تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     29-02-2016

شہرزاد

ویانا، سڈنی، میونخ اور ٹورنٹو کے رہنے والو! خدا تمہارے شہروں کو سلامت رکھے، کبھی میں بھی دنیا کے بہترین شہروں میں سرِ فہرست تھا۔
چوبیس ہزار محلے تھے۔ دس ہزار حمام تھے،تاریخ دان گبن کا کہنا ہے کہ صرف سندیافتہ طبیبوں ہی کے کلینک آٹھ سو تھے۔
ویانا، سڈنی، میونخ اور زیورچ کے رہنے والو! آج تمہارے شہر دنیا کے بہترین، محفوظ ترین اور پرآسائش شہروں میں سرِفہرست شمار کیے گئے ہیں۔ خدا تمہیں یہ حفاظت، یہ آسائش اور یہ امتیاز نصیب کرے۔ کبھی یہ مقام مجھے ملا کرتا تھا۔ میری شہر پناہ کی بلندی تو بیس گز تھی ہی، چوڑائی بھی اتنی ہی تھی۔ شہر پناہ میں دروازے تھے ہر دروازے کو کھولنے اور بند کرنے کے لیے پچیس جوانمردوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ بیس نہریں تھیں۔ پانی کی نالیاں زمین دوز تھیں۔ امن و امان کا یہ عالم تھا کہ پچاس ہزار ماہرین تعمیر میں اکثریت عیسائیوں کی تھی۔ مسیحی محلے گرجوں سے بھرے تھے۔ کوئی میلی آنکھ سے ان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایتوار کے دن مسلمان ان گرجوں کی سیر کو نکل آتے تھے۔
باب خراسان کے سامنے فوجیوں کی پریڈ کا میدان تھا۔ باب الشام کے سامنے فوجی بیرکیں(حربیہ) تھیں۔ ''متنبی سٹریٹ‘‘ کتب فروشوں کی دکانوں سے لبریز تھی۔ کاغذ فروخت کرنے والے(وراق) لاتعداد تھے۔ جلد سازوں کا شمار نہ تھا۔
29 جون 762ء کے دن سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ کیا بخت تھا میرا کہ اینٹوں کا شعبہ امام ابو حنیفہ کے سپرد ہوا۔ وہی امام ابوحنیفہ جو امام جعفر صادق کے شاگرد تھے۔ امام دریا سے جائے تعمیر تک نہر لائے جو پیاس بجھاتی تھی اور اینٹیں بنانے(خِشت سازی) کے کام بھی آتی تھی۔ چاروں رُخ اینٹ کے اٹھارہ اٹھارہ انچ تھے۔ روپے کے حسنِ انتظام کا اور حساب کتاب کے سسٹم کا یہ حال تھا کہ ایک افسر کے ذمہ پندرہ درہم نکلے تو قید کر دیا گیا۔ پچاس دکانیں پھول بیچنے والوں کی تھیں۔ ریشم کا بازار الگ تھا۔ سنار ایرانی تھے۔ بلور کے برتنوں پر نقش و نگار کاڑھتے تھے اور حیران کر دیتے تھے۔ اڑتے ہوئے پرندوں کی تصویریں پیالوں پر بناتے تھے اور ان کے تعاقب میں بازیوں دکھاتے تھے جیسے آج کے زمانے میں فلم چل رہی ہو! گھروں کے دروازے آبنوس کے تھے۔ نقاشی ان پر تانبے کی پتریوں سے تھی۔ ہر مکان کی چھت پر قُبّہ بنا ہوتا تھا۔ اندر حوض تھے۔ گرمیوں کے لیے تہہ خانے تھے۔ دس لاکھ کی مردم شماری تھی جو اس زمانے میں بے مثال تھی۔ امام احمد بن حنبلؒ کے جنازے میں لوگوں کو گنا گیا۔ آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار خواتین شامل تھیں۔
بازار اجناس سے بھرے رہتے تھے۔ گاہکوں کے ہجوم تھے۔ پھل اور ترکاریاں ارزاں تھیں۔ دجلہ نے شہر کو بہشت بنایا ہوا تھا۔ کشتیوں کے ذریعے مال آتا تھا۔ رات کے وقت ہزاروں بجرے سطحِ آب پر رواں رہتے تھے اور بہت سے بجرے شیر، عقاب، گھوڑے اور ہاتھی کی شکل کے تھے۔
میں، بغداد، ابونواس کے حوالے سے اسی طرح مشہور تھا جیسے شاعروں اور ادیبوں کے اعتبار سے لندن اور پیرس چمکتے رہے۔ برمکیوں نے مجھے چار چاند لگائے۔ ہارون الرشید مجھ پر مرتا تھا۔ میں الف لیلہ والا بغداد ہر شخص کا خواب تھا۔ شہر زاد مجھ ہی میں کہانی سناتی رہی۔الٰہ دین میری وجہ سے مشہور ہوا۔ علی بابا کو میں نے پالا۔ اس کا بھائی قاسم میرے کوچوں میں اٹھلاتا پھرتا تھا۔ سندباد جہازی بصرہ کا تھا لیکن میرا اسیر ہو کر رہ گیا۔ سات سمندری سفر اس نے داستان کیے اور اس داستان کو زندگی میں نے بخشی!
ویانا، ٹورنٹو، سڈنی اور میونح کے رہنے والو! دو دن پہلے عالمی سروے نے تمہارے شہروں کو دنیا کے بہترین شہر قرار دیا۔ مبارک ہو! خدا یہ شہرت، یہ امتیاز برقرار رکھے۔ ہرے بھرے رہو! مجھے بدترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ دو سو تیس شہروں کی طویل فہرست میں میرا نمبر آخری ہے۔ یہ وقت بھی آنا تھا کہ چاڈ، کانگو اور روانڈا کے کھنڈر نما شہر مجھ سے بہتر ہیں۔ مجھ پر توآج ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ کوئی ہے جو بال کھول کر بین کرے؟ کمر کپڑے سے باندھ کر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور چہرے پر دوہتھڑ مارے؟
ماتم اجڑ جانے کا نہیں، ماتم اس کا ہے کہ میری بربادی میں کسی بش سینئر یا بش جونیئر کا، کسی اوباما کا، کسی خروشچیف کا کسی پیوٹن کا نہیں، اپنوں کا ہاتھ ہے۔ کسی بش یا کسی اوباما کی کیا مجال تھی کہ مجھ تک پہنچ پاتا۔ وہ تو میرے اپنوں کے کاندھوں پر چڑھ کر مجھ تک پہنچے۔ اُنہیں مسلمانوں نے اپنے سمندر، مسلمانوں نے 
اپنے اڈے اور مسلمانوں نے اپنی چھائونیاں پیش کیں تا کہ وہ مجھ پر کارپٹ بمباری کریں، میرے گلی کوچوں کو خون سے بھر دیں، میرے مکانوں کو منہدم کر دیں اور میرے مکینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ اور یہی ہوا! میرے ایک ایک انچ پر بمباری کی گئی۔ میری گلیاں لہو سے بھر گئیں۔ میری دیواریں گر گئیں۔ میرے دروازے اکھڑ گئے۔ میرے مَردوں کو مار دیا گیا۔ میرے بوڑھے صدمے سے ہلاک ہو گئے۔ میرے بچوں کو سنگینوں میں پرویا گیا اور میری عورتیں، آہ! میری عورتیں، ویانا، میونخ اور ٹورنٹو کے رہنے والو! نہ پوچھو میری عورتوں کا! جن عورتوں کے چہرے حیا کی سرخی سے دمکتے تھے اور جن کے بال بھی ڈھکے ہوئے تھے، ان عورتوں کو...!! آہ مجھ میں تاب نہیں کے اُن کا انجام بتائوں!!
میرے پڑوس میں یہ مسلمان ملک ہی تھا جس نے العدید ایئر بیس پلیٹ میں رکھ کر اُس دشمن کو پیش کی جس نے صلیبی جنگ کے بدلے کا ذکر کیا تھا! اس ملک کے والی نے 1999ء میں امریکہ سے ''فرمائش‘‘ کی کہ العدید میں دس ہزار امریکی فوجی مستقل ٹھکانہ بنائیں۔ امریکی ایئرفورس سنٹرل کمانڈ کا یہ ہیڈ کوارٹر تھا۔ نوے کی دہائی میں جب بڑے بُش نے مجھے نشانہ بنایا تھا اس ملک کے ساتھ اس نے باقاعدہ معاہدہ کیا جس کی توسیع ہوتی رہی نو سال تک برطانوی ایئرفورس اسے استعمال کرتی رہی یہی ملک تھا جس کے صحرا میں امریکہ نے خفیہ اسلحہ خانہ قائم کیا جسے فالکن 78کا نام دیا گیا۔
اور وہ مسلمان ملک بھی میرے پڑوس ہی میں ہے جس کی ایئرفورس کے افسر کو امریکی جرنیل نے پستول کا تحفہ دیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس افسر نے پہلی عراق جنگ میں کمال کی ''کارکردگی‘‘ دکھائی تھی! امریکی ایئرفورس کا وقائع نگار لکھتا ہے کہ امریکی ایئرفورس نے بغداد پر بمباری کرنے کے لیے اِسی ملک کے اڈے استعمال کیے۔ امریکی بحریہ نے اسی ملک کی بندر گاہیں استعمال کیں۔ بمبار طیارے جن بحری جہازوں کے عرشوں سے اُڑتے تھے۔ اُن قاتل بحری جہازوں کو اِسی ملک نے محبت بھری آغوش میں لیا ہوا تھا۔ 1991ء کے وسط تک یہ ملک جنگ کے لیے چھ ارب ڈالر اتحادیوں کو دے چکا تھا! ان میں سے 3.8 ارب ڈالر امریکہ کو اور پچاس کروڑ ڈالر برطانیہ کو زرِ تلافی کے طور پر ادا کیے گئے۔
جب بغداد کی گلیوں پر آگ اور لوہا بارش کی طرح برس رہا تھا، اردگرد کے مسلمان ملکوں میں اس خوشی میں شہنائیاں بج رہی تھیں کہ تیل کی برآمدات بڑھی ہیں۔
ایک اور پڑوسی ملک سے امریکی جہاز اُڑ کر ایک ہزار حملے روزانہ کرتے رہے۔ جنرل کولن پاول کا منصوبہ تھا کہ دجلہ اور فرات کے پانیوں پر بنے ہوئے ڈیم تباہ کر دیئے جائیں تا کہ بغداد ڈوب جائے۔ اتفاق ایسا تھا کہ یہ منصوبہ عملی جامہ نہ پہن سکا۔ پھر جب عراق کو شکست ہوئی اور بغداد پر قبضہ کرنے والی سفید فام فوجوں نے بربریت اور وحشت کی انتہا کر دی تو ہمسایہ ملکوں میں فتح کے جشن برپا کیے جا رہے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ میں نے ابوغریب جیل کی درندہ صفت سفاکیاں دیکھیں!
میونخ، ویانا اور سڈنی کے رہنے والوں! خدا تمہارے شہروں کو شاداب رکھے، کبھی اس فہرست میں میرا نام بھی سب سے اُوپر تھا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved