ذہن کے اُفق پر تب درویش کا جملہ طلوع ہوا۔ عقل جہاں رکتی ہے، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔ ایک دن یہ بھی کہا تھا: عقیدت سے بچو، عقیدت اور جہالت توام ہیں۔
موضوعات بہت تھے اور ستاروں کی طرح ذہن میں چمکے لیکن پھر عباد الرحمن تشریف لائے، عدنان عادل اور عثمان خان۔ کاشتکاروں کے مسائل پر بات کرنا تھی۔ عباد الرحمن کے مطابق گائوں والے گائے بھینسوں کے لیے درآمد کیے گئے خشک دودھ میں کھانے کا تیل ملا کر دودھ بناتے ہیں۔ دوائیں چھڑک کر ایک پھول کو تین دن میں مکمل کھیرا بنا دیتے ہیں۔ جواب میں شہر والے انہیں جو بناسپتی گھی بھیج رہے ہیں، انسان تو کیا جانور بھی ہضم نہیں کر سکتے۔ اُن کا ایک جملہ خنجر کی طرح دِل پر لگا: ''ایک دوسرے کے ساتھ وہ زہر کا تبادلہ فرماتے ہیں‘‘۔ دیہی دیار کی معاشی اور معاشرتی زندگی پر بات شروع کی تو دل بجھ گیا ؎
مسائل اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
گزشتہ ہفتے ایک صاحب نے گنے اور چینی کی قیمت کے بارے میں کچھ اعداد و شمار دیئے۔ ان پر بھروسہ کر کے بیان کر دیئے۔ شرمندگی اٹھانا پڑی۔ دعویٰ کیا کہ تھوک میں سال گزشتہ چینی کے نرخ 42 روپے فی کلو تھے امسال 60 روپے ہو گئے۔ گنے کی قیمت مگر وہی ہے 180 روپے من۔ معلوم ہوا کہ پچھلے برس 52روپے فی کلو تھی، اب 57ہے۔
حکمران تو خیر، اخلاقی اعتبار سے پورے معاشرے کا حال پتلا ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔ اقوام جب اس حالت سے دوچار ہوتی ہیں تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا کرتا ہے۔ آغاز ہم پر ہو چکا، ہمیں احساس نہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا: اللہ کے نشتر ہیں، تیمور ہوں یا چنگیز، ہٹلر، مسولینی، سٹالن اور مائوزے تنگ، دس کروڑ آدمی عالمگیر جنگ میں مارے گئے۔ اتنا ہی تباہ کن واقعہ یہ ہوا کہ اخلاقی اقدار سے حکمران اور غالب مغرب کی اشرافیہ مکمل طور پہ دستبردار ہوگئی۔ مفکرین کرام نے وجودیت ایسے لغو فلسفے تراشے۔ زندگی فقط اقتصاد اور ذاتی تحفظ تک محدود ہو گئی۔ 5کروڑ ریڈ انڈین قتل ہوئے تو آج تک اس کا نوحہ لکھا جا رہا ہے۔ مائوزے تنگ کے ایک کروڑ اور سٹالن کے 5 کروڑ مقتولین کا نوحہ کسی نے کبھی نہ لکھا۔
یہ دانشور کیا لوگ ہیں؟ جنرل محمد ضیاء الحق کو روتے رہتے ہیں۔ یہ کہ پاکستان میں ان کی وجہ سے بنیاد پرستی نے فروغ پایا۔ سوویت یونین کے قاتلوں کا ذکر نہیں کرتے، تیرہ لاکھ افغانیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔ تیرہ لاکھ اپاہج، ہزاروں برس سے آباد چلے گائوں ادھیڑ ڈالے گئے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کوہجرت کرنا پڑی۔ ان کے لیے ایک آنسو بھی نہیں۔ کوئی عمق نہیں، غور و فکر ہی نہیں،جھوٹ او رسچ کی تمیز ہی نہیں ؎
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے حقوق نسواں بل پرسوچتا ہوں۔ ان لوگوں کو سوجھی کیا ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے تمام ارکان کو زن مرید کہا۔ اس پر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو میاں شہباز شریف کو گھر والوں کا بھی خادم کہا۔ بڑے آدمی ہیں؛ چنانچہ وہ اصطلاح ان کے لیے نہ برتی۔ دوسری طرف وہ ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی عورت کو، مغربی خواتین کی سی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ سبحان اللہ، جو کچھ بچ رہا ہے، وہ بھی لٹا دینا چاہیے ۔ خاندانی نظام بھی برباد کر دیا جائے ؎
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
جہالت، خود فروشی،ناشکیبائی، ہوس ناکی
خادمِ پنجاب اس بل کا دفاع کرنے اب خود میدان میں اترے ہیں۔ وہ ہار جائیں گے۔ قانون مسئلہ نہیں، اس کا نفاذ ہے، معاشرے کی تعلیم اور تربیت ہے۔ شعبدہ بازی ہے، یہ دکھاوا ہے، خدا کی قسم یہ ریا کاری ہے۔ بے شک عورت مظلوم ہے، بچوں کو حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ہر کمزور مظلوم ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ طاقتوروں کا بس چلے تو ظلم ڈھاتے ہیں۔ یہ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ کمزور کا ہاتھ تھامے، اس کی دستگیری کرے۔ حکومت ان کی ہے، جو سزا کے طور پر مسلط ہیں۔ اپنے مفاد اور اپنے اقتدار سے انہیں غرض ہے، پا مال اور برباد لوگوں کی انہیں کیا پروا۔ قائد اعظم اور اقبالؔ کی خط و کتابت پڑھیئے۔ عمر بھرامت کی علمی و اخلاقی بیداری کے لیے تڑپنے والے اقبالؔ نے لکھا: مسلم برصغیر اپنی قیادت اس جماعت کو سونپے گا، جو اس کی روٹی کا مسئلہ حل کرے گی۔ قائد اعظم نے کہا تھا: سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو افتادگان خاک کا خون چوسنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آج ہمارے لیڈر میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری ہیں۔ انا للہ و انّا الیہ راجعون۔
آٹھویں عشرے کی ابتدا تھی۔ لہک لہک حبیب جالبؔ گایا کرتے۔ حکمران ہو گئے کمینے لوگ/خاک میں مل گئے نگینے لوگ۔ لاہور پریس کلب کے عقبی برآمدے میں ظہیر کاشمیری گاہے اپنے اشعار سناتے۔ ایشیا کو ابھی معلوم نہیں ہے شاید /بھوک پھیلے تو غلامی کی وبا آتی ہے۔ خدائے حییّ و قیوم و عادل سے شاعر مشرق نے سوال کیا تھا ؎
لیکن یہ بتا تیری اجازت سے فرشتے
کرتے ہیں عطا مردِ فرو مایہ کو میری؟
جی ہاں! اقوام جب لمبی تان کر سو جاتی ہیں۔ خود کو اپنے حکمرانوں کے حوالے کر دیتی ہیں تو زر و جواہر کے انبار پر رفتہ رفتہ وہ حیوانی خصوصیات کے حامل ہو جاتے ہیں۔ ملاّ اور مصاحب، ان کے اردگرد۔ خوشامدی تاجر، صنعت کار اور دانشور۔ خوشہ چیں حصار بنا لیتے ہیں۔ پستی کی طرف معاشرہ لڑھکنے لگتا ہے۔ اس کمزور ملک میں، حکومت نے جہاں اپنے بنیادی فرائض بھی بھلا دیئے، ایک اور المیہ بھی رونما ہوا۔ مذہبی طبقہ خدا اور رسولﷺ کے نام پر لقمۂ تر کا اہتمام کرتا ہے۔ این جی اوز کے گِدھ ، خبر فروش اور دانش فروش، استعمار کے کارندے بن گئے۔ دشمن ملک تک سے بھیک وصول کرتے ہیں۔این جی اوز میں سب کے سب نوسرباز نہیں۔ کہیں کہیں کوئی معقول بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ روپیہ کہاں سے آتا ہے؟ اصول یہ ہے کہ جو جس کا کھائے گا، اسی کاگائے گا۔ خدا کی پناہ، کل جو امریکی سامراج کے سب سے بڑے نکتہ چیں تھے، آج ان کے دسترخوان پہ شاد ہیں ع
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان توگیا
کبھی کسی معاشرے کے ذہین و فصیح لوگ اس طرح نہ بکے ہوں گے۔ اخبار نویس کا این جی او سے کیا واسطہ؟ سرکاری افسر کی بیگم کا کیا تعلق؟ سماجی کارکن کو کیا غرض، کس کا ایجنڈا ہے، جسے وہ پرچم بنائے پھرتے ہیں؟ شرم انہیں آتی نہیں۔ جوشؔ نے کہا تھا اور عملاً بھی یہی کیا تھا ؎
کوئی مشتری ہو تو آواز دے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
اب تو ہزاروں اور لاکھوں ہیں۔ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر وہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی ہیں جنہوں نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو لبرل ازم کا آموختہ یاد کرایا۔وطن کی محبت طعنہ ہوگئی۔ خدا کی پناہ، اللہ کا نام لینے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پاکستان سے اظہار وفا کا مطلب جہالت ہے۔ قائداعظم کو مانا جاسکتا ہے، مگر قرار دیجیے کہ وہ سیکولر تھے۔ ارے بھائی، عمر بھر یہ لفظ انہوں نے کبھی استعمال نہ کیا۔ ایک سو سے زیادہ تقاریر میں قرآن کو پاکستان کا دستور کہا۔
کل شب ایک ناراض آدمی نے کہا: کیا وہ قرآن پڑھتے تھے؟ عرض کیا: جی ہاں، انگریزی زبان میں۔ بولے: میں نہیں مانتا۔ گزارش کی، ایک مسلمان کی تمام اخلاقی صفات ان کی ذات میں جمع ہوگئی تھیں۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو آپ مذہب کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ مذہبی طبقے کا تو دین میں وجود ہی نہیںہوتا۔ اہل علم بیسویں صدی میں اقبالؔ، جناح اور خواجہ مہر علی شاہ کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ ترتیب کے ساتھ سیاست، علم اور تزکیہ نفس کے میدانوں میں۔
عدنان عادل نے کہا، کیوں اپنا دل جلاتے ہو۔ اس قوم کو جہالت نے مار ڈالا۔ اقبالؔ ایک بار پھر یاد آئے ؎
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میںکھو گئی
ذہن کے اُفق پر تب درویش کا جملہ طلوع ہوا۔ عقل جہاں رکتی ہے، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔ ایک دن یہ بھی کہا تھا: عقیدت سے بچو، عقیدت اور جہالت توام ہیں۔