تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-02-2016

حکمرانی

ہمارے حکمران افتادگانِ خاک کے لیے مشفق و مہربان نہیں ہو سکتے۔ یہ ہم جانتے ہیں‘ مگر ڈاکو تو نہ بنیں۔ کتنے ہی طاقتور ہوں‘ ڈاکوئوں کا انجام اچھا نہیں ہوا کرتا۔ قاتل اور کذّاب لوگوں کا۔
سولہ ارب روپے سے کراچی میں گرین لائن بسوں کے منصوبے کا افتتاح ایک بڑا واقعہ ہے۔ وزیر اعظم کی تحسین کی جانی چاہیے۔ خدا کرے کہ لاہوری منصوبوں کی طرح یہ بروقت مکمل ہو جائے۔ یہ کراچی کا ایک بڑا مسئلہ حل کرنے کی ابتدا ہے۔ یہ زخموں پر مرہم کا وعدہ ہے۔
دو کروڑ کی آبادی کا شہر ہے۔ امن و امان‘ کرپشن اور دہشت گردی کے علاوہ بھی یہ دیار تین سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ آمد و رفت کی سہولیات‘ پانی اور کوڑا کرکٹ۔ درحقیقت کوڑے کو قالین کے نیچے دھکیلنے کی روش۔ صدیوں سے ہماری اشرافیہ جس کی عادی ہے۔ یہی انداز فکر خارجی غلبے کی راہ ہموار کرتا ہے اور آمریت کا۔ عامیوں کے ساتھ بے اعتنائی ہے جو ریاست سے انہیں وابستہ ہونے نہیں دیتی۔ مٹی سے نہیں‘ مکینوں کو وطن سے محبت ہوتی ہے کہ سرکار ان پہ سائبان ہو۔ ماں کی طرح وہ مشفق نہیں ہو سکتی مگر وہ ایک سفاک اور بے نیاز باپ بھی نہ بنے۔ حب وطن کا اکھوا تب پھوٹتا ہے‘ جب محروموں اور مفلسوں کی نگہداشت ہو۔ انہیں یقین ہو کہ وہ حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دیئے جائیں گے۔ 
مردم شماری سے پتا چلے گا کہ پاکستانیوں کی تعداد کتنی ہے۔ اندازہ ہے کہ 22کروڑ۔ خیال ہے کہ صرف پشتون آبادی 5کروڑ سے زیادہ ہے‘ جن کی زرخیز سرزمینوں میں اولاد آدم کی فراوانی ہے... جائے تنگ است و مردماں بسیار!
آدمی ایک اثاثہ ہے۔ ٹیگور نے کہا تھا: پیدا ہونے والے ہر بچہ یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خالق ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ بہترین معاشرے وہ ہیں‘ جن میں آدمی کی قدر پہچانی گئی۔ اس کی صلاحیت کو جلا بخشنے کا اہتمام ہوا۔ تعلیم پر ڈاکٹر عطاالرحمن کا گریہ بجا ہے۔ وہ بچہ جو کوڑے کے ڈھیر پہ کاغذ چن رہا ہے‘ وہ حیران کرنے والے سائنسدان سے مختلف نہیں۔ وہ مگرتعلیم نہ پا سکا۔ کسی نے اس کا ہاتھ نہ تھاما‘ زندگی کے راستے اس پر روشن نہیں۔ تاریکی میں وہ اپنا رزق ڈھونڈتا ہے۔ انسان ہونے کا بھی اسے احساس نہیں اور اس کا کوئی پروردگار نہیں۔ تمام تر اجالا علم کے ساتھ ہے۔
اخلاقی اور روحانی اقدار پہ بہت زور دیا جاتا ہے۔ واعظ جہنم سے ڈراتے ہیں۔ خلق کو خوف زدہ کیے رکھتے ہیں۔ جی نہیں‘ اللہ کے رسولؐ خیر خواہی کرتے اور حوصلہ افزائی فرمایا کرتے۔ سینے سے لگاتے اور بہشت بریں کی بشارت دیا کرتے ۔ ان کی قائم کردہ ریاست میں ہر جان کے لیے تحفظ اور ہر بھوکے پیٹ کے لیے رزق کی ضمانت تھی۔ فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کون اس کا اہتمام کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ صرف ریاست ہی۔ اصحاب صفہ ؓ کو آپ نے سب سے زیادہ وقت دیا۔ طلبہ کو۔ فقط نماز روزہ ہی نہ سکھایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ کائنات سے زمین کا تناسب کیا ہے۔ اصحاب نے سوال کیا: کائنات اپنی ابتدا میں کیا تھی۔ فرمایا: دُخّان، یعنی بادل۔ پوچھا: ابوذر ؓسورج کہاں جاتا ہے؟ پھر بتایا عرش کو جاتا ہے، تب اسے لوٹنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایک دن یہ حکم اسے ملے گا نہیں۔ پرویز نے کہ اپنے علم پر اسے ناز تھا، اس حدیث کا مذاق اڑایا۔ چار پانچ عشرے گزرے تو سائنس نے راز کھول دیا۔ ایک نہیں سورج کی دو گردشیں ہیں۔ اپنے محیط میں گھومنے کے علاوہ بلندی کی جانب بھی بڑھتا ہے اور پھر وہاں سے پلٹتا 
ہے۔ اس رفعت کو سائنس دانوں نے Solar epic کہا۔ ''عرش‘‘ کے سوا بھی اس کا کوئی ترجمہ ہے؟ فرمایا: ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ آدمی کو اس بھید تک پہنچنے میں بارہ سو برس سے زیادہ لگے۔ فرمایا: اے اہل کفر تم میرا انکار کیسے کر سکتے ہو، یہ سب کچھ ایک ہی تھا، پھر ہم نے اسے پھاڑ کر بکھیر دیا۔ Bigbang...1300 برس بعد سائنس جس کا سراغ لگا پائی۔
چالیس برس پہلے خلا میں بھیجی گئی عظیم الشان ہبل دوربین کی عطا کردہ معلومات سے معلوم ہوا کہ کائنات تیزی سے وسعت پذیر ہے۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: اپنے زور بازو سے ہم نے اس کائنات کو پیدا کیا اور اسے وسعت دیتے جا رہے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر اسی رفتار سے کائنات سمٹتی چلی جائے جس سے فروغ پذیر ہے تو چھ ارب سال میں معدوم ہو جائے۔ یہی بات کتاب میں لکھی ہے۔ چھ دن میں یہ کائنات بنائی گئی۔ وہی چھ ارب سال۔ ''پھر وہ آسمانوں کو بلند ہوا اور سات آسمان تخلیق کیے‘‘۔
دینی اور غیر دینی کا کیا مطلب ہے؟ سب علوم اسلامی ہیں۔ ندیوں، دریائوں، آبشاروں، بادلوں اور بارشوں ہی میں نہیں، جو زمین کو زندہ کر دیتی ہیں؛ تتلیوں، پھولوں، کوہساروں اور چاند ستاروں ہی میں نہیں‘ ریاضی فلکیات، کیمیا اور جغرافیہ میں بھی خالق کے جلوے ہیں۔ پرندوں ہی میں نہیں، فضائوں میں محو پرواز لوہے کے پرندے میں بھی، آدمی کے برّاق ذہن نے جس کو تخلیق کیا۔
ذہانت آدمی کو بخشی گئی مگر جبلّتیں بھی، خود غرضی بھی۔ اسی میں اس کا امتحان ہے۔ فقط اپنے لیے وہ جیتا ہے یا اپنے خالق اور اس کی مخلوق سے ہم آہنگ ہو کر۔ آخری پیغمبر ؐپر اترنے والی پہلی آیت علم کی فضیلت پر ہے: ''پڑھ اور تیرا رب کرم فرمانے والا ہے‘‘۔ ترتیب کے اعتبار سے مصحف کا پہلا کلمہ، ایمان اور نماز کے ساتھ ایثار کو لازم قرار دیتا ہے۔ قرار دیتا ہے کہ انسانی زندگی میں روشنی کا سراغ جس کے بغیر ممکن نہیں۔ امیر المومنین ہارون الرشید سے فضیل بن عیاض ؒنے کہا تھا: تیرا کیا ہو گا اے خوبصورت چہرے والے، تجھے تو پوری امت کا حساب دینا ہے۔ اس جلیل القدر حکمران فاروق اعظمؓ نے یہ کہا تھا: عراق کے دلدلی راستوں پر اگر کوئی خچر پھسل کے گر پڑا تو مجھے اندیشہ ہے کہ عمرؓ سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
