تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     28-02-2016

بے حسی کی دیوار اور ’’فکس اٹ‘‘

ہمارے اردگرد بے شمار مسائل بکھرے پڑے ہیں۔ خالی مین ہول، گندگی اور کوڑے کے ڈھیر، بجلی کی لٹکتی ہوئی تاریں، ٹوٹی پھوٹی گلیاں اور ایسے کئی دیگر مسائل جنہیں دیکھ کر عموماً تین طرح کے ردعمل سامنے آتے ہیں۔ ایک قسم تو اُن حال مست لوگوں کی ہے جو اِن مسائل کو روز جھیلتے مگر خاموشی سے برداشت کرتے ہیں۔ وہ ان مسائل کو اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کر چکے ہیں۔ دوسری قسم ان پاکستانیوں کی ہے جو مسائل کو دیکھ کر کڑھتے ہیں مگر عملی طور پر سڑک سے کیلے کا چھلکا بھی اٹھا کر کوڑے دان میں نہیں ڈالتے۔ پاکستانیوں کی 90 فیصد اکثریت اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہم اپنی گلی گندی ہونے کا شکوہ تو دِن رات کرتے رہیں گے مگر چار پیسے اکٹھے کر کے کسی جمعدار کو معاوضہ دے کر گلی صاف نہیں کروائیںگے۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو مسائل کو دیکھ کر خاموش رہتے ہیں نہ صرف جلنے کڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں، بلکہ ان کے حل کے لیے عملی طور پر میدان میں آ جاتے ہیں۔ ایسے افراد معاشرے کا حسن ہوتے ہیں لیکن اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتے اور انتظامی مشینری کو جھنجھوڑنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
کراچی کے عالمگیر خان اسی کمیاب پاکستانی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو مسائل کے حل کے لیے میدان میں نکلتے ہیں۔ عالمگیر خان کا نام میڈیا میں اس وقت آیا جب کراچی کے کھلے مین ہولز کے خلاف انہوں نے اپنی تنظیم 'فکس اٹ‘ کے پلیٹ فارم سے بہت ہی انوکھا اور دلچسپ احتجاج کیا۔ انہوں نے دھرنا دیا نہ جلوس نکالا؛ پلے کارڈ اٹھا 
کر مارچ کیا نہ ہی ٹریفک بلاک کر کے ٹائروں کو آگ لگائی، بس کھلے مین ہولز کے پاس سائیں سرکار کی تصویر بنا کر ساتھ Fix it لکھ ڈالا۔ فکس اٹ، فریزل ورب ہے جس کا مطلب ہے قابل مرمت شے کی مرمت کرنا۔ عالمگیر خان کی تنظیم نے راتوں رات کراچی کے کتنے ہی کھلے مین ہولز پر یہ پیغام لکھا۔ اس پیغام پر سائیں سرکار کو جلال تو آنا ہی تھا، سو وہ بھی''خواب بے حسی‘‘ سے بیدار ہوئے(خوابِ غفلت سے مستعار) اور فرمایا کہ یہ کون ناہنجار ہے جس کی یہ جرأت ہوئی کہ کھلے مین ہول جیسے گھٹیا عوامی مسائل میں سندھ حکومت کو دھکیلے۔ سائیں قائم علی شاہ اعلیٰ نوعیت کے وی آئی پی مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ کہاں وی وی آئی پی قسم کا ڈاکٹر عاصم کیس جس میں اربوں کے تذکرے ہوتے ہیں اور کہاں یہ تھرڈ کلاس عوامی مسائل۔۔۔ مین ہولوں کے ڈھکن اور کوڑے کے ڈھیر اٹھوانا وغیرہ ۔ اس وقت تو بات لے دے کر ختم ہو گئی مگر عالمگیر خان کہاں سمجھنے اور سدھرنے والے تھے، چند روز پہلے ایک نیا تماشا کھڑا کر دیا۔ کوڑے سے بھرا ٹرک لے کر وہ بڑے عزم کے ساتھ سائیں سرکار کی سرکاری رہائش گاہ المعروف سی ایم ہائوس کی طرف رواں رواں تھے کہ دھر لیے گئے۔ ارادے ان کے بہت خطرناک تھے کہ کوڑے سے بھرا ٹرک سی ایم ہائوس کے باہر الٹ دیں گے۔ جب بدبو کے بھبھوکے وزیر اعلیٰ کی ناک سے 
ٹکرائیں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ کس طرح شہر میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیروں کے قریب زندگی گزارتے لوگ زہریلی گیس اپنے جسم میں اتارتے ہیں اورکس طرح سے بدبودار ماحول ان کے لئے نت نئی بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے۔ کراچی کی انتظامیہ کے پاس اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کا وقت نہیں، عالمگیر خان بس یہ چاہتے تھے کہ کراچی کی رعایا پر حکمرانی کرنے والے بادشاہوں کو اپنے فرائض کا احساس ہو جائے۔ 
سرکاری مشینری حرکت میں ضرور آئی مگر کوڑے کرکٹ اور کھلے مین ہولز کے سدباب کے لیے نہیں بلکہ عالمگیر خان کو گرفتار کرنے اور حوالات میں بند کرنے کے لیے۔ اگرچہ کراچی کا یہ شہری اپنے ''خطرناک ارادے‘‘ کی تکمیل میں کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن اپنی اس مہم کے حق میں کراچی کے عوام کو بیدار ضرور کر دیا۔ میڈیا پر بھی وہ ایک ہیرو کے طور پر نظر آئے۔ کراچی پولیس کی حراست میں وہ اپنی دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے پرعزم تھے کہ وہ ان مقاصد کے لئے مستقبل میں بھی باز نہیں آئیں گے۔ سوشل میڈیا پر وہ بے حد مقبول ہیں اور در حقیقت سوشل میڈیا ہی ہے جس کے ذریعے انہوں نے اپنی تنظیم کے مقاصد ان لوگوں تک پہنچائے جو 'عروس البلاد‘ کی بیوگی پر کڑھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے ساتویں بڑے میٹروپولیٹن کو برباد ہونے سے بچائیں۔ اپنے شہر کا درد رکھنے والے بہت سے لوگ عالمگیر خان کے ساتھ ہیں۔ ایسے ہی دوستوں نے اگلے روز ضمانت پر رہا ہونے والے عالمگیر کو پھولوں کے ہار پہنائے اور ان پر پتیاں نچھاور کیں۔ 
عالمگیر خان کا کہنا ہے کہ اگر وہ تنِ تنہا اپنی جیب سے کراچی کے 42 کھلے مین ہولز پر صرف چھ گھنٹے میں ڈھکن لگا سکتے ہیں تو حکومت سندھ کی انتظامی مشینری ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔ بیالیس کھلے مین ہولز پر ڈھکن لگانے پر عالمگیر کے صرف 13ہزار روپے خرچ ہوئے۔ اپنے شہر کے حالات بدلنے کے حوالے سے اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ وہ کراچی والوں میں بیدار کر چکے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے ٹیکنالوجی کا خوب صورت استعمال کیا ہے۔ انہوں نے فکس اٹ ایپ متعارف کروائی، لوگ جسے اپنے موبائل فون پر ڈائون لوڈ کر کے اس مہم کا عملی حصہ بن رہے ہیں۔ فکس اٹ تنظیم کا کہنا ہے کہ اب ہر ہاتھ میں موبائل ہے، اگرکراچی والوں کو یہ ایپ استعمال کرنے کا ڈھنگ آگیا تو پھر عوامی مسائل سے مجرمانہ غفلت برتنے والے حکمرانوں کو بے حسی کی نیند سے جاگنا ہی پڑے گا۔ خدا کرے کہ ان کا حسن ظن کام آ جائے وگرنہ الّا ماشاء اللہ، سندھ حکومت کا ٹریک ریکارڈ بے حسی کے معاملے میں ناقابل شکست ہے۔ 
وہ دلگداز سانحہ کس کو بھولا ہو گا کہ کراچی سول ہسپتال کے سامنے ایک مجبور اور بے کس باپ اپنی ڈیڑھ سالہ بیمار بیٹی بسمہ کو لیے کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی ادھر بھاگتا تھا کیونکہ بلاول زرداری کی آمد پر ہسپتال کے راستے بند کر دیے گئے تھے۔ باپ کی آہیں اور فریادیں سندھ حکومت کے غیر انسانی رویے میں دراڑ نہ ڈال سکیں۔ بچی کی سانسیں بند ہو رہی تھیں مگر پروٹوکول ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں نے تڑپتے ہوئے باپ کو ہسپتال کے باہر روکے رکھا اور بسمہ نے سیکڑوں لوگوں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے باپ کے ہاتھوں میں جان دے دی۔ مہذب دنیا میں ایسا اندوہناک سانحہ ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں بھی قانون مریض اور ایمبولینس کو وی آئی پی درجہ دیتا ہے۔ مگر بسمہ کے مرنے پر نثار کھوڑو نے بھی تاریخی ''سچ‘‘بولا اور کہا کہ بلاول کی زندگی کسی بھی شہری کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے۔
عالمگیر کن لوگوں میں احساس اور ذمہ داری جگانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ان لوگوں میں جو تھر کی بھوکی، قحط زدہ مریل بستی کے سرکاری دورے پر قورمے اور بریانی کی دعوتیں اڑاتے ہیں، جو قحط زدہ بستی میں امداد کے لیے خراب گندم کی بوریاں بھجواتے ہیں۔ تھر میں لوگ بھوک سے مرتے رہتے ہیں اور سندھ حکومت امدادی گندم تقسیم کرنے کا نظام بہتر نہیں کرتی۔ عالمگیر خان بھی نہ جانے بے حسی کی کس دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved