کانگریس پارٹی کے دس سالہ دور اقتدار میں بے انتہا کرپشن اور من موہن سنگھ کی کمزور شبیہ سے چھٹکارا پانے کے علاوہ کالے دھن کی واپسی اورگڈ گورننس کے وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے بھارت کی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس نے نریندر مودی کو واضح اکثریت کے ساتھ مسند اقتدار پر بٹھایا، مگر یہ وعدے ایفا ہونے کے بجائے ملک کی فضا جارحانہ قوم پرستی کے نعروں اور نفرت کی سیاست سے بوجھل ہوگئی ہے۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کے بقول اس وقت ملک اور معاشرہ جس طرح منقسم ہے،اس طرح ماضی میں صرف دو بار ہوا۔۔۔۔ 1947ء میں تقسیم کے ہنگام اور پھر 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کے وقت۔ دراصل مودی کی کامیابی میں کارپوریٹ سیکٹر، مڈل کلاس اور ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارکنوں کا اہم رول تھا۔ ان تینوں گروپوں کے مفادات الگ الگ تھے۔ کارپوریٹ سیکٹر والے منموہن سنگھ کے بر وقت فیصلہ نہ کرنے اور ان کی کمزور شبیہ کے باعث تلملائے ہوئے تھے۔ بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری کے فروغ، لیبر اور ٹیکس قوانین میں ترامیم کے وعدوں اور معاشی اصطلاحات کی امید پر، مودی کی سخت شبیہ اور فیصلہ کرنے کی اہلیت نے ان کو بی جے پی کا گرویدہ بنا دیا۔ مڈل کلاس کوروزگار، اقتصادی ترقی اور بیرون ممالک سے کالے دھن کی واپسی جیسے نعروں نے لبھایا۔ حال ہی میں آر ایس ایس سے وابستہ ایک لیڈر نے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم الحروف سے کہا کہ مودی کی حکومت انہی کی مرہون منت ہے کیونکہ ان کے کارکنوں کے وسیع نیٹ ورک نے ہی شہروں، قصبوں اور دیہات میں مودی کی تشہیرکی اور ووٹروں کوگھروں سے پولنگ بوتھوں تک لے کرگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف صنعتی گھرانوں اور مڈل کلاس کے بل بوتے پر مودی کبھی پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں لے سکتے تھے۔ اس لیڈر نے سوال کیا کہ اگر اس وقت وہ (مودی) اپنانظریاتی ایجنڈا بحث یا نافذ کرنے کے لئے نہیں لاسکتے تو پھر کب لاپائیںگے؟ آرایس ایس کا واضح ہدف سیکولر بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر قبضہ کرکے تاریخ کو مسخ کرنا اور برہمنی علوم کو فلسفہ پر حاوی کرنا ایک مشن ہے تاکہ ہندو راشٹرکے لئے نظریاتی اساس ہموار ہو سکے۔
اس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوںکی تعداد آبادی کا صرف 15 فیصد ہے جس میں 3.5 فیصد برہمن، 5.5 فیصد چھتری اور 6 فیصد ویشیہ ہیں جبکہ اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کا تناسب 85 فیصد ہے، جو ہندو راشٹرکی آڑ میں برہمنی اقتدارکو قائم رکھنے پرکبھی راضی نہیں ہوسکتیں۔ جوں جوں دبے اورکچلے ہوئے طبقات میں بیداری آرہی ہے وہ اقتدار اور وسائل میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ اپنا اقتدار بچانے اور ہندوئوں میں مصنوعی اتحاد پیدا کرنے کی خاطرآرایس ایس کے پاس گائے، مسلمان اور پاکستان کی صورت میں تین آزمودہ تُرپ کے پتے ہیں، جن کا وہ موقع و محل کی مناسبت سے استعمال کرتی آ رہی ہے۔
مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد چونکہ معیشت کی بحالی اور دیگر وعدے ہوا ہوگئے ہیں، دہلی اور بہار کے صوبائی انتخابات میں، گائے اور مسلمان کا خوب استعمال ہوا مگر پھر بھی بی جے پی بری طرح پٹ گئی۔ دونوں جگہوں پر دلتوں، دوسرے پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں نے مل کر ان کے عزائم ناکام بنا دیئے۔ اس تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ دو ماہ میں پانچ صوبوں میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر ہندو قوم پرست آخری ترپ کا پتا یعنی نیشنلزم پر بحث کروا کے اور ہندوئوںکو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے یہ ایک سنگین صورت حال ہوتی ہے جب معاشرے کے کچھ طبقوں کو 'محب وطن‘ اور کچھ کو 'ملک دشمن‘ قرار دیا جانے لگے۔ دانشوروں کا خیال ہے کہ ایک منظم طریقے سے خوف کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے تاکہ تعلیمی اور تحقیقی اداروں پر آرایس ایس کے نظریات مسلط کیے جا سکیں۔
یہ سلسلہ اندر خانے کانگریس کے دور اقتدار میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ یہ معاملہ حیدر آباد دکن کی سنٹرل یونیورسٹی کے ریسرچ سکالر روہت ومولہ کی خودکشی سے عیاں ہوگیا، ورنہ پچھلے کئی برسوں سے ہندو قوم پرستوں نے حکام کی مدد سے فیلوشپ روک کر اور دیگر حیلے بہانوں سے ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں کہ 23 طلبہ اپنی جانیںگنوا چکے ہیں۔ ان میں 19دلت، 2 قبائلی اور ایک مسلمان ہے۔ ملک میں جارحانہ قوم پرستی کی ایسی فضا بنی ہوئی ہے کہ آر ایس ایس سے وابستہ طلبہ نے لکھنؤ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے خلاف مظاہرہ کیا جنہوں نے ملک کے سرکردہ اخبار میں شائع شدہ ایک مضمون کو فیس بک پر لائک کیا تھا۔ علی گڑھ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے عالمی شہر ت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کیمپس میں حکومت مخالف اور ملک مخالف سیمینار، مذاکرے اور مظاہروں کی اجازت نہ دے۔ ادھر دارالحکومت دہلی میں ایک اور عالمی شہرت یافتہ ادارے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)کو ایک منظم سازش کے تحت ملک مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ادارے کا قصور یہ ہے کہ ہندو قوم پرستی کے نظریے کے احیاء کی راہ میں یہ ایک بڑی دیوار ہے، جس کو توڑنے کے لئے کانگریس اور بی جے پی کئی دہائیوں سے اس ادارے میں پائوں جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران اس ادارے سے اساتذہ اور طلبہ کا ایک گروپ بنارس گیا تھا جس نے مودی کے خلاف گھرگھر جاکر انتخابی مہم چلائی تھی اس لئے حکومت کے اقدامات کو انتقامی کارروائی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اس ادارے کے ہوسٹلوں کے ڈائننگ ہالوں میں ہر شام کسی نہ کسی موضوع پر مذاکرہ ہوتا ہے، جس میں کبھی کبھی باہر سے بھی نامی گرامی شخصیات حصہ لیتی ہیں۔ نصف شب تک بحث مباحثہ ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کوئی اپنا نظریہ مسلط نہیںکرتا۔ راقم الحروف نے کئی موضوعات پر ان مذاکروں میں شرکت کی ہے۔
جے این یو کے حالیہ واقعے نے بہت سے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ سٹوڈنٹس یونین کے صدرکنہیا کمار کو 'غداری‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کیمپس میں ملک مخالف پروگرام کا انعقادکیا اور ملک کے خلاف نعرے لگائے۔ ثبوت کے طور پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا اور حکومت کے حامی چینلوں پر بار بار دکھائی گئی۔ بعد کی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ یہ ویڈیو جعلی تھی اوراسے ٹمپر کیا گیا تھا۔ پولیس کنہیا کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ کنہیا کو عدالت میں پیش کرتے وقت درجنوں وکلا نے عدالت کے احاطے میں نعرے لگائے تو پولیس کی موجودگی میں کنہیا اور جے این یو کے طلبہ اور پروفیسروں پر حملہ کیا گیا۔ یہی نہیں اسے جیل کے اندر بھی مارنے کی دھمکی دی گئی۔ کشمیری نظربندوں کے ساتھ یہ صورتحال پیش آتی رہی ہے، مگر دارالحکومت میں پہلی بار اس طرح کا واقعہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری اقدار کے باوجود بھارت میں شہریوں کے آئینی حق یعنی اظہار آزادی کا احترام تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ آمر یت اور جمہوریت کے مابین فرق کا اصل پیما نہ یہی آزادیٔ اظہار ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی مسائل اور سماجی ومعاشی معاملات پر رائے زنی کرنا، ان کی تشہیر و اشاعت کا معقول وسیلہ اختیار کرنا معاشرے کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ بھارت میں مذہبی اقلیتیں، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات تعصب، نفرت اور تنگ نظری کے ہاتھوں پٹتے رہے ہیں۔ اب مگر یہ طبقات اپنے سلب شدہ آئینی وسیاسی حقوق کی بازیابی کے لئے کمربستہ ہورہے ہیں۔ اُن کی معقول آوازیں
دبانے کے لئے کئی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ اسی طرح کی حرکت پارلیمنٹ میں مودی کی منظور نظر سابق ایکٹرس اور اب وزیر تعلیم سمرتی ایرانی نے کی۔ اسے معلوم تھا کہ مغربی بنگال میں آئندہ ماہ صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں ہندو دیوی درگا سے عقیدت رکھتے ہیں، ان کے جذبات کو ووٹوں سے بدلنے کی غرض سے انہوں نے ایک دیومالائی کہانی درگا کے ہاتھوں مارے گئے مہیشا سور کا معاملہ اٹھایا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے مطابق مہیشا سور بدی کا حکمران تھا جس کی ماں ایک بھینس تھی۔ اس نے بڑے بڑے دیوتائوں کو شکست دی تھی، اس وجہ سے اس کو قتل کرنے کے لئے دیوتائوں نے ایک طاقتور عورت درگا کی تخلیق کی اور اس کو مہیشا کو ختم کرنے کے لئے بھیجا۔ سمرتی ایرانی کے بقول جے این یو کے ایک پروگرام میں درگا پر کیچڑ اچھالی گئی۔ وہ شاید یہ ظاہرکرنا چاہ رہے تھیں کہ اس کی پارٹی کے سوا درگا دیوی کا بڑا بھگت اور کوئی نہیں ہے، مگر دلتوں کا ماننا ہے کہ مہیشا، قدیم بھارت کا ایک طاقتور حکمران تھا جس نے برہمنوں اور غیر ممالک سے آئے ہوئے ان آریائوں کا مقابلہ کیا تھا جنہوں نے ایک پلان کے تحت اس کو درگا کے عشق میں مبتلا کیا اور جس نے اس کو دھوکے سے قتل کیا۔ دلتوں کے مطابق ان کے آبائو اجداد اور بھارت کے اصل باشندوں کے حکمرانوں کو برہمنوں نے تاریخ مسخ کرکے راکھشش، دانوئوں اور شیطان جیسے القاب سے یاد کیا ہے۔ پہلے دلتوں میں انتی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ برہمنوں کے دیومالائی قصوں کو چیلنج کرسکیں مگر تعلیم اور شعور نے اب انہیں بیدار کر دیا ہے اور وہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ افسوس کہ 800 سال تک مسلم حکمرانوں نے بھی ان کو یہ حق نہیں دلایا۔ مگر بھارت میں حقیقی جمہوریت تبھی برقرار رہ سکتی ہے حب سبھی مظلوم طبقات متحد ہوکر حکومتی ا داروںکو مجبور کریں کہ وہ بلا امتیاز ہر شہری کو خوف، لالچ اور دبائوکی زنجیروںسے آزاد کر نے میں اپنا فرض ادا کریں۔ اس سلسلے میں ووٹ بنک سیاست کو نہیں بلکہ جمہوری اصولوں کو فوقیت دی جائے۔