جمال دین سٹیج پر آیا اور اس نے یہ کہا ''یہ سوال بار بار پوچھا جاتاہے کہ بدترین غربت میں جنم لینے والا جمال دین ملک کا سب سے امیر شخص کیسے بنا؟ یتیم جمال دین ، جس کی زندگی کا پہلا عشرہ رشتے داروں کی طرف سے استحصال میں بسر ہوا ، دوسرا یتیم خانے کی ٹھوکروں میں ۔ ہمیشہ اپنا راز میں چھپا تا رہا ہوں ۔میں جس شعبے میں گیا، میرے کاروباری حریف دیوالیہ ہوئے یا وہ خاندانی مسائل اور بیماریوں کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے ۔ تیس برس ، جی ہاں صرف تیس برس کی محدود مدت میں ، میں ملک کا سب سے دولت مندشخص بنا ۔ دنیا کے تیس امیر ترین لوگوں میں سے ایک ۔‘‘
یہاں ایک کتیا کے بھونکنے کی آوا ز سنائی دی ، طویل دردناک آواز ۔جمال دین نے اسے نظر انداز کر دیا اور یہ کہا'' میرے سامعین میں سے معمولی کوئی بھی نہیں ۔ آج اس اجتماع کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں موجود ایک شخص بھی ایسا نہیں جسے ورثے میں دولت ملی ہو۔ ہر ایک نے در در کی ٹھوکریں کھائیں ۔ اس کے باوجود تم سب ایک خاص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔واحد میں ہوں ، بیک وقت جو تیرہ شعبوں میں اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ مملکتِ خداداد ہی نہیں ، ہمسایہ حکومتیں بھی میرے سامنے بے بس ہیں کہ سیاسی اشرافیہ کی اکثریت میرے ہی ٹکڑوں پہ پلتی ہے ۔ تم سب میری کامیابی کا راز جاننا چاہتے ہو ۔ آج اپنی پچاسویں سالگرہ پر ، میں یہ راز افشا کر دوں گا ‘‘ ۔ ایک بار پھر کتیا کی اذیت ناک صداسنائی دی ۔
جمال دین ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا ۔ پھراس نے یہ کہا ''یہ ایک تاریک ، خوفناک راز ہے ۔ اب میں اس قدر طاقتور ہوں کہ اسے ظاہر کرنا میرے لیے کسی نقصان کا باعث نہیں بن سکتا۔ حکومت میری پالی ہوئی سیاسی اشرافیہ کی ہے ۔میڈیا میری ملکیت ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے میری جیب میں۔ باہم متصادم سیاسی جماعتیں میرے ہی ٹکڑوں پہ پلتی ہیں ۔تیس برس قبل غربت اور بے بسی کی انتہا میں ، میں ذہنی مریض بن چکا تھا۔ مجھے باقاعدہ دماغی دورے پڑنے لگے تھے ۔میں پیدائشی یتیم تھا۔ والدین کی محبت مجھے مل نہ سکی اور نہ ہی مناسب تعلیم و تربیت ۔ اس کے باوجود میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا۔ یتیم خانے کو چندہ دینے والے کچھ ممتاز کاروباری لوگوں سے میں نے کچھ سوالات کیے ۔ وہ سب دن رات مشقت کرتے تھے ۔ وہ درست وقت پر درست فیصلہ کرتے لیکن ایک سطح پر آکر تم لوگوں کی طرح وہ سب کے سب بھی رک گئے تھے ۔ جب میں نے تجزیہ کیا تو انکشاف ہوا کہ اس کا سبب اخلاقیا ت تھی ۔ جی ہاں ، وہ یتیم خانے کو چندہ دیتے تھے ۔ وہ لوگوں کو مشکلات میں دیکھ کر آبدیدہ ہوتے تھے ۔وہ یتیموں ، بیوائوں اور مساکین کی مدد تو کرتے ہی تھے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے خونی رشتے داروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ۔ ایک کا بیٹا لا علاج کینسر کا شکار ہو ا تو اس نے کروڑوں روپے کی اپنی جمع پونجی بیرونِ ملک علاج میں لگا دی اور کنگال ہو گیا۔‘‘
جمال دین بولا ''تب میں نے خود سے یہ کہا ''اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے تو یتیم، مسکین ، بیوائیں اس کا مسئلہ ہیں ، میرا نہیں ‘‘ یہاں کتیا کی بلند آواز بڑے تسلسل سے سنائی دینے لگی ۔ ایسا لگتا تھا، جیسے وہ جانکنی کے عالم میں ہے ۔
جمال دین نے یہ کہا ''میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اخلاقیات ہی انسانی ترقی میں آخری رکاوٹ ہیں ۔ رحم دل انسان ایک حد سے زیادہ نمو نہیں پا سکتا۔ رشتے ہی اس رحم کا باعث بنتے ہیں ۔ میں نے کبھی کوئی رشتہ نہیں پالا۔ اولاد کے جھنجھٹ میں نہیں پڑا۔مجھے کسی بیوہ پہ ترس نہیں آیا۔ جمال دین سب کے جذبات سے کھیلا، کوئی اس کے جذبات سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ میں نے ہر شخص کی جذباتی کمزوری پہ نظر رکھی ۔ یتیم خانے کے نگران کی دن رات خدمت کی۔ اس کے بچّوں کے پوتڑے میں اپنے ہاتھوں سے بدلتا۔ وہ سب بد صورت تھے، میں ان کے صدقے واری جاتا؛حالانکہ اندر ہی اندر مجھے گھن آ رہی ہوتی۔ ایک وقت آیا کہ یتیم خانہ اس نے میرے سپرد کر دیا۔ آج یہاں اس نجی محفل میں ، میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس کی بے وقت موت میں ، میرا ہی ہاتھ تھا۔ میں یتیم خانے کے مال میں خرد برد کرتا رہا۔ میں نے دوسرا یتیم خانہ کھولا۔ میں نے یتیم بچّوں کو خود معذور کیا اور انہیں دکھا کر مال اکٹھاکرتا رہا۔ میں نے کبھی کسی پہ رحم نہیں کھایا۔ عورتوں سے میں تعلقات رکھتا لیکن شادی بچوں کے جھنجھٹ میں نہیں پڑا۔ ‘‘جمال دین کی آواز بے حد بلند ہو چکی تھی ۔ سامعین منہ کھولے سن رہے تھے ۔ اس اثنا میں کتیا کی آواز ایک بار پھر مداخلت کرنے لگی ۔
جمال نے یہ کہا '' میں نے اپنے کاروباری حریفوں کو شکست دینے کے لیے ہر جائز نا جائز حربہ استعمال کیا۔ ان کی کمزوریاں ڈھونڈیں ۔ انہیں ان کے خونی رشتے داروں سے زہر دلوایا۔ انہیں بلیک میل کیا۔ انہیں مقدمات میں پھنسوایا۔ یہ جس کتیا کی آواز بار بار آپ سن رہے ہیں ، وہ ایک فقیر کی کتیا ہے۔ ایک بار میں اس کے پاس سے گزرا تو فقیر نے یہ کہا ''جمال دین ، خدا سے ڈر‘‘ ۔ اسی روز اس کتیا کو میں نے اپنی گاڑی تلے روند دیا۔ آج تین ماہ بعد پہلی بار اس کی آواز میں نے سنی ہے ۔ یہ درد سے تڑپ تڑپ کر مر جائے گی ۔ فقیر کو اذیت الگ ہوگی ۔ یہ ہے جمال دین کا انتقام۔ تم لوگ بھی اگر بلندی تک جانا چاہتے ہو تو ہر رشتے، ہر اخلاقی اصول کو بھول جائو۔ ‘‘
یہ کہہ کر جمال دین سٹیج سے اترگیا۔ جب وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ فقیر کی کتیا نے اپنی دو کچلی ہوئی ٹانگوں کے باوجود چار صحت مند بچّے دیے ہیں ۔ وہ انہیں چوم چاٹ رہی تھی اور فقیر محبت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ کتیا دراصل زخم سے نہیں بلکہ دردِ زہ سے چلّا رہی تھی ۔
فقیر نے یہ کہا '' جمال دین ہر گلی کوچے میں جاندار پل رہے ہیں ۔ وہ پیدا ہوتے ، اپنا رزق کھاتے ،اپنی نسل بڑھاتے ، بوڑھے ہوتے اور پھر مر جاتے ہیں ۔ تو کوئی انوکھا نہیں ہے اور نہ ہی اس دنیا کا نظام تیرے اشاروں کا محتاج ہے ۔ تو بوڑھا ہو رہاہے ، ایک دن مر جائے گا۔تیری زندگی اس کتیا سے بھی بدتر ہے ، جو اپنے بچّوں کو محبت سے پالے گی ۔ رشتے کتنے اہم ہیں ، یہ کتیا تجھ سے بہتر جانتی ہے اور تجھ سے بہتر انہیں نبھائے گی ۔ ‘‘
کہا جاتاہے کہ جمال دین کو اسی وقت ایک دماغی دورہ پڑا تھا۔ اسی وقت اس کے دماغ کی رگیں پھٹ گئی تھیں ۔وہ موقعے پر ہی ہلاک ہو گیا تھا۔