تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     27-02-2016

جیسی اب ہے تیری محفل

برنی سینڈرز نے اپنی پارٹی کی ہلری کلنٹن اور مخالف جماعت کے ڈانلڈ ٹرمپ کو ایک پارلیمانی شکست فاش دی۔ اگلے ہفتے ما ئکل مور Michael Moore کی ایک اور دستا ویزی فلم Where to Invade Next نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ ورمانٹ کے سینیٹر سینڈرز اپنے آپ کو ''ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘‘ کہتے ہیں۔ تین ماہ قبل جب وہ صدارت کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار بنے تو کئی تجزیہ کاروں نے اس بات پر شک ظاہر کیا تھا کہ ڈیموکریٹ انہیں نامزد کریں گے‘ مگر نیو ہیمپشائر پرائمری کے بعد اس شک میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ ڈیموکریٹک امیدوار یورپی طرز کے سوشلزم کو امریکہ لانا چاہتے ہیں۔ وہ سب کے لئے صحت کا مفت بیمہ اور کالج کی مفت تعلیم چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ جواں سال ووٹروں میں مقبول ہوئے ہیں۔ مور کا پیغام بھی تقریباً یہی ہے اور انہوں نے زیادہ مثالیں یورپی ملکوں سے دی ہیں‘ جن کا اس فلم کے سلسلے میں انہوں نے دورہ کیا۔ یہ فلم‘ جس کی تشہیر کے لئے انہیں بیرون ملک پروازسے روک دیا گیا تھا‘ دراصل ایک سفرنامہ ہے۔
اٹلی میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ معیشت پھر بھی پیداواری ہو سکتی ہے جب شہریوں پر تفریحی مقامات کی سیر (ویکیشن) کی برسات کی جائے۔ تب وہ فرانس جاتے ہیں‘ جہاں ان کی فلم کے مطابق سکول کے بچوں کو گورمے لنچ پیش کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فن لینڈ کا دورہ کرتے ہیں جہاں انہیں علم ہوتا ہے کہ سکول کے کچھ طلبا دنیا میں ذہین ترین ہیں‘ باوجود اس کے کہ انہیں کوئی ہوم ورک نہیں ملتا۔ آئس لینڈ میں وہ عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر پا کر حیران ہوتے ہیں۔ ناروے میں انہیں انسانی حقوق کے معیار کے مطابق جیلیں دیکھ کر اور اعلیٰ تعلیم مفت پا کر‘ سلووینیا میں غیر ملکیوں کے لئے بھی یونیورسٹی بلا فیس دیکھ کر وہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ ساری دستاویزی فلم میں دنیائے اسلام سے صرف ایک مثال ملتی ہے‘ اور وہ افریقی ملک تونس ہے‘ جہاں سرکاری خرچ سے عورتوں کی صحت کے کلینک چلتے ہیں‘ مگر مور نے اس حقیقت کا اظہار نہیں کیا کہ اس ملک سے وہ تحریک شروع ہوئی تھی‘ جسے مغرب نے عرب بہار کا نام دیا‘ اور جو ناکام رہی۔ یہ تحریک ایک منتخب ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے خلاف تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اکثریت نے حامد جبالی کو ووٹ دیے‘ جو دائیں بازو کا انتہا پسند وزیر اعظم ثابت ہوا‘ اور اعتدال پسندوں کے مطالبے جاری رہے۔ ایک عرب خاتون‘ جس نے اعلیٰ تعلیم سابق سامراجی قوت فرانس میں حاصل کی‘ امریکیوں کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ سب شہریوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا حکومت کا فرض ہے۔ فلم میں یہ مشورہ موجود ہے۔
حکومت پر بائیں بازو کی اس تنقید کے باوصف‘ مائکل مور محب وطن ہیں اور ثبوت کے طور پر قومی پرچم لے کر چلتے ہیں۔ 2003ء میں اپنی پہلی دستاویزی فلم میں جب انہوں نے عراق پر جارج بش کی فوج کشی کی مخالفت کی‘ تو بعض ری پبلکن حلقے انہیں وطن دشمنی کے طعنے دیتے تھے۔ اگرچہ رائے دہندگان نے بش کے جانشین بارک حسین اوباما کو بڑی حد تک ان کے جنگ مخالف انتخابی منشور کو ووٹ دیا۔ فلم کے چھوٹے سے اشتہار میں‘ جو ایک مقامی اخبار کو دیا گیا‘ بھاری بھرکم مور چودہ اعلی فوجی افسروں کے پس منظر میں کالا چشمہ‘ سایہ دار ٹوپی اور دونوں ہاتھ کھولے گویا امریکی براس سے پوچھ رہے ہیں: ''اب حملہ کہاں کرنا ہے؟‘‘
یکے بعد دیگرے وہ یورپ کے کئی‘ اور شمالی افریقہ کے ایک ملک کا دورہ کرتے ہیں (جسے وہ حملہ کہتے ہیں) اور ہر ملک سے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کی کچھ اچھی چیزیں ''چرا‘‘ لیتے ہیں‘ اور ان کی جگہ امریکی جھنڈا گاڑ دیتے ہیں۔ شام پر امریکہ اور اب روس کی بمباری سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور بیشتر نے مغربی یورپ کے علاوہ امریکہ کا رخ کیا مگر صحت‘ تعلیم اور تفریح کے حوالے سے مور نے جس غیر ملکی سے پوچھا: 'آیا وہ امریکہ میں رہنا پسند کر ے گا؟‘ امریکی حالات جان کر اس نے نفی میں جواب دیا‘ اس لئے کہ ان ملکوں کی حکومتیں اپنے شہریوں کا پورا خیال رکھتی ہیں اور ان ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ فلم میں ایک پاکستانی نوجوان تو یہاں تک کہتا ہے کہ اسے جرمن شہری ہونے پر فخر ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اور ایشیا اور افریقہ کے دوسرے لوگ ہر وقت امریکہ آنے کے لئے ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں اور امریکہ کا ویزا ختم ہونے پر لمبی سے لمبی قطاروں میں لگنے کو تیار ہوتے ہیں۔
ایک منظر میں مائکل مور چار سال پہلے ناروے کے ایک گرمائی کیمپ پر حملے میں ہلاک ہونے والے 77 لڑکوں میں سے ایک کے باپ کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ناروے میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کی پابندی کے بوجھ تلے یہ انتہائی سزا رکی رہی۔ اب موت کی سزا پانے والے قیدیوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ امریکہ میں جزا اور سزا چونکہ ریاستی معاملہ ہے اس لئے بعض علاقوں میں اس سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔ مور کو گمان ہے کہ شاید یہ دکھی والد اپنے ملک میں یہ سزا دیے جانے کا حامی ہو گا۔ وہ جواب دیتا ہے: ''دوسرے انسان کو ہلاک کرنا کوئی حق نہیں‘‘۔ ناروے کا ایک جیل وارڈن انہیں بتاتا ہے کہ امریکی آئین کے تحت ''ظالمانہ اور غیر معمولی‘‘ سزا کی ممانعت ہے اور ہم نے یہ اصول آپ سے لیا ہے۔ جنوبی کوریا نے بھی پہلا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ پاکستان سے لیا تھا۔ بیشتر یورپی اور سکنڈے نیوین ملکوں میں جرم کی سزا بحالی کے لئے دی جاتی ہے اور انتظامیہ میں مزدور کا کردار علامتی نہیں حقیقی ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذہنی دباؤ ایک مرض ہے جس کا علاج ہونا چاہیے۔
سارے سفر کے دوران مور کو صرف ایک سربراہ حکومت شرف ملاقات بخشتا ہے‘ اور وہ آئس لینڈ کا صدر ہے (اب نہیں)۔ علاوہ ازیں فن لینڈ کی وزیر تعلیم ان سے ملتی ہیں۔ دستاویزی فلم میں انگریزی کے علاوہ عربی‘ فنش‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ اطالوی‘ نارویجین اور پرتگالی زبانیں سنائی دیتی ہیں۔ رواں تبصرہ ما ئکل مور کا ہے۔ فلنٹ‘ مشی گن میں اس فلم کی نمائش مفت ہے کیونکہ شہر والوں کو ایک مہینے سے پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ سزائے موت ختم کرنے کا سلسلہ 1845ء میں ریاست مشی گن سے شروع ہوا تھا۔ میری لینڈ میں یہ سزا نہیں دی جاتی ہے مگر متصلہ ورجینا میں دی جاتی ہے۔
مور کا مقصد امریکہ کی رسوائی نہیں‘ بلکہ وہ اپنے انداز میں ایک محب وطن بن کر ابھرتا ہے۔ وہ وضاحت کرتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ملک ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ انہوں نے تخلیقی تبدیلیاں کی ہیں اور اب وہ اچھی حالت میں ہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہ مقام ہے جہاں برنی سینڈرز سامنے آتے ہیں‘ جن سے قدامت پسند ووٹر اور وال سٹریٹ کے افسر پوچھتے ہیں: اتنے پیسے کہاں سے لاؤ گے؟ مائکل مور کی یہ فلم دیکھ کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے آ خری تاجدار بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر یاد آتا ہے:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved