تھے وہ بھی مشاہیر ہو گئے ہوں گے‘ حتیٰ کہ میں تو اس تحریر سے بھی اپنے آپ کو مشاہیر میں شمار کرنے لگا ہوں ع
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
حالانکہ زورِ قلم کی بجائے ان کی بے ساختگی ہے جو سر چڑھ کر بولتی ہے اور جس میں وہ سادگی کا تڑکا بھی ایسا لگاتے ہیں کہ قاری انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ آپ کو ایک اور نابغہ حضرت رئیس امروہوی کے یارغِار ہونے کا بھی شرف حاصل ہے اور یقیناً رئیس امروہوی مرحوم بھی ان کے ساتھ دوستی کو ایک سعادت سمجھتے ہوں گے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب ''سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ پر ہم بہت پہلے اظہار خیال کر چکے ہیں‘ تاہم اس کا ایک بار پھر مزہ لینے کا ارادہ ہے‘ اس کتاب سے فارغ ہونے کے بعد‘ کہ اس سے ہم قسط وار خود بھی لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور قارئین کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کا ارادہ ہے۔ یہ کتاب انہوں نے خود چھاپی تھی جس کا احوال اس کے پس سرورق تحریر سے ظاہر ہوتا ہے‘ لکھتے ہیں :
بسم اللہ...اک ذرا سی تحریک پر یوں ہی محض خوش گپیوں میں‘ اُٹھا کر دس ہزار روپے میرے حوالے کر دیئے اور کہا‘ تم اپنی کتاب چھاپو‘ ہمارا کیا ہے پیسہ ہاتھ کا میل ہے‘ آتا جاتا رہتا ہے‘ روپے پیسے کی دُھول اڑانا کچھ ہنسی دل لگی تو نہیں لیکن میں نے دیکھا کہ خان افضل میتلا(بستی شیر خاں میتلا تحصیل صادق آباد)کا دل گردہ یہی ہے۔ میں لاکھ کہتا ہوں‘ بھائی عشق کو احتیاط لازم ہے‘ مگر وہاں کون سنتا ہے‘ جو کچھ ہے لٹائے چلے جاتے ہیں‘ انہی سخاوتوں میں ہمارے تحریر کردہ خاکے چھپ رہے ہیں‘ برسوں سے پڑے سڑ رہے تھے۔
خاکسار 
سید انیس شاہ جیلانی
23 ؍ دسمبر 1993؍1414
''اندرون سرورق ‘‘ کے عنوان سے ابتدائیہ دیکھیے:
میں اب بھی کہتا ہوں میں تو بہت ڈرپوک ہوں‘ میرا دل بقول رئیس امروہوی خندہ گل سے بھی لرز جاتا ہے۔ مگر حضور میرا قلم‘ وہ تو بہت بے باک ہے۔ پرلے درجے کا دبنگ ہے‘ منہ پھٹ ہے لیکن اب یہ بھی جانا کہ سب کہنے کی باتیں کہہ تو چکا‘ چھپے کیونکر۔ سنگسار ہونے کا دھڑکا اتنا جان لیوا نہ تھا مگر ہم منافقت‘ جھوٹ اور افترا میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ اب سچ ہمیں سچ مچ کا زہر لگتا ہے‘ یہ نشیب ہے وہ فراز ہے‘ اسی میں لٹکایا گیا ہوں۔
میں فارسی ہندی جانے بغیر اردو کے خبط میں ہوں۔ انگریزی کا ہے کو جانوں گا‘ میں انگریزی نہیں جانتا، کہتے ہیں اس بدیسی حرافہ میں اور تو خدا جانے کیا کیا کچھ بھرا پڑا ہے‘ ایک عیب نما ہُنر یہ ہے کہ سچ بہت بولا جاتا ہے۔ طرفہ یہ کہ چھاپا بھی گیا۔ یہ تار ٹوٹنا کیسا‘ بے تحاشا بندھا ہوا ہے‘ بچہ بچہ سچ بولنے پر تُلا رہتا ہے۔ لکھنے پر اُدھار کھائے بیٹھا ہے۔ سچ بولنے اور چھاپنے پر مصر ہے۔ حتیٰ کہ صنف نازک کو اپنے جسمانی تجربات دھڑلے سے نقل کر دینے میں بھی انہماک ہے۔ ذرا نہیں شرماتا‘ بے حیا کہیں کا‘ جنسیات کا وہاں فسق و فجور میں نہیں‘ لطف و سرور میں شمار ہوتا ہے۔
مجھ سے لکھنا کیا آئے گا تاہم میں نے خود آدمی کو آدھا نہیں‘ پُورے کا پُورا لیا ہے، البتہ نوبت بہ چھاپہ خانہ رسید‘ تب وہ جو کہیں کہیں سیاہی پھیری گئی ہے اس کالک کو میرے چہرے پر غیرت کے فقدان اور ہمتوں کی پستی پر محمول کرنا ہو گا۔
خاکسار
انیس جیلانی
24 ؍ جولائی 1408/1988۔محمد آباد
جن ہستیوں کو کتاب میں موضوع بنایا گیا ہے ان میں حیرت شملوی‘ شاہد احمد دہلوی‘ نیاز فتح پوری‘ قاضی احسان احمد شجاع آبادی‘ ضیاء الدین احمد برنی‘ رئیس احمد جعفری‘ مولانا غلام رسول مہر‘ سید مبارک حسین شاہ (والد مصنف)، رئیس امروہوی‘ ماہر القادری‘ زاہدہ حناشامل ہیں۔ ابتدا ہی میں اپنے والد مرحوم کی یہ رائے بھی شائع کی ہے :
٭...آپ کا مضمون غور سے مطالعہ کیا گیا‘ بعض غیر متعلق باتیں بھی آ گئی ہیں‘ لیکن یہ بہت کام کی ہیں۔ ان کا اسی حالت میں رہنا ضروری ہے۔
٭...آپ کا مضمون پختہ ہے‘ لطف ادب سے خالی نہیں‘ ایک دو جگہ میں نے لکیریں کھینچ دی ہیں،ان کی مزید صحت کی جائے۔
٭...آپ نے مداحانہ لکھا ہے‘ کیا مداحانہ صحیح ہے‘ مداحانہ مادح، مدح کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔ شاید آپ کا لفظ بھی یہاں درست ہو‘ لُغت میں دیکھ لیجیے۔
آغاز ہی میں حکیم الامت عبدالماجد دریابادی سے منسوب یہ جملہ :عمرؓ کی حق گوئی نے کوئی ان کا دوست نہ باقی رکھا ۔
ایک آدھ کو چھوڑ کر مصنف کے ساتھ صاحب خانہ کی تصویر اور ان حضرات کے قلمی خطوط بھی‘ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں‘ ان خاکوں کے اہم اور دلچسپ حصے آئندہ پیش کیا کروں گا۔ یار زندہ صُبحت باقی۔
ماضی میں جانا ہر شخص کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی‘ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ صاحبان خاکہ کے حوالے سے جو جو معلومات اس کتاب میں بہم پہنچائی گئی ہیں‘ شاید کہیں اور دستیاب نہ ہوں جبکہ لطف سخن‘ بونس کے طور پر الگ ہے!
کئی سال پہلے جب میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے رحیم یار خان گیا تھا‘ میں نے ان کی کتاب سفرنامہ پڑھ رکھی تھی‘ چنانچہ ان سے ملنے محمد آباد گیا تھا...پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ!
آج کا مطلع
کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں
مدتیں ہو گئیں جاگا نہیں سویا ہوا میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved