تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-03-2016

اب محبت کہاں سے لائیں ہم!

یہ بات جاپان کی ہے۔ طلوع ہوتے ہوئے سورج کی سرزمین صرف ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کی قیادت نہیں کر رہی بلکہ اعلٰی اقدار کے حوالے سے یہ ملک خاصی بلندی پر ہے، منزلیں مارتا جارہا ہے۔ انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود مغرب کی طرح سب کچھ نظر انداز نہیں کردیا گیا، ہر چیز داؤ پر نہیں لگائی گئی۔ جاپان میں رشتوں کا احترام آج بھی سلامت ہے۔ 
رشتوں کا احترام ہے تو بہت اچھی بات مگر ہم سمیت بہت سوں کے لیے کبھی کبھی یہ صفت سوہانِ روح ہوجاتی ہے! جاپان سے خبر آئی ہے کہ ایک صاحب نے اپنی شریکِ حیات سے محبت کے اظہار کے لیے گھر کے اندر اور چاروں طرف پُھول ہی پُھول اُگا اور سجادیئے۔ معاملہ یہ ہے کہ بیوی کی بصارت جاتی رہی تو شوہر کو بہت دکھ ہوا۔ ہر دکھ سکھ میں ساتھ نبھانے والی شریکِ حیات کے لیے اُن صاحب نے گھر کے اندر اور باہر دور تک پھول لگائے اور کھلائے تاکہ اُسے یہ احساس ہو کہ وہ بہت اہم ہے۔ اب اُن کا گھر پھولوں کی نگری کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ لوگ اِس گھر کو دیکھنے آتے ہیں اور معمر جوڑے سے بھی ملتے ہیں۔ کون ہے جو شوہر کو نہیں سراہتا؟ شریکِ حیات سے محبت کا ایسا انوکھا اظہار داد و تحسین ہی کی تو راہ ہموار کرے گا۔ 
مگر صاحب، محبت کی ایسی مثالیں ہم جیسے بہت سے لاچاروں کے لیے جی کا جنجال ہوجایا کرتی ہیں۔ اخبارات میں ایسی بہت سے خبریں شائع ہوتی ہیں جو اچھی خاصی ازواجی زندگی میں آگ لگانے سے نہیں چُوکتیں۔ کوئی چند ہفتوں یا چند ماہ میں سلِم ہوکر دکھائے تو شوہروں کو بھاری بھرکم وجود کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر طعنے سننے پڑتے ہیں یعنی یہ کہ ''میرے لیے اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم سلِم ہوکر ہی دکھادو!‘‘ 
کوئی تھوڑی سی محنت سے، بہت کم وقت میں کوئی بڑا کام کرکے دکھادے تو بیویاں موازنہ کرکے شوہر کو نیچا دکھانے کا موقع ضائع نہیں کرتیں! بات بات پر یاد دلایا جاتا ہے کہ اُس نے چند ہفتوں میں بہت کچھ حاصل کرلیا تو آپ کیوں حاصل نہیں کرسکتے۔ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ اخباری خبروں اور سوشل میڈیا کی وڈیوز میں جو کچھ پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے عموماً اُس کی پشت پر کوئی اور ہی کہانی ہوتی ہے! 
کوئی سینے پر سے جیپ یا کار گزار کر دکھائے تو بے چارے شوہروں کی شامت آجاتی ہے۔ بات بات پر طنز کے تیر برسائے جاتے ہیں کہ تم میں تو اِتنی ہمت نہیں کہ اپنے اوپر سے سائیکل ہی گزار کے دکھادو! اب بیویوں کو کون سمجھائے کہ گرہستی کا جھنجھٹ اپنے وجود پر سے 16 پہیّوں والا ٹریلر گزارنے سے کم ہے کیا! 
کسی ٹی وی شو میں کوئی بیوی کی خوشی کے لیے ٹھمکے لگائے اور گانا گائے تو بیویاں جھٹ فرمائش کرنے لگتی ہیں کہ ہم سے محبت ہے تو ایسا کرکے دکھاؤ! اور اگر کوئی ہمت کرکے دو چار ٹھمکے لگادے تو سامنے سے جملہ آتا ہے کہ ''میری تو قسمت ہی پُھوٹ گئی۔ میاں بھی ملا تو ایسا جسے ٹھمکا تک لگانا نہیں آتا!‘‘ 
قصہ مختصر، شوہروں کے لیے قدم قدم پر دُہرا عذاب ہے۔ یعنی بہت کچھ کرو بھی اور کچھ نہ کرنے کا طعنہ بھی جھیلو! ع 
خدا وندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں؟ 
بیشتر ہنستے بستے گھروں میں خرابیاں پیدا کرنے میں اہم ترین کردار ہے اخبارات میں محبت کے اظہار سے متعلق شائع ہونے والی خبروں کا۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎ 
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں 
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں! 
جب بھی اخبار میں محبت کے اظہار سے متعلق کوئی خبر چھپتی ہے، ہم اُس دن کا اخبار چُھپا دیتے ہیں۔ ایسی خبریں پڑھ کر بیگمات شوہروں کو غیرت دلانے کے معاملے میں آؤٹ آف کنٹرول ہو جایا کرتی ہیں۔ بات بات پر طعنے مارے جاتے ہیں، جملے بازی کی جاتی ہے اور اُٹھتے بیٹھتے شوہر کو اخباری خبر کا حوالہ دے کر زِچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے! 
بارہا ایسا ہوا ہے کہ ٹی وی پر کسی ڈرامے میں شوہر یا بوائے فرینڈ کی طرف سے محبت کے اظہار کو مثال بناکر ہمیں نیچا دکھانے کی گئی اور ہم نے ہر بار یہی جواب دیا کہ اِن اللہ کے بندوں کو محبت کا اظہار کرنے کے پیسے ملتے ہیں! 
فلم انڈسٹری سمیت تقریباً تمام پاکستانیوں کے پیدائشی بھیّا علی بھائی یعنی محمد علی جب زندہ تھے تب زیبا بھابی سے اُن کی لازوال محبت کی مثال دے کر بھی ہمیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور ہم یہ کہتے ہوئے اپنی گردن بچانے کی کوشش کرتے تھے کہ علی بھائی اور زیبا بھابی کو تو ایک مدت تک ایک ٹکٹ میں دو مزے ملے یعنی ایک دوسرے سے جو محبت کرنی ہی تھی اس کا معاوضہ بھی پاتے رہے! بالکل ایسا ہی کیس روبن گھوش اور شبنم کا بھی تھا۔ روبن گھوش محبت کے اظہار پر مبنی مسحور کن دُھنیں ترتیب دیتے تھے۔ اور یہ یہ دُھنیں سُن کر بیوی اور پروڈیوسرز دونوں خوش ہو جایا کرتے تھے یعنی آں جہانی روبن گھوش دونوں کو ایک ادا میں رضامند کر جاتے تھے! خیر، ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ اگر محبت کا معاوضہ یقینی ہو تو ہم ون ٹو کا فور کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے یعنی جتنی محبت چار بیویوں سے کی جاسکتی ہو وہ اِکلوتی اہلیہ پر نچھاور کرنے کو تیار ہیں! 
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے کھیملا پٹیل نے وہی کچھ کیا ہے جو 1974 کی فلم ''دِل لگی‘‘ میں شبنم نے ندیم کے لیے کیا تھا۔ کلائمیکس میں ندیم کے مرتے ہی شبنم نے بھی دم توڑ دیا تھا۔ محبت کی کہانی کو زندہ رکھنے کے لیے ''میرا نام ہے محبت‘‘ میں بابرہ شریف اور غلام محی الدین بھی کچھ ایسا ہی کر گزرے تھے۔ مدھیہ پردیش کے ہیرا پور گاؤں میں بھی محبت کی امر کہانی نے جنم لے کر بے چارے روایتی شوہروں پر تازیانہ برسایا ہے، کھینچ کے جُوتا مارا ہے۔ 90 سالہ جیتنی چند روز بیمار رہنے کے بعد جب اِس دنیا سے رخصت ہوئیں تو یہ خبر سُننے کے صرف دو گھنٹے بعد اُن کے شوہر 95 سالہ کھیملا پٹیل بھی اِس فانی دنیا کو چھوڑ گئے! دونوں شادی شدہ زندگی کی 74 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ گاؤں والے احساس سے عاری تھے نہ بے ذوق تھے۔ انہوں نے دونوں کو دولہا دلہن کی طرح سجانے کے بعد ایک ہی چِتا پر لِٹاکر اگنی سنسکار کیا۔ 
یہ خبر پڑھ کر ہمیں گھر میں یہ سننے کو ملا کہ دیکھیے، محبت ہو تو ایسی ہو کہ بیوی چل بسی تو شوہر سے دو گھنٹے بھی اُس سے دوری برداشت نہ ہوئی اور اُس نے بھی جان دے دی۔ کھیملا پٹیل کو جو کچھ کرنا تھا وہ اُنہوں نے کیا مگر ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق ہمارے گھر میں خاصی خرابی پیدا کردی۔ ٹھیک ہے، بیوی سے محبت بہت سے تقاضے کرتی ہے مگر لازمی طور پر موت کا تقاضا تو نہیں کرتی نا! ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے اور فلم دیکھنے والے بھی سنیما ہال سے باہر نکلتے ہی کلائمیکس سمیت پوری فلم بھول جاتے ہیں۔ فلموں کی ہر بات یاد رکھنے کی تھوڑی نا ہوتی ہے! 
بات بات پر شوہروں سے محبت کا تقاضا کرنے والی بیویاں یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتیں کہ گرہستی چلانے کی جدوجہد میں تمام جذبات کے کُھر گِھس گئے ہیں، ہر احساس کا حُلیہ بگڑچکا ہے۔ بہتر جاب، انکریمنٹ، اسکول کی فیس، گھر کا سَودا، تہواروں پر خریداری اور دوسرے بہت سے جھنجھٹ رات دن ذہن پر سوار رہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی محبت کہاں سے لائے؟ 
کھیملا پٹیل نے 34 سال ازدواجی زندگی کا حق ادا کیا سو کیا، ہم جیسوں کے لیے الجھن کھڑی کردی۔ خدا جانے کتنوں کو کیا کیا سُننا پڑا ہوگا۔ خیر، ہم اپنی سُناتے ہیں۔ جب ہم پر گھر کے اندر سے طنز کا تیر چلایا گیا کہ 95 سالہ بزرگ نے جو کچھ کر دکھایا کیا اُس کی توقع آپ سے کی جاسکتی ہے تو ہم نے جو جواب دیا اُس نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ ہم نے صرف اتنا عرض کیا کہ کھیملا پٹیل نے جو کچھ کیا وہی کچھ ہم بھی کرسکتے ہیں مگر یاد رکھیے کہ ردعمل کے لیے عمل لازم ہے! کھیملا پٹیل نے 74 برس تک ساتھ نبھانے والی جیون ساتھی کے جانے پر جان دی۔ اگر ہم سے محبت کے ایسے ہی اظہار کا تقاضا ہے تو لازم ہے کہ پہلے فریقِ اوّل جان دے! 
ہماری یہ بات سُن کر ہمارے گھر کی ''جیتنی‘‘ نے ہمیں اور ہماری محبت کو ''خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرنے کے لیے دل کی گہرائیوں سے جو ''شاندار‘‘ ریمارکس دیئے وہ ہم، خوفِ فسادِ خلق سے، اس کالم کی کارروائی سے حذف کر رہے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved