آج ہمارا موضوع اختلاف نہیں‘ اعتراف ہے‘ بلکہ کھلا اعتراف اور وہ بھی دل کھول کر۔
آخرکار وزیر اعظم نے 2018ء کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا سال قرار دے دیا۔ ''لوڈ‘‘ (Load) انگریزی زبان میں وزن (Weight) کو کہتے ہیں‘ جبکہ شیڈنگ کا مطلب ہے وزن کا گِر جانا، وزن سے جان چھڑا لینا یا وزن سے نجات پا لینا۔ دونوں کو ملا کر لوڈ شیڈنگ کہا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم کا بیان بحث کے کئی دروازے کھولتا ہے۔ آئیے ان میں سے چند دروازوں سے گزر کر دیکھیں کہ 2018ء میں کیا ہو گا؟
مگر اس سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنا پڑے گی کہ موجودہ اقتدار کاروباری طبقے کے پاس ہے۔ اسی لیے ملک ''تجارتی جمہوریہ‘‘ بن کر سامنے آیا ہے‘ اور 2016ء ماڈل جمہوریت بڑے فخر سے تجارت کہلاتی ہے‘ جبکہ تجارت کو جمہوریت کا میک اپ کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ تجارت کی دنیا میں ایک نظریے کا نام آزادانہ تجارت ہے۔ آزادانہ تجارت کا نام آزادانہ رکھنے والے یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ غلام ملکوں کے غلامانہ ذہنیت والے حکمران آزادانہ تجارت کے نام پر عوام کو بلیک میل کرتے ہیں۔ چونکہ آج کا موضوع '2018ء خاتمے کا سال ہے‘ اس لیے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ وزیر اعظم کے ذہن میں 2018ء کا نقشہ کیا ہے...؟
کون نہیں جانتا کہ 2018ء کا سال بارہ مہینے کا ہو گا۔ اگر حکومت قبل از وقت الیکشن کرانے کا اعلان کرتی ہے تو تب دوسری بات ہے‘ لیکن اگر حکومت ایسا فیصلہ نہیں کرتی تو پھر بجٹ نگران حکومت بنائے گی‘ جس کے دور میں پارلیمنٹ موجود نہیں ہو گی۔ ایک بے اختیار وزیر اعظم کی انتہائی بے کار کابینہ کے پاس یہی راستہ کھلا ہو گا کہ وہ سمدھی صاحب کے بنائے ہوئے بجٹ کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے توسیع دے کر ایک سال کے لیے نافذ کر دے۔ اگرچہ 2018ء نون لیگی حکومت کے خاتمے کا سا ل ہو گا‘ لیکن یہ سال نون لیگ کے تاجرانہ بجٹ کے خاتمے کا سال نہیں ہو گا۔
وزیر اعظم کے بیان کا ایک اور پہلو بھی سامنے ہے‘ اور وہ یہ کہ وزیر اعظم اپریل یا مئی 2018ء میں کہہ دیں کہ میں جھوٹ نہیں بولتا‘ وعدے کے مطابق 31 دسمبر 2018ء کے دن لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس دوران اگر نون لیگ الیکشن ہار کر اقتدار سے باہر ہو گئی تو اسے لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہونے کا الزام نہ دیا جائے‘ کیونکہ نئی حکومت عوام سے یہ وعدہ تڑوانے کی ذمہ دار ہو جائے گی۔
آئیے دیکھتے ہیں حکمرانوں نے 2018ء تک عوام سے مزید کس کس چیز کے خاتمے کا فراخدلانہ وعدہ کر رکھا ہے۔ گردشی قرضے کے خاتمے کا وعدہ‘ جس میں ہمارا ملک مقروض غلاموں کی فہرست میں ٹاپ پر آتا ہے۔ 500 ارب سے زیادہ قرضہ دوستوں کے بینکوں سے مہنگے سود پر ''قرض‘‘ لے کر ادا ہوا۔ دوسری دفعہ یہی قرضہ پھر عوام کی جیبوں سے نکالا گیا۔ دونوں مرتبہ وعدہ یہ تھا کہ ہم اقتدار میں آتے ہی گردشی قرضے کا خاتمہ کر دیں گے‘ لیکن گردشی قرضہ شیطان کی آنت ثابت ہوا۔ اس کی وجہ اس کے نام سے ہی صاف ظاہر ہے۔ یہ قرضہ لینے سے لے کر دینے تک اور ڈیمانڈ سے لے کر سپلائی تک حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہی گردش کر رہا ہے۔ حکمرانوں کے اپنے بینک اور حکمرانوں کی اپنی بجلی کمپنیاں اور اپنے گھر کی وزارت خزانہ‘ سب ان قرضوں کی گردش رکنے ہی نہیں دیتے۔ یہ قرضے روکنا اس ٹرائیکا کے سینکڑوں کلومیٹر لمبے پیٹ پر چار فٹ کی لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس لیے کاروباری جمہوریت پورے خلوص کے ساتھ ان قرضوں کے لوڈ کی شیڈنگ کی بجائے دن رات قرضوں کی '‘اوور لوڈنگ‘‘ کے شغل میں سخت مصروف ہے۔
اب ذرا ایک نظر گیس لوڈ مینجمنٹ کا خاتمہ کرنے کے وعدے پر ڈال لیتے ہیں۔ لوڈ کا مطلب کیا ہے؟ ہم اوپر بتا چکے‘ لیکن مینجمنٹ کی تعریف دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے تو جب سے کاروباری جمہوریت نے سٹیل ملز، سٹیٹ لائف کارپوریشن، قومی ایئرلائن، سی ڈی اے، ایل ڈی اے، متروکہ وقف املاک، اوگرا، نیپرا اور نادرا جیسے اداروں کی ''مینجمنٹ‘‘ سنبھالی ہے‘ اس کے بعد مینجمنٹ ''تعریف‘‘ کی حدوں سے آگے جا چکی ہے۔ پھر بھی اس کا آسان ترجمہ ہو سکتا ہے: بندوبست۔ لہٰذا گیس کی کمی کا جو ''بندوبست‘‘ قطر معاہدے کے ذریعے ہوا‘ اس نے حکمرانوں کی 500 نسلوں کی معاشی ''انشورنس‘‘ مکملکر دی۔ ہاں البتہ تاجر حکومت نے سی این جی کے تاجروں کی دکانوں پر تالے لگا دیے۔ پاور لومز، چھوٹے کارخانے، سمال انڈسٹری، گھریلو صنعت اور کارٹیج انڈسٹری کی بندش نے صنعتی منظرنامہ یہ بنا دیا۔
جگر چھلنی ہے، دل گھبرا رہا ہے
انڈسٹری کا جنازہ جا رہا ہے
تاجرانہ دور آیا تو پاکستان میں معیشت کا نیا ماڈل متعارف ہو گیا ہے۔ ایسا ماڈل افریقہ سے لے کر امریکہ تک کہیں موجود نہیں۔ اس ماڈل میں حکمرانوں کے ذاتی کاروبار، اثاثے اور بچے ترقی کر رہے ہیں۔ غریب کا چولہا بند، سفید پوش کا گلا بند اور مُک مُکا کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی بولتی بند ہے۔ اس ماڈل میں 70 سالہ سیاسی نہیں بلکہ اپنے من پسند ''سنیاسی باوے‘‘ اکاموڈیٹ کرنے کے لیے اہم ترین قومی ادارے کارپوریشن اور اثاثے ان کے حوالے کیے گئے۔ 2018ء یقیناً ان اداروں کے چالیسویں کا سال ہو گا۔
باقی رہ گئی پالیسی سازی... خارجہ پالیسی، سکیورٹی پالیسی، تعلیمی پالیسی، زرعی پالیسی، ہیلتھ پالسیی، یوتھ پالیسی، آرٹ اینڈ کلچر پالیسی، لیبر پالیسی، زچہ و بچہ پالیسی سمیت کوئی ایک بھی پالیسی ایسی نہیں جس کے خدوخال 3 سال میں سامنے آ سکے۔ اس لیے 2018ء میں پاکستان دنیا کا ایسا پہلا ملک بننے کا اعزاز حاصل کر لے گا‘ جس کا ہر ادارہ پالیسی کے بغیر چل سکتا ہے‘ جبکہ ہر طرح کا لوڈ، تنقید اور ذمہ داری صرف ایک ادارے کے کاندھے کا بوجھ ہے۔ اس ادارے کا دوسرا کاندھا مسلسل شہیدوں کے جنازے اٹھانے میں مصروف ہے۔
2018ء کا سال جرائم ختم کر دے گا...؟ مہنگائی کنٹرول میں آئے گی...؟ روزگار عام ہو گا...؟ اس طرح کے سوال سننے کے لیے موجودہ حکومت کے پاس وقت ہے‘ نہ حوصلہ۔ آئیے انتظار کریں... 2018ء کا سال کس کے خاتمے کا سال ہو گا...؟ انتظار کا آپشن بالکل مفت ہے۔
خدا! یہاں کے خداؤں کا حشر کیا ہو گا؟
مرے وطن کی فضاؤں کا حشر کیا ہو گا؟
ادیب بیچ رہے ہیں متاعِ دیدہ و دل
سخنوروں کی نواؤں کا حشر کیا ہو گا؟
ستم رسیدہ وفاؤں کا حال دیکھ لیا
فریب خوردہ حیاؤں کا حشر کیا ہو گا؟
جھلک رہے ہیں جبینوں سے سجدہ ہائے ریا
بلند بانگ دعاؤں کا حشر کیا ہو گا؟