تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-02-2016

مجھے‘ میری بیوی سے بچائو

مسلم لیگ (ن) کے زعیم حسین قادری نے شوہروں سے وہ آزادی چھین لی‘ جو انہیں نئے قانون کے تحت میسر آ گئی تھی۔ پنجاب اسمبلی میں ایک ایسا بل پاس ہوا ہے‘ جس کے تحت خواتین پر تشدد کرنے والے شوہروں کو‘ بیویاں دو تین راتوں کے لئے گھر سے باہر نکال سکیں گی۔جن خواتین نے یہ بل تیار کیا‘ وہ بھول پن میں یہ بھول گئیں کہ یہ بل تو پوری طرح مردوں کے حق میں ہے۔ بہت سے مردوں نے گھر سے باہر اپنے خاص ٹھکانے بنا رکھے ہوتے ہیں‘ جہاں وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ لگاتے ہیں۔ چائے اور دیگر مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اوراپنی آزادمنش دوستوں کے ساتھ ‘شب بسری بھی کر لیتے ہیں۔ عام حالات میں‘ مردوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ انہیں کبھی اس مقصد کے لئے رات گھر سے باہر گزارنا پڑے‘ تو بیویوں کی طرف سے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ خفا ہوتی ہیں۔ لڑتی ہیں اور ان کا بنیادی اعتراض یہ ہوتا ہے کہ رات کہاں گزارنے گئے تھے؟ کس چڑیل نے تمہیں گھر نہیں آنے دیا؟ مجھے تو پہلے سے پتہ تھا کہ تمہیں کسی چنڈال نے اپنے اثر میں لے رکھا ہے۔شوہر ہزار انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے رات کسی غیرعورت کے ساتھ نہیں گزاری۔ مگر بیوی پیچھے نہیں ہٹتی اور یہ ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے کہ رات اس نے کسی کام کی غرض سے باہر نہیں گزاری بلکہ کوئی اور بات تھی جس کی وجہ سے اسے رات باہر گزارنی پڑی۔ کئی بار یوں بھی ہوا کہ شوہر دوستوں کے ساتھ تاش کھیلنے میں مصروف تھا کہ اوپر سے پولیس کی ریڈ ہو گئی۔ سارے دوستوں کو تاش کے پتوں اور پیسوں سمیت پکڑ کر تھانے لے جایا گیا۔ صبح تھانے کے انچارج صاحب آئے‘ تو جوئے سے پکڑی گئی ناجائز رقم سے پولیس کو رات بھر جاگنے کا معاوضہ دیا اور گھروں کی طرف چلے گئے۔ مگر گھر پہنچنے کے بعد‘ ان کے ساتھ جو ہوتی ہے‘ اس کا تجربہ اتفاقیہ راتیں باہر گزارنے والوں کو ہے۔ 
وہ پوری تیاری کر کے صبح گھر جاتے ہیں ۔ ڈرتے ہوئے۔ بہانے سوچتے ہوئے۔ کہانیاں بناتے ہوئے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ بیگم کس بہانے کو قبول کرے گی؟ جن کی بیگم نرم دل کی ہو‘ وہ ظلم و زیادتی کی کوئی کہانی گھڑ کے‘ مظلوم بن جاتے ہیں۔ گھر جاتے ہی وہ کوئی ایسی کہانی سناتے ہیں‘ جس سے بیگم کا دل پسیج جائے اور بجائے لڑنے جھگڑنے یا تبرے سنانے کے‘ وہ شوہر پر ہونے والی زیادتیوں کا تصور کر کے‘ ٹسوے بہانے بیٹھ جائے اور بجائے بیوی کی جھڑکیاں سننے کے وہ اسے تسلیاں دے رہا ہو کہ زندگی میں یوں تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ تم کیوں گھبرا رہی ہو؟ کوئی بات نہیں‘ زندگی میں ایسے حادثے ہوتے رہتے ہیں۔تم صبر کرواورہاتھ منہ دھو 
کے مجھے اچھی سی چائے بنا کر پلائو۔ بعض لوگوں نے شہر کے اندر کوئی دوسرا ٹھکانا بنا رکھا ہوتا ہے۔ جہاں عیش و عشرت کے لئے وہ کبھی کبھی جا دھمکتے ہیں۔ یہ کرائے پر لیا گیا کوئی کمرہ ہوتا ہے یا کسی چھڑے دوست کی رہائش گاہ یا کسی خوشحال جاننے والے کا شاندار گھر‘ جو اس نے تفریح کا وقت گزارنے کے لئے خالی رکھا ہوتا ہے۔ وہاں پر اس کا ایک مستقل نوکر ہوتا ہے۔ زیادہ امیر ہو‘ تو باورچی بھی موجود ہوتا ہے اور احکامات کے مطابق تازہ کھانے تیار ہونے لگتے ہیں۔ کمپنی کے لئے فیشن ایبل اور پیشہ ور خواتین آ جاتی ہیں۔ اعلیٰ کوالٹی کے مشروب شروع ہو جاتے ہیں اور جب ذرا سی مستی آئے‘ تو ڈانس بھی ہونے لگتاہے۔ ضروری نہیں کہ سب کو یا کسی ایک کو ڈانس آتا ہو۔ اس کی کوئی پروا بھی نہیں کرتا۔ جن کو تھوڑے بہت ہاتھ پائوں چلانے آتے ہیں‘ وہ ڈانس کے نام پر بھونڈی حرکتیں کر کے خوش ہو لیتے ہیں۔اب وہ تہذیب اور وہ کلچر پاکستان میں تو نہیں رہ گیا‘ جس میں فنی نزاکتوں سے لطف اندوز ہونے والے تماشائی موجود تھے۔ ان محفلوں کی شان ہی اور تھی۔ رقاصائوں کو مشہور و معروف کلاسیکی رقص پیش کرنے کا ڈھنگ آتا تھا۔ چہرے کے اتار چڑھائو‘ آنکھوں کے اشاروں اور انگلیوں کی حرکات سے‘ مختلف کہانیاں دکھائی جاتی تھیں اور جنہیں دیکھنے والے بھی خوب سمجھتے تھے۔ ایسی محفلوں میں عشق کی کہانیاں بھی جنم لیتی تھیں۔ میرے بعض رئیس دوستوں کی راتیں اور دن انہی محفلوں کے تذکروں میں خرچ ہوا کرتے۔ میرے ایک دوست رات بھر رقص گاہوں میں گزارتے۔ آدھا دن سو کر گزارتے اور پھر جاگتے ہی گزری رات کے قصے سنا کر لطف اندوز ہوتے۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ بیویوں کو مطمئن کرنا ہوتا۔ کبھی کوئی کہانی گھڑتے۔ کبھی کوئی۔ ان کی بیویوں کو سب کچھ معلوم ہوتا۔ مگر یہ بھولے بادشاہ یہی سمجھتے کہ وہ ان کے بھونڈے بہانوں سے بہل جاتی ہیں۔ حالانکہ انہیں سب پتہ ہوتا تھا اور بہانے بہانے سے وہ اپنے شوہروں پر یہ بھی ظاہر کر دیتی تھیں کہ ان کی ساری کرتوتیں ان کے علم میں ہیں۔ اس کے باوجود رشتے پر آنچ نہ آتی۔ یہ بڑے رکھ رکھائو والے لوگ تھے۔ شوہر اپنی طرف سے جو بہانے لگا کر ‘ اپنی شرافت کا بھرم رکھتا۔ بیوی سب کچھ جانتے ہوئے‘ اس پر نمائشی یقین کر لیتی اور اپنے صبر کے عوض بھاری معاوضے وصول کرتی۔ اسے سیروتفریح کے کھلے مواقع مہیا کئے جاتے۔ مگر اب یہ رکھ رکھائو والا کلچر ختم ہو رہا ہے۔ زندگی اور طرح کی ہو گئی ہے۔ رشتوں میںتعلق داری باقی نہیں رہی۔ ہر طرف کاروبار کے اثرات ہیں۔ اب افسروں اور حکومتی عہدوں پر فائز لوگوں کو غرض مندوں کی دعوتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جتنے زیادہ اختیارات والے شخص کو خوش کرنا مطلوب ہو‘ اتنا ہی قیمتی مشروب اور شہر کی خوبصورت حسینہ کو بلا کر‘ بڑے عہدیدار کی مدارات کی جاتی ہے۔جتنا بڑا عہدیدار ہوتا ہے‘ اتنی ہی بڑی محفل کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس میں ہر طرح کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ بڑے عہدیدار کے کام آنے والے بارسوخ لوگ بھی۔ اس طرح کی محفلیں باہمی تعلقات میں اضافے کی خاطر منعقد کی جاتی ہیں اور یہ محض میل جول اور تفریح کا ذریعہ نہیں‘ کاروبار کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں۔ ایسی محفلوں میں ہونے والی ملاقاتیں‘ کاروباری تعلقات میں بدل جاتی ہیں۔ افسروں اور عہدیداروں کو‘ مالدار غرض مندوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو ان سے کوئی بڑا کام کرا کے‘بھاری رقوم دے سکتے ہوں۔ سچ پوچھئے‘ تو ایسی محفلیں ہی ہمارے بڑے بڑے منصوبوں کو جنم دیتی ہیں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ سرکاری سرمایہ کاری کیسے کیسے طریقوں سے کی جاتی ہے؟ سیاستدان‘ خدمت خلق کے لئے جو کچھ بھی کرنا چاہیں‘ وہ ایسی ہی محفلوں کے حاشیہ بردار سے مدد لیتے ہیں۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ حاشیہ بردار ہی انہیں بڑے بڑے ماہرین کے ''قریب‘‘ لاتا ہے۔ماہرین کے نام استعمال کر کے‘ حاشیہ بردار کی کمپنی کو متعارف کرایا جاتا ہے اور پھر اسی کے نام پر بڑے بڑے کنٹریکٹ تیار ہوتے ہیں اور کھلے مقابلوںکے بعد وہ کنٹریکٹ آخر کار حاشیہ بردار کی کمپنی لے جاتی ہے۔ 
جن مردوں کے پاس دیر تک گھر سے باہر رہنے کے انتظامات نہیں ہوتے یا جو اپنی ملازمت کی نوعیت کی آڑ میں رات گئے گھر سے باہر رہنے کا بہانہ نہیں ڈھونڈ سکتے‘ وہ اکثر اپنے آسودہ حال دوستوں سے گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ انہیں تو اندھیرا ہونے سے پہلے گھر واپس آنا پڑتا ہے۔ ذرا دیر ہو جائے‘ تو بیوی سر کھانے لگتی ہے اور جب تک کھانا دینے سے فارغ نہ ہو جائے ‘ سر کھاتی رہتی ہے۔ شوہر کھانا کھاتا 
ہے‘ بیوی سر کھاتی ہے۔ بے شمار شوہروں کی زندگی اسی طرز پر گزرتی ہے۔ بیویوں کی پٹائی کرنا آسان کام نہیں۔ متوستط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ‘ بیوی کو پیٹنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کیونکہ صلح صفائی کے بعد بیوی کو منانے پر کافی خرچ ہوتا ہے‘ جس کے وہ متحمل نہیں ہوتے۔ یہ عیاشی صرف غریب آدمی کرتا ہے۔ جسے پتہ ہے کہ بیوی کو پیٹنے کے بعد وہ اسے منانے لئے نہ مٹھائی لا سکتا ہے۔ نہ اسے جنک فوڈ کی کسی دکان یا ریسٹورنٹ میںلے جا سکتاہے۔ سب سے زیادہ غریب کی جورو ہی پٹتی ہے اور اس پٹائی کے بدلے میں‘ اسے خوش کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں کیا جاتا۔ یہ بڑی بدمزہ پٹائی ہوتی ہے‘ جو پاکستانی عورتوں کی اکثریت کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اچھی پٹائی وہ ہے‘ جو مالدار شوہر کرتے ہیں۔ اس میں بیویوں کے بھی مزے ہیں اور شوہر کے بھی۔ شوہر اپنا غصہ نکال کر‘ اپنی طاقت پراتراتا ہے اور بیوی زیادہ شور اور آنسوئوں سے کام لے کر‘ اپنی ''منائی‘‘ کے معاوضے میں خاطر خواہ اضافہ کر لیتی ہے۔ پٹائی اور منائی کا یہ کھیل ہماری عام ازدواجی زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن اسے قانون کی لپیٹ میں لا کر دونوں فریقوں کا مزہ کرکرا کر دیا گیا ہے۔زعیم حسین قادری نے دنیا کے سب سے پرلطف اور خوبصورت رشتے کو قانون کی لپیٹ میں لا کر ‘زندگی کا لطف ہی ختم کر دیا ہے۔پٹائی اور منائی کے رشتے میں پولیس کو داخل کر کے‘ زندگی کا حسن اورنزاکتیں ختم کر دی جائیں گی۔ذرا ذرا سی بات پر‘ میاں بیوی کے معاملات میں پولیس کی مداخلت شروع ہو جائے گی۔ عورت کا غصہ پل میں تولہ‘ پل میں ماشہ کی مثل ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت ‘ شوہر سے خفا کر‘ پولیس کی مدد مانگ سکتی ہے اور چند لمحوں کے بعد غصہ اترنے پر اپنے شوہر کے حق میں سفارشیں کرنے لگے گی۔ میاں بیوی کی لڑائی میں پولیس کی مداخلت ‘ ازدواجی رشتوں کا لطف ختم کر دے گی۔ ن لیگ کے ترجمان نے تو کہا ہے کہ وہ مردوں کو تشدد سے بچائیں گے۔ہمارے پاکستان کے شیرجوان تو میدان جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑا دیتے ہیں۔ انہیں عورتوں کے تشدد سے بچانے کے لئے قانونی تحفظ فراہم کرنا کتنا دلخراش مذاق ہے؟ ہمارا بہادر اور جری جوان‘ پولیس کی مدد لینے تھانے کی طرف بھاگا کرے گا۔ بیوی جھاڑو اٹھائے‘ تعاقب کر رہی ہو گی اور شوہر مدد کے لئے پکارتا نظر آئے گا ''مجھے ‘میری بیوی سے بچائو!‘‘ پولیس ‘ شوہروں کو بچانے پر لگ جائے گی اور شہروں میں امن و امان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved