تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-02-2016

بے پَر کی اُڑانے کا فن

کوئی چیز پَر کے بغیر اُڑ سکتی ہے؟ آپ کا جواب نفی میں ہونا چاہیے مگر چلیے، مان لیتے ہیں کہ پَر نہ ہونے پر بھی کوئی چیز اُڑ سکتی ہے یا اُڑائی جا سکتی ہے مگر ذرا سوچیے کہ ہوا کے بغیر کوئی چیز کیسے اُڑ سکتی ہے؟ ہوا کے بغیر کوئی بھی چیز اُڑ سکتی ہے نہ اُڑائی جا سکتی ہے‘ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہماری دنیا میں بے پَر کی اُڑانے کا رواج عام ہے، بالخصوص محققین کے حلقے میں۔ محققین اور ماہرین رات دِن بے پَر کی اُڑانے کے خبط میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور اِس خبط پر ناز کا عالم دیکھیے تو دیکھتے رہ جائیے۔ 
اب اِسی بات کو لیجیے کہ آسٹریا میں آثار قدیمہ کے محکمے والوں کو سازبرگ شہر کے نزدیک کھدائی کے دوران ایک تختی ملی ہے تو اُنہوں نے اِسے قدیم دور کا موبائل فون قرار دے دیا ہے! جی ہاں، یہ مذاق نہیں۔ ماہرین نے مِٹّی کی تختی کو موبائل فون ہی قرار دیا ہے اور اِس حوالے سے اٹکل کے گھوڑے بھی سرپٹ دوڑائے ہیں۔ اُن کہنا ہے کہ مِٹّی کی اِس تختی پر ڈسپلے پینل بھی بنا ہوا ہے اور دوسرے بہت سے بٹنوں کے ساتھ ساتھ ٹاک بٹن بھی ہے! 
نظریۂ سازش کے بارے میں تو آپ نے سُنا ہی ہو گا۔ جو لوگ کسی بھی معاملے میں مطمئن نہیں ہوتے اور کچھ کا کچھ سمجھتے رہتے ہیں وہ ہر چیز کو کسی نہ کسی چیز سے جوڑ کر دیکھتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو ہر معاملے سے کسی نہ کسی سازش کی بُو آتی ہے۔ بیشتر محققین بھی نظریۂ سازش کے دلدادہ پائے گئے۔ وہ ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ ایسا ویسا دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں۔ اُنہیں کوئی بھی معاملہ سیدھا دکھائی نہیں دیتا۔ اِس حوالے سے وہ بھان متی کے کنبے والا فارمولا بروئے کار لانے کے شوقین ہیں‘ یعنی کہیں سے اینٹ اور کہیں سے روڑا لے کر کنبہ جوڑتے ہیں! 
سازبرگ سے ملنے والی تختی کے بارے میں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ ہزاروں سال قبل سمیریا (موجودہ شام) کے علاقے میں نیپچون پر بسنے والی مخلوق آئی ہو گی۔ یہ مخلوق وائرلیس ٹیکنالوجی سے آشنا بھی رہی ہو گی۔ اِن لوگوں نے سمیریا کے رہنے والوں کو وائرلیس ٹیکنالوجی کی مدد سے کام کرنے والا موبائل فون دینے کا سوچا ہو گا‘ مگر جب انہوں نے دیکھا ہو گا کہ زمین کے باشندے اِن آلات (gadgets) کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے اہل نہیں ہیں تو اُنہوں نے اصل آلات دینے کے بجائے مِٹّی سے بنی ہوئی ڈمیز تھما کر اپنی راہ لی ہو گی! 
دیکھا آپ نے؟ دماغ چکرا کر رہ گیا نا! محققین کا تعلق خواہ کسی خطے یا ملک سے ہو، وہ یا تو ایڈولف ہٹلر کے پروپیگنڈا ایکسپرٹ گوئبل کی سی ذہنی ساخت یا پھر ہماری پولیس جیسا مزاج رکھتے ہیں۔ یعنی یہ کہ اگر سچ بولنے کی گنجائش نظر نہ آتی ہو اور بظاہر کوئی سچ سننے کے لیے تیار بھی نہ ہو تو اِتنا جھوٹ بولو کہ سچ کہیں گم ہوکر رہ جائے اور جھوٹ ہی سچ کی جگہ لے لے! کھدائی میں اگر کوئی ایسی چیز ملے جس کا سَر سمجھ میں آرہا ہو نہ پَیر تو گھبرانے اور شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ بے فکری سے کسی بھی بات کو کسی بھی بات سے جوڑ دیجیے۔ بس اتنا خیال رہے کہ دلچسپی کا عنصر دیگر تمام امور پر غالب رہے۔ لوگوں کو بات پُرکشش محسوس ہوگی تو متاثر ہوکر سچ بھی مان لیں گے۔ یہی سبب ہے کہ ماہرین کی سمجھ میں جب کوئی بات نہیں آتی تو اُسے کے ڈانڈے تاریخ کے کسی دور سے ملا دیتے ہیں۔ 
مِٹّی کی جس تختی کو غیر ارضی مخلوق کے ہاتھوں تیار کردہ موبائل فون کی ڈمی قرار دیا جا رہا ہے وہ کیونیفارم زبان میں ہے جو سمیریا کے لوگ بولا کرتے تھے۔ ڈیڑھ صدی قبل اِس زبان میں پائی جانے والی تحریروں کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ 
فطری علوم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق قابل داد ہے کیونکہ اِس میں آئیں بائیں شائیں کی گنجائش برائے نام بھی نہیں ہوتی۔ کوئی غلطی کرے تو پکڑا جاتا ہے اور اُس سے وہی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے۔ علمی، معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے کی جانے والی تحقیق کا یہ معاملہ نہیں۔ یہاں کچھ کہا جا سکتا ہے اور غلط ثابت ہونے پر شرمندہ ہونے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ 
جہاں دو اور دو چار ہوتے ہیں ایسے ہر شعبے میں ماہرین صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے کام کرتے ہیں اور کبھی اِدھر کی ہانکتے ہیں نہ بے پَر کی اُڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسے معاملات میں اپنا ہی پھینکا ہوا ہتھیار پلٹ کر آتا ہے جیسا کہ boomerange کے معاملے میں ہوتا ہے۔ تحقیق ریاضی سے متعلق یا کیمیا کے بارے میں، محققین ٹو ڈی پوائنٹ رہتے ہوئے بات کرتے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں کہتے جسے تجربہ گاہ میں ثابت نہ کیا جا سکتا ہو۔ ایسے علوم میں کوئی نئی تھیوری پیش کرتے وقت بھی پچھلی تمام تھیوریز کو ذہن نشین رکھا جاتا ہے اور پُرانی اینٹوں ہی کی مدد سے نئی دیوار تعمیر کی جاتی ہے تاکہ کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو بھی الزام پُرانی اینٹ پر آئے، مِستری پر نہیں! بالکل سامنے کی بات ہو اور جانچی بھی جا سکتی ہو تو کون بے پَر کی اُڑائے اور ایران توران کی ہانکے! 
کس میں ہمت ہے کہ گدھے کے سَر پر سینگ ہونے کا دعویٰ کرے؟ کوئی اگر یہ دعویٰ کرے تو لوگ دنیا بھر کے گدھوں کا جائزہ لے کر اُسے غلط ثابت کر دیں گے۔ ہاں، کائنات کی عمیق وسعتوں کے بارے میں جو جی میں آئیے کہہ ڈالیے۔ کس کے پاس وقت یا وسائل ہیں کہ ''تھیوری‘‘ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے؟ کسی بھی ٹمٹماتے ستارے کے بارے میں کہہ دیجیے کہ زمین سے اِس کا فاصلہ اِتنے ہزار ارب کلومیٹر ہے، کس میں سکت ہے کہ اِتنا فاصلہ ناپے اور رائے دے۔ یہی حال آثار قدیمہ کا ہے۔ کچھ بھی کہہ گزریے، کون ہے جو آسانی سے مخالف نظریہ پیش کرے؟ 
اب یہی دیکھیے کہ نیپچون کی مخلوق نے موبائل بھی بنایا اور اہل زمین کو اُس کے ڈمی دے کر گئے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیپچون کی مخلوق اُتری تھی سمیریا میں اور اُن کی دی ہوئی ڈمی برآمد ہوئی ہے آسٹریا کی سرزمین سے! اِن محققین سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کوئی چیز جن لوگوں کو دی گئی تھی اُن کے علاقے سے کیوں برآمد نہیں ہوئی؟ کیا مِٹّی کی ڈمی بھی کسی خاص ٹیکنالوجی سے بنائی گئی تھی کہ دی جائے کہیں اور برآمد ہو کہیں اور سے؟ پھر تو واقعی ''موبائل‘‘ ڈمی ہوئی! 
محکمۂ آثار قدیمہ والوں کا حقیقی امتحان پاکستان جیسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر چیز دکھائی کچھ دیتی ہے اور ہوتی کچھ ہے۔ ہمارے ہاں تیس پینتیس سال قبل جو فلمیں بنائی جاتی تھیں اُن کا فیتہ (ریل) سینما میں چار دن چلائے جانے پر ایسا ہو جاتا تھا جیسے فلم چالیس پچاس سال پہلے بنائی گئی ہو! آج بھی بیشتر پُرانی پاکستانی فلمیں دیکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے بیسویں صدی کے پہلے یا دوسرے عشرے میں بنائی جانے والی کوئی فلم دیکھ رہے ہیں! اور ایک فلم پر کیا موقوف ہے، یہاں تو مُردے بھی دھوکا دیتے ہیں۔ دس بارہ برس قبل کراچی میں ایک حُنوط شدہ لاش (ممی) ضبط کی گئی تھی۔ یہ ممی کراچی کے قومی عجائب گھر میں رکھی گئی۔ بہت سے ماہرین آئے اور اٹکل کے گھوڑے خوب دوڑائے۔ آثار قدیمہ کے ایک معروف ماہر کی پوری ساکھ اِس ممی نے خاک میں ملا دی۔ اُنہوں نے اِسے ایران کی شہزادی کی ممی قرار دیا جس کا انتقال سیکڑوں سال قبل ہوا تھا۔ محترم نے اُس کے حسب نسب کا بھی حساب لگا لیا۔ بس پھر کیا تھا، لوگوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے۔ بُرا ہو جدید ٹیکنالوجی کا جس نے چند ہی روز میں یہ حقیقت طشت از بام کر دی کہ یہ لاش محض چند سال حُنوط کی گئی ہے اور اسمگلرز اِس جعل سازی کے ذریعے کروڑوں روپے کمانا چاہتے تھے! 
ہمارے ہاں بھی آثار قدیمہ اور اُن کے ماہرین پائے جاتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ اب اِس اہتمام کی ضرورت کیا ہے۔ اب تو خیر پورا ملک ہی کُھدے ہوئے آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہا ہے! جب سبھی از خود نوٹس کے تحت طشت از بام ہے تو کیا ہے جسے دریافت کرکے دُنیا کے سامنے لایا جائے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved