تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-03-2016

میراث

خون کو خون سے نہیں، پانی سے دھویا جاتا ہے۔ نفرت کا علاج محبت ہے، جوابی نفرت نہیں۔ اللہ‘ اس کے رسولؐ اور یومِ جزا پر ایمان رکھنے والوں کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ جذبات کی آگ بھڑکانے سے گریز کریں۔ سرکار کی میراث، علم، دلیل اور خیر خواہی ہے، انتقام نہیں۔
آگ بھڑکانی ہو تو دشواری کوئی نہیں۔ اپنے کارناموں کی دلدل میں حکومت اتر چکی۔ کوئی اگرنوشتۂ دیوار پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔کراچی کے ہوائی اڈے کا واقعہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ عقل سلب کر لی جاتی ہے، حواس کند ہو جاتے ہیں۔ میڈیا نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا، بلکہ ایسی احتیاط جس کی حدود خوف سے جا ملیں۔ اس پر پیمرا کا یہ طعنہ کہ نجی ٹی وی چینلوں نے مبالغہ آمیز منظر دکھائے۔ یہ مبالغہ آمیز کوریج کیا ہوتی ہے؟ کوئی جملہ؟ کوئی پروگرام؟ 
سارا دن یہ ناچیز ٹی وی دیکھتا اور حیران ہوتا رہا۔ لاہور سے اسلام آباد واپس جانا تھا۔بار بار دفتر سے رابطہ کرنا پڑا۔کیا شاہراہیں کھلی ہیں؟ سحر اخبار پڑھا تو تعجب ہوا کہ پیمرا اس پر بھی ناخوش ہے۔ وزیر کا مؤقف تو نشر کیا گیا کہ عدالتی فیصلے پر احتجاج روا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا ردِّعمل بھی ہوا ہو گا۔خلق تک یہ ردِعمل نہیںپہنچا۔ اس کے باوجود اظہار ناراضی؟ 
ایک مقصد کے لیے اپنی آزادی اور حق سے دستبردار ہو کر میڈیا نے پختگی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت سے اختلاف اپنی جگہ۔ احتجاج ایسا نہ چاہیے کہ عدم استحکام پیدا ہو۔ ہوش مندی کا تقاضا یہ تھا کہ پھانسی ملتوی کر دی جاتی۔ فیصلے پر تحفظات تھے۔ ایسے کہ جن کی پشت پر دلیل کی قوت کارفرما تھی۔ امن کی آرزو نے خاموشی کو جواز فراہم کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خلق خدا بے چین نہیں۔ بیقرار ہے اور بے حد۔ حکومت اسے اپنی کامیابی نہ سمجھے۔ کچھ نتائج اسے بھگتنا ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ بہت جلد وگرنہ آئندہ الیکشن کے ہنگام۔ لال مسجد اور اکبر بگٹی کا قتل قاف لیگ کو لے ڈوبا تھا۔ مونس الٰہی تو شاید وزیر اعلیٰ نہ بن سکتے مگر پرویز الٰہی وزیر اعظم ہوتے‘اگر وہ واقعہ نہ ہوا ہوتا۔
عوامی احساسات کا رخ کیا ہے ؟انٹرنیٹ پر دونوں جنازوں کی تصاویردیکھ لیجیے۔ گورنر سلمان تاثیر کا جنازہ گورنر ہائوس میں ہوا اور اس طرح کہ شہر عبرت گاہ تھا۔ گورنر ہائوس کے امام نے جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ داتا صاحب کے خطیب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سن کر نہ دیا۔ کوئی اور بھی آمادہ نہ تھا۔ خود پیپلزپارٹی سے وابستہ مولوی صاحبان بھاگ گئے۔ آخرکار سرکاری اہتمام سے قائم علماء ومشائخ کی تنظیم مددگار ہوئی۔ گورنر ہائوس کے چمن میں زیادہ سے زیادہ 50 افراد جمع ہوئے۔ پہلی قطار میں رحمن ملک تھے، خورشید قصوری، پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور فاروق ایچ نائیک۔ نماز کے دوران وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے‘ خوف زدہ! سرکاری چاردیواری اور پولیس کے باوجود فضا میں ایک ہیلی کاپٹر بھی موجود رہا۔
منگل کوراولپنڈی میں نماز جنازہ اس طرح ہوئی کہ تل دھرنے کی جگہ لیاقت باغ میں نہیں تھی۔ رات ہی سے لوگوں نے ڈیرے جما لیے تھے۔ مری روڈ پر حد نظر تک ہجوم تھا۔ ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ یہ ذوق و شوق سے ادا کی جانے والی عبادت تھی، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جو ان کی یادوں میں رہے گی۔ جانے والے کا موازنہ غازی علم الدین شہیدسے کیا جاتا رہا۔
سلمان تاثیر گستاخی کے مرتکب نہ ہوئے تھے ؛البتہ توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہا تھا۔محافظ نے سلمان تاثیر کو قتل کیا تو پولیس کے باقی جوان خاموش کھڑے رہے۔ مقتول کے حق میں کوئی تحریک نہ اٹھی۔ کلمہ خیر کہنے والے بھی کم تھے۔ راولپنڈی کی عدالت میں وکلاء نے گل پاشی کی تو واضح ہو گیا تھا کہ عوامی جذبات کس کے ساتھ ہیں۔
اسلام جذبات کا مذہب نہیں۔ قصاص ہے اور عدل ہے، انتقام اور تخریب نہیں۔ علماء کی ایک قابلِ ذکر تعداد ادراک نہیں رکھتی کہ قرآنِ کریم اور احادیث رسولؐ میں سے انس اورالفت کا پہلو خارج نہیں کیا جا سکتا۔ جو کرتے ہیں، وہ آیات و فرامین کو فقط احکام کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ بے سبب نہیں کہ تمام سرزمینوں میں اسلام قبول کرنے والوں نے صوفیا کا انتخاب کیا‘ علماء کا نہیں۔ جو محبت علی بن عثمان ہجویریؒ، خواجہ فرید الدین گنج شکر ؒ، خواجہ معین الدین چشتیؒ، خواجہ نظام الدین اولیاءؒ اور بعد کے زمانوں میں خواجہ مہر علی شاہؒ کو حاصل ہوئی، حتیٰ کہ شعراء، سلطان باہو، شاہ حسین، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور میاں محمد بخش کو، وہ کسی عالم دین کے حصے میں کیوں نہ آ سکی؟
جی ہاں نرمی، محبت اور خیر خواہی۔ سرکارؐ کا شعار یہی تھا۔ اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے کہ آنکھیں بھر آئیں۔ خوف سے آپ کے رفیق کانپ اٹھے کہ شاید گستاخی ہوئی۔ سوال کیا گیا تو ارشاد فرمایا: میں نے ان لوگوں کو یاد کیا جو میرے بعد آئیں گے اور مجھ سے اتنی ہی محبت کریں گے، جتنی تم کرتے ہو، حالانکہ مجھے انہوں نے دیکھا نہ ہو گا۔
برصغیر کے مسلمان کا توشہ عشقِ رسولؐ ہے اور کیوں نہ ہو۔ اللہ نے ہر کہیں ان کا ذکر ایک دائمی صداقت کے طور پر کیا ہے۔ ''سراجاًمنیرا‘‘، چمکتا ہوا سورج۔ کتاب میں ہے: ''اللہ اور فرشتے محمدؐ پر درود بھیجتے ہیں‘‘۔ بار بار ارشاد یہ ہے: اطیعوا اللہ و اطیعواالرّسول۔ اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ کی۔ فرمایا: مومنوں کے باب میں (ان کی ہدایت اور نجات کے لیے)آپؐ حریص واقع ہوئے ہیں۔آنے والی تمام نسلوں کے لیے فکر مند‘رحمتہ للعالمین!
شرمین عبید چنائے کو مبارک ہو۔ کمال فن کا شاہکار ہی ہو گا کہ اس قدردادملی۔ مگر ان کی ذاتی کامیابی ہے۔ ملک کی کوئی خدمت نہیں۔ فلم میں وہ فرماتی ہیں کہ پاکستان دہشت گرد برآمد کرتا ہے۔ممبئی حملوں کا ذمہ دار پاکستان ہے، چند اشخاص نہیں۔ان کے بقول پاکستان کی ایک پوری نسل طالبان ہے۔ مزید یہ کہ غیر ملکیوں کے لیے پاکستان خطرناک ہے۔ مغرب میں ہونے والی دہشت گردی کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوتی ہے۔ 
دوسرے سیکولر '' مفکرین ‘‘کی طرح وہ بھی پاکستان کو مغرب کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ دہشت گردی شرمناک ہے اور اس کے مرتکب درندے۔ پاکستانی قوم نے ذہنی غسل سے گزرنے والے جنونیوںکو مسترد کر دیاہے۔ پوری قوم کی تائید کے ساتھ پاک فوج ان سے نبرد آزما ہے۔ اس طرح کی فلموںکا پیغام کیا ہے؟ وزیر اعظم کی سطح پر اس خاتون کی حوصلہ افزائی کا مطلب کیا ہے؟ جی ہاں! یہ مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ملک میں انتہا پسند ہیں۔ طاقت کے بل پر، خوف زدہ کر کے اپنی بات وہ منوانا چاہتے ہیں۔ 
ایک اور پاکستان بھی ہے۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ غریب پرور۔ کراچی شہر میں، صرف ایک آدمی ہر روز ڈیڑھ لاکھ بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے۔ سینکڑوں اور بھی ہیں۔ پانچ ہزار سے زیادہ سکول ہیں، جن میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔اولیاء اللہ کے ہزاروں مزار ہیں، جہاں کوئی بھی پیٹ بھر سکتاہے۔ سینکڑوں ہسپتالوں میں مریضوں کو پابندی سے طعام مہیا ہوتا ہے۔ ایدھی فائونڈیشن ہے، نمل یونیورسٹی اور دنیا کا واحد ایسا کینسر ہسپتال‘ 70فیصد مریضوں کا علاج جہاں بلامعاوضہ۔ اخوت جیسا ادارہ امریکہ میں ہے اور نہ یورپ کے کسی ملک میں۔ غیر سودی قرض سے اب تک 16لاکھ افراد کو برسرِروزگار کیا جا چکا۔ انشاء اللہ چند برس میں یہ تعداد ایک کروڑ ہو جائے گی۔ دنیا ایسی اور کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔ ہمسایہ بھارت میں کم از کم تین سو افراد روزانہ بھوک سے دم توڑ دیتے ہیں۔ صرف دہلی میں 25 لاشیں ہر روز اٹھائی جاتی ہیں۔ کوئی اس پاکستان کی تصویر کشی بھی کرے۔ 20لاکھ سے زیادہ گھرانے اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور دوسرے اہل خیر کی حفاظت میں جیتے ہیں۔
الحذر‘ مذہبی جنونیوں سے الحذر، مگر یہ لبرل فاشسٹ؟ امریکہ اور یورپ، سالانہ ایک سو ارب روپے ان کی پشت پناہی پہ صرف کرتے ہیں۔ کس لیے؟آخر کس لیے؟
خون کو خون سے نہیں، پانی سے دھویا جاتا ہے۔ نفرت کا علاج محبت ہے، جوابی نفرت نہیں۔ اللہ‘ اس کے رسولؐ اور یومِ جزا پر ایمان رکھنے والوں کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ جذبات کی آگ بھڑکانے سے گریز کریں۔ سرکار کی میراث، علم، دلیل اور خیر خواہی ہے، انتقام نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved