تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-02-2016

تیسری جنگ کا ہٹلر

پاکستان کو امریکہ سے صرف آٹھ ایف سولہ جنگی طیارے ملنے کی خبر پر پورے بھارت کا میڈیا اور اس کی مودی سرکار مل کر اس طرح چیخ و پکار کر رہے ہیں جیسے پاکستان نے ایک دن میں پورا سکواڈرن خرید لیا ہے۔ امریکی کانگریس اور سینیٹ اراکین سے باہم مل کر بھارتی سفارت کار اور اس کے میڈیا کے سینئر ترین لوگ ان آٹھ ایف سولہ طیاروں کی منظوری ملنے سے کوئی تین ماہ قبل ان طیاروں کو رکوانے کیلئے بھر پور احتجاجی مہم یہ کہتے ہوئے چلا رہے تھے کہ یہ طیارے دہشت گردوں کے نہیں بلکہ بھارت کے خلاف استعمال کئے جائیں گے۔ ان کی بھر پور کوشش تھی کہ اگر یہ طیارے پاکستان کو ان کے احتجاج کے با وجود مل جائیں‘تب بھی پاکستان کے خلاف اس قدر پراپیگنڈہ کر دیا جائے کہ امریکی عوام سمیت اقوام عالم کے سامنے ایک سوال کھڑا کر دیا جائے۔دوسری طرف کیا ہم میں سے کسی نے موجودہ حکومت کی جانب سے اب تک بھارت کو دنیا بھر سے ملنے والے اسلحے کے ڈھیروں کے خلاف ایک ہلکی سی احتجاجی آواز نکالتے ہوئے کبھی سنا یا دیکھا ہے؟۔ کیا ہم سے اصولی اور مو ثر احتجاج کیلئے قوت گویائی بھی چھین لی گئی ہے؟۔ بھارت تو دنیا کویہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو ملنے والے یہ ایف سولہ جنگی طیارے دہشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ بھارت کے خلاف استعمال کئے جائیںگے مگر کیا پاکستان میں سے کوئی بھی دنیا کو یہ نہیں بتا سکتا کہ 1962 ء میں چین کا خوف دکھاتے ہوئے بھارت نے امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام مغربی ممالک سے جنگی اسلحہ کے پہاڑ اکٹھے کر لئے لیکن یہ اسلحہ سب نے دیکھا کہ اس وقت سے صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہوا بلکہ کمیونسٹ چین کے خلاف مغربی بلاک کا بھارت کو دیا جانے والا یہ
ا سلحہ 1971 ء میں پاکستان توڑنے کے خلاف استعمال کیا گیا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ والے کسی کو بھی نہیں بتاتے کہ ایف سولہ پر شور مچانے والا بھارت خود امریکہ سے پانچ بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ کر رہا ہے جس میں جدید ہیلی کاپٹر، جنگی طیارے ، ٹینک اور توپیں شامل ہیں۔ امریکہ سے پانچ بلین ڈالر کے تباہ کن ہتھیار خریدنے کے علا وہ بھارت روس، اسرائیل اور فرانس سے 8 بلین ڈالر کا دفاعی سامان خریدرہا ہے اور صرف گزشتہ ایک سال میں بھارت نے بیرون ملک سے 6بلین ڈالر کاتباہ کن جنگی اسلحہ خریدا ہے اور میڈیا سمیت سفارتی ذرائع کو بتا رہا ہے کہ یہ سب چین کے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرنے کیلئے ہے۔ اربوں ڈالر کا سلحہ خریدنے کے علا وہ بھارت اپنے ملک میں ٹینک، ہیلی کاپٹر اور بیلسٹک میزائلوں سمیت دوسرےCombat ہتھیار دھرا دھڑ تیار کر رہا ہے۔ نریندر مودی نے اسلحہ تیار کرنے والے بڑے بڑے ممالک کو بھارت میں اسلحہ سازی کی صنعتیں لگانے کی پیشکش بھی کر دی ہے اور اس کیلئے انہیں بے انتہا سہولتیں مہیا کر دی ہیں تاکہ اسے ان سے اسلحہ خریدنے میں آسانی ہو سکے۔ 
عالمی دفاعی ادارے کی یہ رپورٹ تو سب کے سامنے آ ہی چکی ہے کہ بھارت اس وقت دنیا بھر کے164 ممالک میں سب سے بڑا اسلحہ کا خریدار بن چکا ہے ۔تباہی کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ملک خود کو شائد اسی لئے '' شائننگ انڈیا‘‘ کے نام سے پکارتا ہے کہ اس کے اسلحے کے پہاڑوں کے استعمال سے ہر طرف تباہی مچانے والی آگ کے شعلے دور دور تک اڑتے اور چمکتے ہوئے نظر آ ئیں گے۔ذرا 
سوچئے کہ غربت کی چکی میں برسوں سے پسے ہوئے بھارت کو اچانک کیا سوجھی کہ وہ چین اور جنوبی چین کے ارد گرد کی سمندری حدود کو بھی اپنے نشانے پر لینے کی تیاریاں شروع کر رہا ہے جبکہ ٹائمز نے وہ تصویر اپنے صفحہ اول پر شائع کی تھی جس میں بھارت کے لوگ چوہوں کو آگ پر بھون کر کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جنوبی ویت نام کے ساتھ بھارت نے '' سیٹیلائٹ ٹریکنگ‘‘ کے نام سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے ذریعے ہنوئی اور نئی دہلی کی حکومتوں کو چین اور جنوبی چین کی سمندری حدود کے بارے میںتمام تر معلومات سے آ گاہی ہوتی رہے گی۔ بھارت اور جنوبی ویت نام کے اس معاہدے کا پس منظر جاننے کیلئے یہ بات سامنے رکھنی ہو گی کہ بھارت اور جنوبی ویت نام دونوں کے چین کے ساتھ دیرینہ سرحدی تنازعات عروج پر ہیں۔دنیا کو دکھانے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ اس دو طرفہ معاہدے اور باہمی تعاون سے زراعت، سائنس اور ما حولیاتی تغیرات سے آگاہی ہو گی لیکن نئی دہلی کے سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اس معاہدے سے بھارت چین کی سمندری حدود میں ہونے والی کارروائیوں کے معمولات سے بھی با خبر رہے گا۔
بھارت کی سرکاری نگرانی میں کام کرنے والی انڈین خلائی تحقیقاتی آرگنائزیشن (ISRO) نے اس منصوبے کیلئے23 ملین ڈالر مختص کئے ہیں اور سیٹیلائٹ ٹریکنگ اورData receptionمرکز جنوبی ویت نام کے شہر ہوچی منہ میں قائم کیا جا رہا ہے جس سے انڈیا کے سیٹیلائٹ کو مانیٹر کیا جا سکے گا۔پاکستان سمیت چینی حکومت بھی یقینا اس سے با خبر ہو گی کہ بھارت کا54 سال پر محیط سیٹیلائٹ سسٹم ٹیکنالوجی کیلئے کام کرنے والا ادارہ اس حد تک ترقی کر رہا ہے کہ اس کے دعوے کے مطا بق وہ ہر ماہ ایک سیٹیلائٹ خلا میں بھیج سکتا ہے اور اس کیلئے اس نے زمینی اسٹیشن ایک دو نہیں بلکہ جزائر انڈیمان، نکوبر، Brunei, Mauritius میں قائم کر رکھے ہیں۔۔۔ساتھ ساتھ بھارت ویت نام کی سب میرین کو تربیت دینے کے علا وہ ہنوئی حکومت کو 100 ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن بھی جاری کر چکا ہے تاکہ وہ پٹرول بوٹس خرید سکے اور بدلے میں ہنوئی حکومت نے بھارت کو ان سمندری حدود جن کا چین سے تنازعہ عروج پر ہے‘ تیل کی تلاش کی سہولیات مہیا کر نے کا معاہدہ بھی کر لیا ہے اور بھارت کا دو ملکوں کے درمیان اس متنازعہ سمندری حدود میں ان سہولیات کو قبول کرنا صریحاًعالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح شائد بھارت اور جنوبی ویت نام کی جانب سے چین کو کوئی خاص پیغام دینا مقصود ہے ۔وجہ کچھ بھی ہو ان کا یہ عمل خطے اور عالمی امن کیلئے انتہائی تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا ہٹلر مودی مہا بھارت کے پردے میں توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے کس حد تک جا سکتاہے۔ 
بھارت اور جنوبی ویت نام دونوں چونکہ چین کے دشمن ہیں اس لئے دونوں کی خواہش تھی کہ وہ ایڈوانس انٹیلی جنس سسٹم کے ذریعے قریبی نگاہ رکھتے ہوئے جنوبی چین کی سمندری میں ہونے والی ہر قسم کی نقل و حرکت کی جاسوسی کر سکیں اور چین کے جنوبی سمندر کی حدود پر اپنے اپنے مشترکہ مفادات کے تحت نظر رکھ سکیں۔سنگا پور کے راج رتنام سکول برائے انٹر نیشنل سٹڈیز میں میرین سکیورٹی کے انتہائی تجربہ کار کولن کوہ کا اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ آج کی فوجی زبان میں اسے ایک بہترین فوجی معاہدہ کہا جا سکتا ہے جس سے بھارت کو اپنے ارد گرد کے سمندروں کے بارے میں ہر وقت اطلاعات ملتی رہیں گی۔ بھارت اور ویت نام کی چالاکیاں دیکھئے کہ دونوں نے چین سے ایک دوسرے کی سرحدی حدود کے اختلافات کو استعمال کرتے ہوئے ایک طرف جہاں ویت نام کی فوجی کمزوریوں کو سنبھالا دیا ہے تودوسری جانب بھارت نے سمندری حدود کی ان وسعتوں کو اپنے لئے کار آمد بنا نے کا آغاز بھی کر دیا ہے جہا ں اس سے پہلے اس کی رسائی میں رکاوٹیں آ رہی تھیں۔یہ خاص بات بھی پیش نظر رکھیں کہ بھارت کے پاس اس وقت مدار میں گیارہEarth observation satellites کام کر رہے ہیں۔آسٹریلیا کے سکالر Carl Thayarجو1960 ء سے ویت نام کی فوجی صلاحیتوں کا مطا لعہ کر رہے ہیں‘کا بھارت اور جنوبی ویت نام کے اس معاہدے بارے کہنا ہے کہ '' دونوں ملکوں کے درمیان سیٹیلائٹ ٹریکنگ کا یہ معاہدہ سوائے ایک فوجی مقاصد کے اور کچھ نہیں!! کیا اس کے بعد بھی ہماری آنکھیں اور زبانیں بند رہیں گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved