اگر ہمیں کہا جائے کہ قرآن مجید میں تمہارا ذکر کیا گیا ہے تو کوئی بھی اس پر یقین نہیں کرے گا اس لئے کہ کہاں میں اور کہاں قرآن پاک؟۔ لیکن اگر کوئی صاحب علم بھی آپ سے یہی کہے کہ ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن میں تمہارا ذکر ہے تو پھر سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ کلام پاک میں میرا ذکر کن الفاظ میں کیا گیا ہو گا؟ جس طرح ابھی تک مجھے خود بھی یقین نہیں آ رہا کہ مجھ ایسے گناہ گار سے نہ جانے کتنے لوگ ناراض ہوں گے جس نے اﷲ پاک کے نہ جانے کتنے احکامات کی نافرمانی کی ہو گی اس کاا چھے الفاظ میں کسی طرح ذکر نہیں ہو سکتا ۔خدا شناس لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ جس دن کسی انسان نے قرآن پاک میں اپنا تذکرہ غور سے دیکھ لیا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے رب کوشکایت کا موقع نہیں دے گا۔ جلیل القدر تابعی احنف بن قیس ؒ ایک دن مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے کانوں میں قرآن پاک کی ایک آیت مبا رکہ سنائی دی، بمجرد سنتے ہی لمحہ بھرساکت رہ گئے لیکن جب یہی آیت انہیں دوبارہ سنائی دی تو وہ فوراً نشست سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ یہ آیت مبا رکہ سورۃ الانبیاء (21)سے تھی۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں '' ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے ہو‘‘ احنف بن قیس ؒنے اسی وقت قرآن پاک پڑھنے والے سے درخواست کی کہ کچھ دیر کیلئے مجھے قرآن پاک دیجئے میں کچھ دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ ابھی تم نے جس آیت کی تلاوت کی ہے اس میں اﷲ فرما رہا ہے کہ'' اس میں تمہارا تذکرہ ہے‘‘ میں جاننا
چاہوں گا کہ قرآن میں میرا تذکرہ کہاں پر ہے اور میرے بارے میں کیا بتایا گیا ہے اور معلوم کروں اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں اور قرآن میں کن سے مجھے مشابہت دی گئی ہے؟۔
انہوں نے قرآن پاک کھولا اور پڑھنا شروع کیا تو ان کی نظر 51 ویں سورۃ الذاریات کی اس آیت پر پڑی جس میں لکھا تھا ''رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور نہ مانگنے والے دونوں کا حق ہوتا تھا‘‘۔قرآن پاک کی دوسری آیت مبارکہ سورۃ السجدہ (32) کی جانب دیکھا تو انہیں اس میں کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ کہتے ہوئے بیان کیا گیا تھا'' ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار کا خوف رکھتے اور امید سے پکارتے ہیں اور جو مال ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ جیسے جیسے وہ قرآن پاک کی آیات پڑھتے گئے تو انہیں کچھ اور لوگ بھی نظر آئے جن کے بارے لکھا تھا''اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے اور عجزو ادب سے کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں‘‘۔
احنف بن قیس ؒکے ہاتھ پائوں کانپنا شروع ہو گئے لیکن انہوں نے قرآن پاک کی آیت مبارکہ آل عمران (3)کی جانب دیکھا جہاں لکھا تھا'' جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کر دیتے ہیں اور خدا ایسے ہی نیکو کاروں کو اپنا دوست رکھتا ہے ‘‘اور پھر قرآن میں کچھ اور لوگ ملے جن کی حالت کے بارے سورۃ الحشر(59) میں یوں آیا ''اور دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص حرص و نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہوتے ہیں‘‘۔اور پھر قرآن مقدس کی تلاوت کرتے ہوئے احنف بن قیس کو سورۃ الشوریٰ (42) میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ملا جن کے اخلاق کے بارے میں یوں فرمایا گیا ہے ''اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پر ہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں‘‘ او رپھر سورۃ الشوریٰ (42) میں ہی انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا'' اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیںاور جو مال ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
احنف بن قیس ؒ قرآن مقدس کی یہ آیات پڑھتے ہوئے ٹھٹک کر رہ گئے اور کہنے لگے؛ یااﷲ میں اپنے حال سے واقف ہوں اور یہ سب کچھ پڑھنے اور دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں تو ان لوگوں میں کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ۔اس کا تو صاف مطلب ہے کہ میرا تو قرآن پاک کی کسی آیت میں بھی تذکرہ نہیں ہے مایوس اور شرمندہ سے ہو کر وہ قرآن پاک کو اپنے دوست کے حوالے کرنے ہی لگے تھے کہ اچانک ان کی نظر وں کے سامنے ایک جھماکا سا ہوا اور پھر ان کی آنکھیں سورہ صافات (37) کی آیت مبارکہ کی جانب اٹھ گئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ''ان کا حال یہ تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بھلا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے بن جائیں؟‘‘اور پھر ان کا سورہ زمر (39) کی آیت پڑھتے ہوئے کچھ ایسے لوگوں سے سامنا ہوا جن کی حالت بارے بتایا گیاکہ''جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیںاور جب اس کے ساتھ دیگر کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں‘‘۔ احنف بن قیس ؒنے یقین سے کہا کہ اس آیت مبا رکہ میں جن لوگوں کا تذکرہ ہے شکر ہے کہ وہ ان میں سے نہیں کچھ ہی دیر بعد انہوں نے سورہ مدثر (74) کی ایک آیت پاک پڑھی '' کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ہوئے ہو؟وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیںپڑھتے تھے اور نہ ہی فقیروں اور محتاجوں کو کھاناکھلاتے تھے اور ہم دنیا میں جھوٹ سچ بولنے والوں کے ساتھ محفلیں سجایا کرتے تھیـ اور روز جزا کو جھوٹ سمجھتے تھے یہاں تک آج ہمیں اس یقینی چیز نے آ لیا جس کو ہم مانتے ہی نہیں تھے‘‘۔
قرآن پاک کی یہ چند آیات کریمہ پڑھتے ہوئے وہ تھوڑی دیر تک دم بخود بیٹھے رہے اور پھر لرزتے ہاتھوں سے کان پکڑتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے اے اﷲ!ان لوگوں سے تیری پناہ! شکر ہے کہ میں ان لوگوں سے بری ہوں۔یہ کہتے ہوئے وہ قرآن پاک کے اوراق الٹنا شروع ہو گئے ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح انہیں قرآن پاک میں کسی نہ کسی جگہ اپنا تذکرہ بھی مل جائے کیونکہ ان کے کانوں اور دما غ میں قرآن پاک کی وہ آیت بار بار گونج رہی تھی جس میں قارئین کو بتایا گیا ہے کہ '' ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے ،کیا تم نہیں سمجھتے ہو‘‘۔ یہ سوچتے ہوئے احنف بن قیسؒنے سورۃ التوبہ (9) کی یہ آیات پڑھی'' اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا صاف اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا قریب ہے کہ خدا ایسے لوگوں پر مہربان ہوجائے‘‘!!