جائز حکومت وہ نہیں‘ جس نے ووٹ حاصل کر لیے ہوں‘ بلکہ وہ ہے‘ خدا اور بندگان خدا کی طرف سے عائد کی جانے والی ذمہ داریوں کو جو احسن طریق سے انجام دے۔
اڑھائی کروڑ آدمی ہر روز کراچی میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے لیے فقط دس ہزار چھوٹی اور بڑی بسیں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اٹھارہ لاکھ موٹر سائیکلیں‘ لاہور میں کاروں کی تعداد آٹھ لاکھ ہے‘ کراچی میں بارہ لاکھ سے کیا کم ہوں گی۔ کراچی ملک کا معاشی انجن ہے۔ منی پاکستان۔ پچاس فیصد اردو بولنے والوں کے علاوہ جہاں پختون‘ پنجابی‘ بلوچ‘ سندھی‘ ہزارہ وال بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ دنیا میں پشتونوں کا سب سے بڑا شہر۔ زیر زمین ریلوے کی اسے ضرورت ہے۔ اس بردبار‘ نجیب اور ریاضت کیش آدمی نعمت اللہ خاں نے چین سے بات کر لی تھی۔ دس برس سے وہ بروئے کار ہوتی اور ایک دھیلا خرچ کیے بغیر۔ جنرل مشرف اور شوکت عزیز نے مگر اس کی اجازت نہ دی۔ جس طرح لاہور کی لوکل ریلوے کو شہباز شریف نے سبوتاژ کر دیا‘ جو 2012ء میں مکمل ہوتی۔ آسان قرض تھا‘ 0.25 فیصد پر۔ اب اس سے تیرہ گنا مہنگا قرض انہوں نے لیا ہے اور ڈیڑھ گنا سے زیادہ اخراجات۔ کراچی کو کم از کم مزید دس ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ بغیر سود قرض دے یا ٹیکسوں میں رعایت دے کر دو کروڑ آدمیوں کی زندگیاں آسان کی جا سکتی ہے۔ 1996ء میں ریلوے کا مقامی نظام تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ زیر زمین ریلوے کے بغیر حل نہ ہو گا۔ لاہور سے پہلے کراچی میں اس کی ضرورت تھی مگر لاہور شریف خاندان کا سیاسی قبلہ ہے‘ چنانچہ میٹرو بھی پہلے یہاں اور ریل بھی پہلے یہاں۔
ابھی ابھی کراچی سے عدنان عادل نے بتایا کہ پانی کا بحران بہت بڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کل ان کی ہمشیرہ کے ہاںپانی کا ٹینکر 5000 روپے میںخریدا گیا۔ مہینے بھر میں 7500 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لاہور میں اوسطاً چھ سو روپے۔ سندھ کی اپاہج حکومت کچھ نہ کرے گی‘ وزیراعظم ہی کو پیش قدمی کرنا ہو گی۔ کوڑے کرکٹ کا البتہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ میڈیا کو واویلا جاری رکھنا ہو گا۔ کراچی کے شہریوں کو ہنگامہ اٹھانا ہو گا۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے جنہوں نے گندگی پر احتجاج کرنے والے عالمگیر کو گرفتار کیا۔ 
ہمارے حکمران افتادگانِ خاک کے لیے مشفق و مہربان نہیں ہو سکتے۔ یہ ہم جانتے ہیں‘ مگر ڈاکو تو نہ بنیں۔ کتنے ہی طاقتور ہوں‘ ڈاکوئوں کا انجام اچھا نہیں ہوا کرتا۔ قاتل اور کذّاب لوگوں کا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved