تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     29-02-2016

حکیم لقمان

قرآن مجید میں انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ گزشتہ اُمّتوں کے جن افراد کا اعزاز واکرام کے ساتھ ذکر کیا ہے ،اُن میں حکیم لقمان کا نام نمایاں ہے۔قرآن کریم کی ایک سورۂ مبارکہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے ،جو ترتیبِ مصحف کے اعتبار سے اکتیسویں سورت ہے ۔اس میں چار رکوع اور چونتیس آیات ہیں ،آیت نمبر12تا 19حضرت لقمان کے بارے میں ہیں۔ان کا نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ہے ،انہیں حضرت ایوب علیہ السلام کا بھانجا یا خالہ زاد بھی بتایا گیا ہے ۔ان کے پیشے کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں ،بعض نے خیّاط (Tailor)اوربعض نے نجّار (Carpenter)بتایا ہے۔کہاجاتا ہے کہ انہوں نے ایک ہزار سال عمر پائی۔یہ مصر کے علاقے ''نُوبہ‘‘کے رہنے والے تھے ،جو سوڈان سے ملتا ہے ۔یہ سیاہ فام تھے ،ان کے ہونٹ بڑے اورپائوں پھٹے ہوئے تھے ۔بعض روایات کی رُو سے انہیں قدرت کی طرف سے نبوت اور حکمت میں سے کسی ایک کے چنائو کا اختیار دیا گیا، انہوں نے حکمت کو اختیار کیا اور حضرت جبریل امین نے اللہ تعالیٰ کے اِذن سے ان پر حکمت القافرمائی۔اُن سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو حکمت کیونکر عطا ہوئی،انہوں نے جواب دیا : اللہ کی تقدیر، میری دیانت وامانت ‘صداقت اور لغو باتوں سے اجتناب کی برکت سے مجھے حکمت عطا ہوئی۔اگرچہ حکیم لقمان کی نبوت کا قول بھی کیا گیا ہے ، لیکن جمہورمفسرین کے نزدیک وہ ایک مرد ِدانا تھے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی، (لقمان:12)‘‘۔اور فرمایا: ''وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت عطا کی گئی توبے شک اُسے خیرِ کثیر سے نوازا گیا، (بقرہ:269)‘‘۔بعض روایات میں ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے نبوت کو کیوں نہیں اختیار کیا؟،انہوں نے کہا:اگر اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے عطا کردیتا ،تو اُس سے عہدہ برا ہونے کی توفیق بھی مرحمت فرماتا اور اگر میری خواہش پر عطا ہوتی ،تو خدشہ تھا کہ میں ابتلامیں نہ پڑ جائوں،اس لیے میں نے حکمت کو اختیار کیا ،کیونکہ نبوت بہت عظیم منصب ہے۔ روایت میں ہے کہ کسی شخص نے ان کی صورت کو حیرت سے دیکھا تو انہوں نے اس سے کہا:اگرچہ آپ کو میرے ہونٹ موٹے نظر آرہے ہیں،لیکن ان کے درمیان سے جو کلام نکلتا ہے ،وہ بڑا لطیف اور حکمت سے لبریز ہوتا ہے ،اگرچہ میری صورت آپ کو کالی نظر آتی ہے ،لیکن میرا دل حکمت کے انوارسے لبریز ہے ۔اسی طرح ایک شخص نے اُن کی صورت پر اعتراض کیا ،تو انہوں نے کہا: تمہیں نقش پر اعتراض ہے یا نقّاش پر،صورت پر اعتراض ہے یا مصوِّر پر ؟،یعنی فضیلت کا مدار انسان کے غیر اختیاری اور تکوینی اُمور پر نہیں ہوتااور صورت ورنگت تکوینی امر ہے ،اس میں انسان کے اپنے اختیار یا ترجیح کا کوئی دخل نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے جس کو جیسے چاہا بنادیا،البتہ فضیلت کا مدار انسان کی سیرت وکردار پر ہے ،جس کا تعلق انسان کے اپنے کسب واختیار سے ہے۔ 
ہمارے ہاں اردو میں حکمت کا لفظ عام طور پر طِب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،لیکن معنوی اعتبار سے یہ نہایت جامع کلمہ ہے اور علم وعمل وقول وفعل کے تمام محاسن پر محیط ہے،آج کل ایسے مردِ دانا کو مفکر،دانش وراور صاحبِ بصیرت کہاجاتا ہے، جو اشیاء کی حقیقت اور اُن کے اسرار کو جانتا ہو۔مفسرین نے بیان کیا کہ حکمت عقل وفہم اور ذہانت کا نام ہے ،یہ دین کی حکمتوں اور اسرار ورموز کو جاننے اورراستیٔ گفتار کا نام ہے۔یعنی حکیم وہ ہے جو قلبِ صفا ،ذہنِ رسا ،قولِ صادق ،علمِ راسخ اور عملِ صالح کا پیکر ہو۔حکمت اپنے علم کے تقاضوں پر عمل کی توفیق کا نام ہے ،یہ ایسے اندازِ خطابت کا نام ہے کہ جس سے لوگ نصیحت حاصل کریں ،فکر وعمل کی کجی سے محفوظ رہیںاور لوگ ان کے اقوال کو ہمیشہ ضرب المثل یاپند و نصیحت کے طور پر نقل (Quote)کرتے رہیں۔حکمت علم وعمل کی پختگی کا نام ہے ،اسی کو قرآنِ مجید میں رُسوخِ علم (Deep-rooted, firmness)سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حکیم لقمان کواُن کے آقا نے کہا کہ میرے لیے ایک بکری ذبح کرو اور اُس کے سب سے بہترین گوشت کے دو پارچے لے آئو۔انہوں نے بکری ذبح کی اور زبان اور دل لے آئے،پھر اُس نے کہا کہ ایک اور بکری ذبح کرو اور اُس کے دو انتہائی ناپسندیدہ پارچے لے آئو،وہ پھر زبان اور دل لے آئے ۔اُن کے آقا نے ان سے کہا : میں نے پہلی بار گوشت کے دو سب سے عمدہ اور دوسری بار دوسب سے خراب حصے مانگے اور تم دونوں بار زبان اور دل لے آئے ۔حکیم لقمان نے کہا: جب یہ دونوں درست ہیں تو اِن سے اچھی کوئی چیز نہیں اور جب اِن دونوں میں فساد آجائے تو اِن سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ۔یہی بات حدیث پاک میں بیان کی گئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:''سنو!جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ،جب وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے اور جب اس میں فساد آجائے تو پورے جسم میں فساد آجاتا ہے ،سنو!وہ دل ہے‘‘۔اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے، میں اُسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں،ایک وہ جو دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور دوسری وہ جو دو رانوں کے درمیان ہے یعنی شرم گاہ‘‘۔
حکیم لقمان نے کہا:اتنے میٹھے نہ بنو کہ تمہیں نگل لیا جائے اور اتنے کڑوے نہ بنو کہ تمہیں پھینک دیا جائے،اسی سے ملتا جلتا قول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ اتنے خشک نہ بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے اور اتنے تَر نہ بنو کہ تمہیں موڑ دیا جائے، یعنی عقلِ سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کوقول وفعل میں متوازن ہونا چاہیے ۔حکیم لقمان نے کہا: جس نے جھوٹ بولا ،اس کا چہرہ بے رونق ہوگیا،جو بداخلاق ہوگا ،اس کے غم زیادہ ہوجائیں گے ۔اگر تمہیں موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو نیند سے بچ کر دکھائو(یعنی نیند عارضی طور پر موت سے مشابہ ہے)۔اور اگر تمہیں حیات بعد الموت پر شک ہے تو نیند کے بعد بیداری سے بچ کر دکھائو۔ انہوں نے کہا: مومن کے دل میں دو نور ہوتے ہیں،ایک خشیتِ الٰہی اور 
دوسرا رحمتِ باری تعالیٰ سے یقینِ کامل کی حد تک اُمید ۔انہوں نے کہا: تم سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا:ایامِ شباب میں تمہارے کرتوت کیسے تھے، تو نے زندگی کیسے گزاری اورتو نے مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟۔ایمان خوف ورجاکی ملی جلی کیفیت کا نام ہے ،یعنی اللہ تعالیٰ کے عقاب اور مواخذے کا خوف اوراس کی رحمت پر یقین ایمان کی حقیقت ہے۔حکیم لقمان نے کہا:اللہ تعالیٰ کے عقاب سے ہمیشہ ڈرتے رہا کرو ،اگر تم قیامت کے دن تمام انسانوں اور جنّات کے برابر بھی نیکیوں کا ذخیرہ لے آئو تو تب بھی اللہ کے خوف سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے ،کیونکہ اعمالِ صالحہ کی قبولیت اس کی رضا پر منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین اس قدر قوی ہو کہ اگرکوئی گناہوں کا بہت بڑا ذخیرہ بھی لے کر آخرت میں آئے ،تو تب بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امیدی نہیں ہونی چاہیے۔اس بات کی حقیقت کو سمجھنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہے ،چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول ہے:اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمالے کہ سب جنت میں جائیں گے ،سوا ئے ایک گناہ گار کے ،تو مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ ایک میں تو نہیں ہوں گا۔اور اگر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ فرمالے کہ سب جہنم میں جائیں گے ،سوائے ایک کے،تو مجھے یقین ہے کہ وہ ایک میں ہی ہوں گا،الغرض کمالِ خشیتِ الٰہی اوررحمتِ باری تعالیٰ پر کمالِ یقین ہی حقیقتِ ایمان ہے ۔اسی حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا : ''درست کام کیاکرو ، میانہ روی اختیار کرو اور بشارت دو، کیونکہ تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا، صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ! آپ کو بھی نہیں؟،آپ نے (تعلیمِ امت کے لیے )فرمایا:مجھے بھی نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے ‘‘،(بخاری: 6467)۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اپنے عمل پر اِترانا اور ناز نہیں کرنا چاہیے ،کیونکہ عملِ صالح کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی عطا سے نصیب ہوتی ہے اور اعمالِ صالحہ کی قبولیت کا مدار بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت پر ہے ،اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق لازم نہیں ہوتا۔ حکیم لقمان نے کہا: دنیا گہرا سمندر ہے اوربہت سے لوگ اس میں غرق ہوگئے (یعنی انسان اس کی آب وتاب ،رنگینیوں اور رعنائیوں میں ڈوب کر اللہ سے غافل ہوجاتا ہے )،تو ایمان ،توکل علی اللہ اورتقوے کو اپنے لیے کشتی بنا لے، تو دنیا کے بحرِ ظلمات میں غرق ہونے سے بچ جائے گا۔قرآن کریم میں حکیم لقمان کے جن وصایا کا ذکر ہے ،اُن پر آئندہ گفتگو ہوگی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved