تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-03-2016

ٹوٹے

مغالطہ
صدر جناب ممنون حسین نے ایک بار پھر کرپشن کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کرپشن ختم کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس سے پہلے وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کرپشن ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے‘ یہ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے‘ یہ ایک ناسور ہے‘ ایک سرطان ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ جو ملک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے جس کی شہادت وزیراعظم‘ خادمِ اعلیٰ اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار ہر تیسرے دن اتنے دھڑلے سے دیتے رہتے ہیں اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ صدر صاحب بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں اور خواہ مخواہ قوم کو مایوس کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر کرپشن ہو بھی رہی ہے بلکہ میگا کرپشن اور اس کے باوجود ملک ترقی کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اگر ملک کو مزید ترقی درکار ہے تو اسے کرپشن میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے‘ اور اگر سچ پوچھیں تو یہی نسخہ کیمیا آزمایا بھی جا رہا ہے‘ اس لیے ملکی ترقی کے حوالے سے کسی کو ''معہ صدر صاحب کے‘‘ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
حکمتِ عملی؟
بعض ستم ظریفوں کا خیال ہے کہ یہ جو صدر صاحب سے ہر تیسرے روز کرپشن کے خلاف بیان دلایا جاتا ہے تو یہ ایک سوچی سمجھی سکیم ہے جس سے یہ تاثر دینا مطلوب ہے کہ حکومت کرپشن کا ارتکاب کرکے صدر صاحب کی حکم عدولی کیسے کر سکتی ہے اور دن رات اس کام پر لگی ہوئی بھی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت خود بھی کرپشن کے حق میں نہیں ہے اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے مطابق کرپشن کا علاج کرپشن کے ذریعے ہی کر رہی ہے‘ اور جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ خراب جمہوریت کا علاج بھی مزید جمہوریت ہے۔ اسی طرح کرپشن کا علاج بھی مزید کرپشن ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب کرپشن کو کرپشن سمجھا ہی نہیں جاتا‘ حتیٰ کہ عوام نے بھی اسے کرپشن سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ نیز یہ کہ ہمارے حکمران کرپشن کا پیسہ اپنے لیے حرام سمجھتے ہیں‘ اس لیے خرچ کرنا تو کُجا نفرت کی وجہ سے اسے ہاتھ تک نہیں لگاتے اور غیرملکی بینکوں ہی میں دفع دفعان کر دیتے ہیں۔
قبضے
آپ ہی کے اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق وقف بورڈ کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ ہو چکا ہے اور اس کے مقابلے میں محکمہ سراسر بے بس ہے۔ صرف پنجاب ہی میں 10 ہزار اور سندھ میں 4 ہزار سے زائد سرکاری اراضی پر بااثر افراد قابض ہیں بلکہ بااثر افراد ریونیو عملے و دیگر محکموں کی ملی بھگت سے اربوں روپے کی اراضی جعلسازی سے ٹرانسفر بھی کروا چکے ہیں۔ یہ تو خیرمعمولی بات ہے‘ یہاں پوری حکومت پر ہی ایسے افراد کا قبضہ ہے جو ایسی ایسی باریکیوں میں ماہر ہو چکی ہے کہ الیکشن جیتنا اب اس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ انتخابات کے موقع پر خود تو یہ گھر میں بیٹھی رہتی ہے جبکہ محکمہ پولیس‘ ریونیو اور تعلیم وغیرہ کے جملہ سرفروش افراد اسے ہیوی مینڈیٹ دلا رہے ہوتے ہیں جبکہ الیکشن عملہ کے ساتھ بھی خوب بنا کر رکھتی ہے۔ اس لیے سرکاری زمینوں پر اگر خود اسی کے قبضہ گروپس متصرف ہیں تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے۔
بھٹوں پر کام بند
ایک اور اطلاع کے مطابق بھٹہ خشت مالکان نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال کرتے ہوئے کام بند کردیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان زرداری صاحب کو ہو سکتا ہے کہ ان کا مُوڈ پھر کسی وقت دوبارہ بھی بدل سکتا ہے‘ یعنی اپنے تازہ بیان میں کچھ اشارے جو انہوں نے دیے یا کیے ہیں‘ اگر ان کا خیال نہ رکھا گیا اور فرنٹ مینوں کی شامت اسی طرح آتی رہی اور ایک بار پھر انہیں اینٹ سے اینٹ بجانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہیں کہیں سے اینٹ ہی دستیاب نہ ہوگی اور ان کے دل کا ارمان دل ہی میں رہ جائے گا۔ حتیٰ کہ انہیں اس مقصد کے لیے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا استعمال کرنا پڑے گا جو کہ زیادہ تر ان کی راہ کے روڑے ہی ثابت ہوں گے اور اس طرح ملکی تاریخ ایک نہایت ضروری موڑ مڑتے رہ جائے گی اور بالآخر اس مقصد کے لیے انہیں اپنے مرکزی دفتر ہی کی اینٹیں اُکھاڑنا پڑیں گی‘ اگرچہ اُکھاڑی ہوئی اینٹیں بجتی بھی کہاں ہیں۔
نیا قانون
ماسوائے مولانا فضل الرحمن اور کچھ دیگر مذہبی شخصیات کے
خواتین پر تشدد کے حوالے سے نئے قانون کے منظور ہونے پر بالعموم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ صاحبِ موصوف نے جہاں اسمبلی کو زن مریدوں کا اجتماع قرار دیا ہے وہاں بعض افراد کی طرف سے اسے خواتین کے شُتر بے مہار ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ہمارے تحفظات میں سے ایک تو یہ ہے کہ اگر بیوی تشدد پر آمادہ ہو تو خاوند کو اپنے دفاع میں دوچار ہاتھ مار دینے کا بھی حق دیا گیا ہے یا نہیں کیونکہ ہمارے گھروں میں تشدد زیادہ تر بیویوں کی طرف سے ہی کیا جاتا ہے بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ یہ قانون خاوند کے تحفظ کے لیے ہونا چاہیے تھا۔ نیز اگر اس ارتکاب پر خاوند کو دو دن کے لیے گھر سے نکلنا بھی پڑتا ہے تو وہ دو دن وہ کہاں رہے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایک تو زخمی شوہروں کے لیے فسٹ ایڈ کا انتظام ہونا چاہیے اور دوسرے‘ بیویوں کے ساتھ ساتھ ان کے لیے بھی کوئی پناہ گاہ تعمیر کروانی چاہیے۔ نیز‘ اگر سزا کے طور پر بیوی کے لیے بھی کڑا مہیا کیا جائے تو وہ اسے زیور کے طور پر خوشی خوشی پہن لیں گی اور اسے سزا کے بجائے جزا سمجھیں گی۔
آج کا مطلع
میں سانس لے نہیں سکتا ہوا رکاوٹ ہے
رُکا ہوا ہوں کہ خود راستہ رکاوٹ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved