برطانیہ کے ایک ریسٹورنٹ میں عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ایک گاہک نے مچھلی منگوائی۔ ٹیبل مین نے فرائی کی ہوئی مچھلی پلیٹ میں سجا کر گاہک کے سامنے رکھی۔ گاہک نے جیسے ہی چُھری اور کانٹا اٹھا کر مچھلی کا ایک پیس نکالنا چاہا، مچھلی زندہ ہو گئی۔ اس کے گلپھڑوں میں حرکت شروع ہوئی۔ یہ منظر دیکھ کر وہاں موجود تمام افراد حیران رہ گئے۔ مچھلی کو فوراً پانی پلایا گیا مگر اُس نے تھوڑا سا پانی پینے کے بعد ہونٹ سختی سے بند کر لیے۔ پلیٹ میں زندہ ہو جانے والی مچھلی کی ویڈیو اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔
اکیسویں صدی میں کسی بھی حیرت انگیز بات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی کہ پانی سے نکالے جانے اور پھر مسالا لگا کر فرائی کیے جانے تک مچھلی زندہ کیسے رہی؟ بات سمجھ میں آتی بھی کیسے؟ مچھلی نے سب کو حیرت میں مبتلا کرنے کی قسم جو کھا رکھی تھی! پہلے تو لوگ یہ سمجھے کہ پلیٹ میں مچھلی کا سانس لینا ریسٹورنٹ کی طرف سے پیش کیا جانے والا کوئی انٹرٹینمنٹ سیگمنٹ ہے! مگر جب حقیقت سامنے آئی تو لوگ واقعی حیرت زدہ رہ گئے۔ ہم سمجھ نہیں پائے کہ فرائی کی ہوئی مچھلی کو پلیٹ میں زندہ دیکھ کر، تھوڑے سے پانی کے لیے بے تاب پا کر لوگ اِس قدر حیران کیوں ہوئے۔ کیا ایسے مناظر اِس دنیا میں ناپید ہیں؟ کیا کسی نے فرائی کی ہوئی مچھلی کو سانس لیتے نہیں دیکھا؟ اگر نہیں دیکھا تو ذرا غور سے امریکہ کے دوستوں کی طرف دیکھے! سپر پاور نے اب تک سفارت کاری اور سٹریٹیجک معاملات کے ریسٹورنٹ میں ایسے ہی تماشے تو دکھائے ہیں!
امریکہ بہادر نے اس مصرع کا حق ادا کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ جب بھی ہمیں غالبؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے، فوراً ہی ذہن کے افق پر امریکی پرچم کے ستارے نمودار ہونے لگتے ہیں اور ساتھ ہی آنکھوں کے سامنے انکل سامراج کا روایتی مدقوق سا چہرہ بھی جلوہ گر ہو جاتا ہے! یہ کوئی دو چار برس کی بات تو ہے نہیں کہ ذرا سا ذکر کرکے خاموشی اختیار کر لی جائے۔ ہم عشروں سے امریکی دوستی کے ''مزے‘‘ لوٹتے آئے ہیں۔ دنیا اِس بات پر حیران ہے کہ اتنی طویل مدت تک ایک ہی سُوراخ سے سیکڑوں بار اپنے آپ کو ڈسوانے کے بعد بھی پاکستانی قوم کا دل نہیں بھرا۔ دنیا کو کیا معلوم کہ اس غلامی نے کتنی زبردست ''آزادی‘‘ بخشی ہے۔ خود سوچنا نہیں پڑتا، جو سوچنا ہے اُسے سوچنا ہے جس کی غلامی میں ہم نے اپنے آپ کو دے رکھا ہے۔ گویا ع
ہم اُس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا!
کئی عشروں سے ہم بھی فرائی کی ہوئی مچھلی کی طرح جی رہے ہیں۔ پکڑے جانے سے صفائی اور فرائی کے مرحلے تک ہم دَم سادھے پڑے رہتے ہیں‘ اور جب پلیٹ میں رکھ کر کسی گاہک کے سامنے رکھا جاتا ہے تو ہم میں زندگی کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جو کچھ برطانوی ریسٹورنٹ میں مچھلی نے کیا وہ ہم کئی عشروں سے کرتے آرہے ہیں اور اب یہ سب کچھ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ دنیا والوں کو زیادہ حیرت بھی نہیں ہوتی۔ ابتدا میں ہوتی ہو گی۔ کسی کو آنکھوں دیکھی مَکّھی نگلتے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے‘ مگر کب تک؟ جب یہ معمول ہو تو حیرت بھی پتلی گلی سے نکل لیتی ہے!
دنیا کی اِکلوتی سپر پاور نے کس مرحلے پر ہمیں دھوکا نہیں دیا؟ کب ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی معاملے میں اُمّید کے پَر لگا کر اُڑنے کی کوشش کی اور امریکہ نے اپنی مرضی کو قینچی کی طرح استعمال کرتے ہوئے ہماری اُمّید کے پَر کتر نہ ڈالے ہوں؟ درجنوں مواقع پر ایسا ہو چکا ہے کہ ہمیں کسی معاملے میں امریکہ سے کچھ درکار تھا مگر ککھ بھی نہ ملا۔ ملتا کیسے؟ جن کے نصیب میں جھکنا اور دستِ سوال دراز کرنا لکھا ہو اُنہیں ذِلّت کا ٹھیکرا ہی ملتا ہے۔ ہم انوکھے لاڈلے بن کر کھیلنے کے لیے چاند کی فرمائش کرتے ہیں۔ امریکہ کو مائی باپ گردانتے ہوئے ہم خود کو اُس کی اولاد سمجھ بیٹھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اُس کے لیے ہم سیاسی یتیم ہیں، اور کچھ نہیں۔ اور کبھی کبھی تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے لیے ہم سیاسی یتیم بھی سوتیلی نوعیت کے ہیں!
زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے کسی بھی ملک کے لیے امریکہ کی دوستی صرف اور صرف گھاٹے کا سَودا رہی ہے۔ جو بھی امریکی دوستی کے گھاٹ اُترا، سمجھ لیجیے موت کے گھاٹ اُترا۔ جس طور نادان
سے دوستی میں جی کا زیاں ہو جایا کرتا ہے بالکل اُسی طور امریکہ جیسے عیّاروں سے قربت بھی عزت اور آزادی کی زندگی سے بہت دور کر دیا کرتی ہے۔ پھر بھی آنکھوں دیکھی مَکّھی نگلتے رہنا؟ یہ منزل زیاں کے احساس سے محرومی کی ہے۔ کسی بھی مصیبت سے جان چھڑانے کی کوشش اس وقت کی جاتی ہے جب اس مصیبت کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان کا احساس و اندازہ ہو۔ جب احساس ہی نہ ہو تو کوئی کیا کرے اور کیوں کرے؟ امریکہ اور یورپ کی طرف جھک کر ہم نے باقی دنیا کو اپنے حوالے سے مایوس کیا ہے۔ چین سے دوستی ہمسائے سے تعلق والا معاملہ رہی ہے۔ جاپان، روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے ہم نے اپنے تعلقات کو وسعت دینے میں کبھی خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی۔ بہت سے معاملات میں امریکہ سے قربت اختیار کرنے پر ہمیں کبھی اشاروں اور کبھی کھل کر سمجھایا بھی گیا ،مگر ہم کہاں ماننے والے تھے؟ دنیا کو جو کہنا تھا کہتی رہی ہے اور ہم امریکہ کے سامنے زانوئے غلامی تہہ کیے یہی گنگنا کر اپنی مستی میں مست رہے ؎
چھوڑیے چھوڑیے، یہ باتیں تو افسانے ہیں
ہم بھی دیوانے ہیں جو آپ کے دیوانے ہیں!
ہم نے بہت سے مواقع پر تھوڑے سے وقتی فائدے کے لیے طویل المیعاد مفادات کو محض نظر انداز نہیں کیا بلکہ دفن کرکے سُکون کا سانس لیا۔ اور بعد میں جب عواقب کے بھگتنے کی بات آئی تو (ظاہر ہے، اپنا) سَر پیٹنے کے سِوا چارہ نہ رہا! ؎
لوگ سمجھاتے رہ گئے دِل کو
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا!
اور اگر امریکہ سے کوئی شکایت کیجیے تو ایسا کرارا جواب ملتا ہے کہ منہ پر تالے لگ جاتے ہیں۔ اگر دوستی کا واسطہ دے کر یاد دلائیے کہ اُس کی خاطر کیا کیا جھیلا ہے جو سامنے سے جواب آتا ہے کہ ہم نے کب کہا تھا کہ ہمارے لیے اِس حد تک جاؤ اور پھر احسان جتاؤ! اور ہمارے پاس تاسّف کی چادر تان لینے کے راستہ نہیں رہتا۔
لازم سا ہو گیا ہے کہ اب ہوش کے ناخن لیے جائیں اور ''آقا‘‘ کے مفاد کی چوکھٹ پر بہت کچھ یا سب کچھ قربان کرنے کے بجائے کچھ اپنے وجود اور اُس کے مفاد کے بارے میں بھی سوچا جائے۔ امریکہ صدا لگاتا ہے ''بول میری مچھلی، کتنا پانی؟‘‘ جواب میں امدادی پانی کے دو چار گھونٹ پی کر ہم سمجھتے ہیں کہ دُنیا مل گئی۔ اور پھر ہم اپنے ہونٹ سختی سے بند کر لیتے ہیں!
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا ہم سے کہہ رہی ہے کہ محض آقا نہ بدلیں مگر غلامی کی روش پر گامزن رہنے کی عادت ہی بدل ڈالیں، بلکہ اِس عادت کا گلا گھونٹ دیں۔ امریکی سُوراخ سے سو بار ڈسے جانے کے بعد ہم مومن ہونے کا دعوٰی کرنے کی ''زحمت‘‘ سے بھی چُھٹ گئے! اب تو امریکہ بھی روش تبدیل کرنے پر مجبور دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں ہمارا خوشی خوشی پا بہ زنجیر رہنا حیرت انگیز و عبرت ناک ہے! کبھی تو ایسا ہو کہ ہم بھی جالبؔ کی زبان میں کہیں کہ ہمیں اپنا اُجالا چاہیے، امریکہ کی بخشی ہوئی صبحِ بے نُور کو ہم نہیں مانتے، ہم نہیں جانتے!