تعصّب یا عصبیت کی اصطلاح ہماری سیاسی وسماجی زندگی اور ذرائع ابلاغ میں بکثرت استعمال ہورہی ہے، معاشرے کے دیگر طبقات ''تعصّب ‘‘کی اصطلاح کو اہلِ مذہب کی طرف منسوب کر کے خود پاک وصاف ہوجاتے ہیں، لیکن یہ شِعار درست نہیں ہے۔ حدیثِ پاک میں تعصّب کی تعریف یہ فرمائی گئی ہے :''واثلہ بن اسقع بیان کرتے ہیں :میں نے عرض کی:یارسول اللہ !عصبیت کیا ہے؟،آپ ﷺ نے فرمایا:عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم میں اپنی قوم کے مددگار (Supporter)بن جائو‘‘(سنن ابودائود:5119) علامہ علی القاری نے لکھا :یہاں ''عصبیت ‘‘سے عصبیتِ جاہلیہ مراد ہے۔ حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص ناحق (یعنی ظلم پر) اپنی قوم کا مددگار بن جائے ،اُس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو گہرے کنوئیں میں گر پڑا ہو اور دُم سے کھینچ کر اُسے نکالا جارہا ہو‘‘(سنن ابودائود:5118)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے عصبیت کی جانب دعوت دی اور جو عصبیتِ (جاہلیہ)پر لڑا اور جس کی موت عصبیتِ (جاہلیہ کے نظریات) پر ہوئی، وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘(سنن ابودائود:5121)
جاہلیت کی جن باقیات کی پیغمبرِاسلام نے مذمت فرمائی ہے، وہ یہ ہیں:''عصبیتِ جاہلیہ،تَبَرُّجِ جاہلیہ اور حمیّتِ جاہلیہ ‘‘۔ حمیّتِ جاہلیہ اور عصبیتِ جاہلیہ ہم معنی ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پرخطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:''سنو!اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے غروراور اپنے آباء پر تفاخُر اور تعظُم وتکبّر کو باطل ٹھہرایا ہے ،تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام کا جوہرِ تخلیق مٹی ہے‘‘ ،پھر آپ نے سورۃ الحجرات کی آیت 13تلاوت فرمائی۔اسی موقع پر آپ نے فرمایا:''اے لوگو!(آخرت میں) انسانیت دو طبقات میں تقسیم ہوگی :ایک نکوکار،پارسا اور عزت و کرامت والے اور دوسرے کافراور بدکار ،(یعنی وہاں جزا وسزا کے فیصلے نسبی اورنسلی بنیادوں پر نہیں ہوں گے بلکہ ایمان اور اعمال کی بنیاد پر ہوں گے)‘‘ (سبل الھدیٰ والرشاد، ج 5ص242)
یہ بات ذہن میں رہے کہ شریعت نے جہاں باطل امور میں ایک دوسرے سے تعاون اور حمایت کو حرام قرار دیا ہے،وہاں خیر کے امور میں تعاون کوپسندیدہ صفات میں شمار کیا ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘(المائدہ:2)ایک بار رسول اللہﷺ نے دورانِ خطبہ ارشادفرمایا:''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے قبیلے کا اس وقت تک دفاع کرے، جب تک کہ اس کے قبیلے یا قوم والے ظلم پر آمادہ نہ ہوں‘‘(سنن ابودائود: 5120)حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اپنے بھائی کی مدد کرو ،خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ!اگر وہ مظلوم ہے تو اس کی مددقابلِ فہم بات ہے ،لیکن اگر وہ ظالم ہے تو ہم کیسے اُس کی مدد کریں؟،آپ ﷺ نے فرمایا: (ظلم کی جانب )اس کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روک دو‘‘(صحیح البخاری:2444)یعنی ظالم ظلم کر کے اپنی آخرت کو برباد کر رہا ہے ،تو اُسے ظلم سے روکنا ہی اُس کی حقیقی نُصرت ہے ۔
قرآن وحدیث کے اِن ارشادات کا مطلب واضح ہے کہ انسان کو سلیم الفطرت ہونا چاہیے ،اُس کی جبلّت (Nature) کا خمیر عدل وانصاف میں ڈھلا ہونا چاہیے ۔جس طرح دین ومسلک میں عصبیّت یعنی باطل امور میں اپنے ساتھی ہم مسلک لوگوں کی حمایت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم ﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے،اسی طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی یہی معیار وشعار ہمیں اپنانا چاہیے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں حق وباطل کی تمیز کے بغیر جو حزبِ اقتدار واختلاف کی تقسیم ہے ،اس نے لوگوں کی سوچ کو بھی اخلاقی آلودگی (Moral Polution)میں ملوّث کردیا ہے۔آئے دن آپ الیکٹرانک میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ مختلف جماعتوں کے ترجمان اپنی قیادت کی ناحق باتوں کا بھی دفاع کر رہے ہوتے ہیں اور اُن کے موقف کا بودا پن اور رَکاکت (Weakness) اُن کے چہرے کے تاثرات سے بھی عیاں ہوتی ہے ،لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک آخری اور فیصلہ کُن عدالت اُن کے قائدین کی ہوگی ، انہیں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جواب دہ نہیں ہونا پڑے گا۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس طرح کی حزبِ اختلاف یا حزبِ اقتدار کا کوئی تصور نہیں ہے ،اسلام تو حزبِ احتساب کا تقاضا کرتاہے ،جس کا کام دیانت داری کے ساتھ ہر اچھی بات کی حمایت کرنا اور ہر بری بات کی مخالفت کرنا ہونا چاہیے۔لیکن ہم چونکہ اپنی اقدار اب قرآن وسنت اور اسلام کے شعائر سے کشید (Extract) نہیں کرتے ،بلکہ مغرب کی اقدار ہی کو اپنانا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں ،لہٰذا اس کا نتیجہ اسلامی شعار سے دوری کے سوا کچھ نہیں ۔اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم مغرب سے بھی اچھی قدروں کو چھوڑ کر بری قدروں کو اپناتے ہیں ۔ہمارا یہ شعار سیاست ہی میں نہیں بلکہ تمام شعبوں میں ہے ،خواہ صحافت ہو،صنعت وتجارت ہو،وکالت ہویا ہماری معاشرتی زندگی کے دیگر شعبے ہوں۔ اس لیے ہمارا سب سے مَن پسند مشغلہ دوسروںپر،خواہ وہ افراد ہوں یاادارے اور طبقات ، تنقید ہے ،اپنے اندر جھانکنا نہیں ہے،بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا: ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر ،رہے دیکھتے اَوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ہماری دوسری خرابی یہ ہے کہ ہم مختلف نفسانی کیفیات کے زیرِ اثر رہ کر اپنی سوچ اور گفتار وکردار میں توازن نہیں قائم رکھ پاتے اور اعتدال کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں ،بہادر شاہ ظفر ہی کا کہنا ہے: ؎
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم وذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی،جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
سو عیش و طیش ،مسرّت وغضب ،اپنا وپرایا،محبت وعداوت اور چاہت ونفرت سب ایسی نفسیانی کیفیات ہیں کہ جن کے زیرِ اثر انسان حدِ اعتدال کو عبور کرلیتا ہے اور انصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک پر بحیثیتِ افراد وطبقات لازم ہے کہ اپنا اپنا جائزہ لیتے رہیں اورخود اپنااحتساب کرتے رہیں ۔اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ،ارشاد فرمایا:(۱)''اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچائو ‘‘(التحریم:6)(2)''(اے رسول!)اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیجیے اور خود بھی اس پر قائم رہیے‘‘(طٰہٰ:132)علماء نے بتایا ہے کہ ''اہل ‘‘کے لفظ کو اگر وسیع معنوں میں لیا جائے ،تو اس کے تحت وہ سب افراد آجاتے ہیں جو کسی کے دائرۂ اختیار اور دائرۂ اثر میں آتے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں :''تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت (Subordinates) کا نگہبان ہے اور ہر شخص سے اُس کے زیرِ اختیار لوگوں کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ریاست کا سربراہ اپنے عوام کے لیے جوابدہ ہے، شوہر اپنی بیوی کا نگہبان ہے، بیوی اپنے گھر کے معاملات کے لیے جوابدہ ہے،خادم یا ملازم اپنے مالک کے مال کا محافظ ہے اور اُس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا ۔اور ایک شخص اپنے باپ کے مال کا محافظ ہے اور اُس سے اسی کے بارے میں سوال ہوگا، پس تم میں سے ہر شخص (کسی نہ کسی درجے میں)صاحبِ اختیار ہے اور اُس سے اس کے دائرۂ اختیار کی بابت باز پُرس ہوگی‘‘(صحیح البخاری:893)۔
آج کل ہمارا الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا بے مہار ہے، ریاست بوجوہ لرزاں وترساں ہے ،کسی میں ہمت نہیں کہ اُن سے باز پُرس کرے یا اُن کے لیے کوئی قانونی حدود یا ضابطۂ اخلاق اور دینی حُرمتوں کی پاسداری کا معیار مقرر کرے ۔ داد رسی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے ،کیونکہ اُنہیں ہرایک کی خبر لینے کا استحقاق ہے، لیکن اُن کی خبر کوئی نہیں لے سکتا ؟۔ سوستم رسیدہ شخص کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتاہے کہ وہ اپنی درخواست اللہ تعالیٰ کے حضور دائر کر کے آخرت تک صبر وشکرکو اپنا شعار بنالے یا ہم سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہمیں اور پھر ہمارے اِن برادرانِ وطن اور سلاطینِ ابلاغ کو اپنے اندر جھانکنے اور اپنا مَن صاف رکھنے کی سعادت سے بہرہ وَر فرمائے۔اللہ تعالیٰ کے ہاں تو اُن کے لیے بھی ہدایات موجود ہیں ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (غیر معتبر شخص ) کوئی خبر لائے ،تواُس کی تحقیق کرلیاکرو ،ایسانہ ہو کہ تم ( حقیقت ِ حال سے ) ناواقفیت کے سبب کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچادواور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے ‘‘(الحجرات:6) رسول اللہﷺ کا فرمان ہے : '' کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی (ثبوت) کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات کو (تحقیق کے بغیر) دوسروں سے بیان کرتاپھرے ‘‘(صحیح مسلم:6) اور ہمارے ان مہربان دوستوں کی مثال امت کے اُن خُطباء سے کچھ مختلف نہیں ہے ،جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو معراج کے موقع پر آخرت کی ایک تمثیل دکھائی گئی۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:معراج کی شب مجھے کچھ لوگ دکھائے گئے جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا ،میں نے پوچھا:جبریل!یہ کون لوگ ہیں؟، انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں ، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھلادیتے ہیں ،حالانکہ یہ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں، سو کیا یہ سمجھتے نہیںہیں؟‘‘(موارد الظمآن،رقم الحدیث: 35)۔