تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-02-2016

غداری کیس کا فائنل رائونڈ

نواز شریف کے دریافت کردہ سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کیس کا فائنل رائونڈ شروع ہو گیا۔یوں بھی کہا جا سکتا ہے، اب نواز شریف جنرل مشرف سے آخری بدلہ لینے کے قریب آ پہنچے۔
بدلے کی کہانی کا میں چشم دید گواہ ہوں۔گورنر ہاؤس لاہور کے بڑے لان سے 2ہیلی کاپٹروں نے یکے بعددیگرے اڑان بھری۔میں اس ہیلی کاپٹر میں سوار تھا جس میں صدر آصف زرداری بیٹھے تھے۔چند منٹ لاہور پر پرواز کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر جاتی امراء میںداخل ہوئے۔لینڈنگ پیڈ میاں شریف صاحب کی آخری آرام گاہ سے کچھ دور تھا۔ہم پہلے مرحوم میاں صاحب کی قبر پر گئے ،فاتحہ خوانی کی۔پھر رائے ونڈپیلس کے دروازے پر فوٹو سیشن ہوا۔ڈرائنگ روم میں میٹنگ کے بعد کھانے کی لمبی میز پر پہنچے۔جہاں بہترین اور اَن گنت کھانے سجائے گئے تھے۔نواز شریف صاحب کے سامنے والی نشست پر صدرِ پاکستان آصف زرداری کو بٹھایا گیا۔میں ان کے دائیں طرف والی کرسی پر بیٹھا۔کھانا اور ہلکی پھلکی نوک جھونک ساتھ ساتھ چلتے رہے۔آخر کار نواز شریف صاحب اپنی دیرینہ دلی خواہش زبان پر لے آئے۔ صدر زرداری سے پنجابی میں کہنے لگے ''آپ ہمت کریں ہم آپ کے پیچھے ہیں‘‘۔ساتھ ہی شہید بھٹو کے عدالتی قتل کا حوالہ دیا۔اپنی خود ساختہ جلاوطنی اورخاندان کے ساتھ مشرف کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا صدر صاحب آپ مشرف کو پکڑ لیں۔''جب تک مارشل لاء لگانے والا جرنیل' ٹانگا ‘نہ جائے کچھ بھی درست نہیں ہو گا‘‘۔
اگلے دن سپریم کورٹ میں جج حضرات کی معطلی کے الزام کی بنیاد پر بنائے گئے غداری کیس کی مختصر سماعت ہوئی۔جس میں پہلے سے سماعت شدہ مقد مے کا فیصلہ صادر ہوا۔اس فیصلے کے کئی پہلو انتہائی اہم ہیں۔
پہلا ،یہ کہ سپریم کورٹ نے شہناز گل کیس کی روشنی میں قرار دیا ٹرائل کورٹ تفتیش نہیںکر سکتی۔نہ ہی ٹرائل عدالت کسی کو ملزم بنانے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔فیصلے کا یہ حصہ معروف شاعر مصطفیٰ زیدی کی موت کے وقوعہ کے وقت سے طے شدہ ہے۔ فیصلے کا دوسرا پہلو یہ سامنے آیا کہ اب وزیراعظم کے پسندیدہ آرمی چیف کا اکیلے ٹرائل ہو گا۔وفاقی حکومت نے پہلے دن سے یہی مؤقف اپنارکھا ہے، مشرف اکیلے پر مارشل لاء کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اسے 3سال دینے والے چیف جسٹس اور جج فارغ۔اس کے لیے باوردی الیکشن لڑ کر قصرِ صدارت کی راہ ہموار کرنے والے چیف جسٹس اور جج بھی بے گناہ۔مشرف دور کے وزیراعظم ،وزراء اعلیٰ،گورنر،وزیر بلکہ سارے ہی فارغ ۔ یوں دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک پر قبضہ کرنے کا ایسا انوکھامقدمہ چل رہا ہے،جس میںساڑھے9سال قبضے کا ذمہ دار تنِ تنہا اکیلا ملزم کٹہرے میں کھڑا ہے۔
غداری کیس کا اگلا پہلو بھی اہم ہے۔انتہائی موثق ذریعے کے مطابق وزیراعظم کی کور ٹیم کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ مشرف کیس کے فیصلے کو اب کسی قیمت پر بھی لیٹ نہ ہونے دیا جائے۔ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا غداری کیس کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ 60دنوں کے اندر کروایا جائے۔اعلیٰ ترین ہدایت نامہ میں ٹیم کو بتایا گیا اس واقعے کی شہادت وفاقی حکومت نے پہلے سے ہی قلم بند کروارکھی ہے۔اب زور دیا جائے تاکہ ٹرائل کورٹ فوراََ سابق آرمی چیف کا بطور ملزم بیان لکھے ۔ اسے شہادت صفائی پیش کرنے کا موقع دے کر مقدمے کا فیصلہ کروایا جائے۔ساتھ ساتھ اعلیٰ سطحی میٹنگ میں دیگر'' متعلقہ‘‘ اقدامات بھی طے ہوئے۔ تازہ ترین سناریو میں نون لیگ کی حکومت ملکی تاریخ میں یعنی غداری کیس(High Treason) کا فیصلہ کرانے کے لئے ساری تیاری مکمل کر چکی ۔
مقدمے کے 2 مزید اہم پہلو بھی قابلِ توجہ ہیں۔پہلاپہلو آئینی ہے۔دوسرا غداری کیس کے فائنل راونڈ کا منطقی انجام۔
آئیے پہلے اس مقدمے کا آئینی پہلو دیکھ لیتے ہیں۔1973کے آئین میں ماورائے آئین اقدامات کا راستہ روکنے کے لئے دو خصوصی آرٹیکل تخلیق کیے گئے۔ دونوں آرٹیکل ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے آزمائے جائیں تو آئین کی بالادستی طے نہیںہوسکتی ۔ذاتی انتقام دوسری بات ہے۔
ان میں سے ایک آرٹیکل نمبر 6ہے۔جس کے ذریعے غداری کی سزا اور مقدمہ چلانے کا دروازہ کھولا گیا۔ دوسرے ،1973ء کے آئین کے آرٹیکل نمبر12 میںجرم کی آئینی حدود طے کی گئیں۔ساتھ ہی (Doctrine of Limitation) جرم اور مقدمے کی مدت میعاد کا تعین ہوا۔جس کے لیئے ذیلی آرٹیکل 12(2) بنائی گئی۔
(2)Nothing n clause (1) or in Article 270 shall apply to any law making acts of abrogation or subversion of a Constitution in force in pakistan at any time since the twenty - third day of march,one thousand nine hundred and fifty - six ,an offence.
دراصل آئین کے آرٹیکل 12میں مؤثر بہ ماضی سزا دینا منع ہے۔لیکن اس آئین کو معطل کرنے یا اسے توڑنے کے جرم میں 23مارچ 1956ء سے ہر ملزم کا ٹرائل ہو سکتا ہے اور اسے سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
اس تناظر میں غداری مقدمے کے سیاسی پہلو کی طرف چلتے ہیں۔جو قومی منظر نامے میں بھونچال کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ جب آج کا وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں پہنچے گا۔تب تک غداری کیس کی تفتیشی ٹیم مقدمے کو تیز ترین ٹریک پر ڈالنے کی حکمت عملی طے کرچکی ہو گی۔وہی حکمت عملی جس کا ایجنڈا نمبر ایک اگلے 60دن میں غداری کیس کا فائنل رائونڈ ختم کرانا ہے۔
آئیے فرض کریں، مقدمے کا ٹرائل ختم ہوا۔فیصلہ سنادیا گیا۔ آرٹیکل 6کے اکیلے ملزم کو سزا ہو گئی۔اس جرم کی عمومی سزا (Normal Panelty)سزائے موت ہے۔پھراہم ترین سوال یہ ہے سزا کے بعد کیا ہو گا۔۔۔؟کون سا فریق کیا کرے گا۔۔۔؟اس پر میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں۔ لیکن سزا کے بعد ملزم کو قیدی نمبر الاٹ ہو گا۔قیدیوں والے کپڑے پہنائے جائیں گے۔سزا بھگتنے کے لئے ملزم کو جیل منتقل کیا جائے گا۔اور اس طرح مسلح افواج کی سب سے مقبول اور محب چھاپہ مار فورس سے کیر ئیر شروع کرنے والا''کمانڈو‘‘چیف آف آرمی سٹاف کی پینشن لے کر ریٹائر ہونے کے بعد غدار کہلائے گا۔اگر ایسا ہی ہوا تو پھر اس کے بعد راوی چین کی بانسری بجانا شروع ہو جائے گا؟اور وہ بھونچال جسے کبھی امریکہ کی سرپرستی اور کبھی مودی کی دوستی ٹالتی آئی ہے۔ اپنے لاوے، دھوئیں سمیت خاموشی سے دَبک جائے گا؟ان باتوں کا فیصلہ ہونے میں اب سال نہیں زیادہ سے زیادہ 9,8ہفتے لگیں گے۔
آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کے جرم کا پہلا مجرم مولوی تمیزالدین کیس نے بچایا۔دوسرا اور تیسرا مجرم نظریہ ء ضرورت کی چھتری تلے آ گئے۔مشرف کے کچھ ہمراہی ملزم موجودہ حکومت کے پاس پناہ گزین ہیں ۔ کچھ کو ان کے دوست نکال لے گئے۔ غداری کیس کے آخری ملزم کی تقدیر کا آخری فیصلہ ،مقدمے کے فائنل رائونڈ میں ہونے جا رہا ہے۔
انتظار فرمائیے...فیصلہ قلم سے ہو گا یا غلیل سے...؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved