سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نام پر واشنگٹن میں رچایا گیا میلہ مجھے تو پاکستان کا ایٹمی کمبل چرانے کی تدبیر لگتا ہے‘ ورنہ وزیر خارجہ جان کیری کو افتتاحی بیان میں یہ کہنے کی ضرورت کیا تھی کہ پاکستان ایٹمی پروگرام محدود اور ذخائر کم کرے۔
لیبیا نے جلد ہار مان لی امریکہ‘ ایران کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے میں کامیاب رہا‘ امریکہ سے پیار کی پینگیں بڑھانے والے معمر قذافی کے ساتھ جو گزری وہ عصری تاریخ کا عبرتناک باب ہے۔ عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے معمر قذافی کا انجام اُن تمام حکمرانوں کے لیے سبق آموز ہے جو اقتدار کے نشے میں چور عوامی جذبات کو فراموش کر بیٹھتے اور کسی سپرپاور کو اپنا محافظ و مددگار سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں۔ امریکہ کا خیال ہے کہ ایران کی طرح پاکستان کو بھی معاشی و اقتصادی مراعات کے عوض ایٹمی پروگرام محدود کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے اور معاشی خوشحالی کو ہر بات پر ترجیح دینے والے حکمران شائد زیر دام آ جائیں۔
سٹرٹیجک ڈائیلاگ کی کامیابی کے لئے ہم نے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ عام پاکستانیوں کا خیال تھا کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے لئے امریکہ کو راضی کر لے گا مگرسرتاج عزیز صاحب کی بات توجہ سے سُننے کے بجائے امریکہ نے اُلٹا ہمارے ایٹمی پروگرام کو ہی محدود کرنے کی فرمائش کر دی۔ حالانکہ ممتاز امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ارپنا پانڈے کا خیال تھا کہ ممتاز قادری کی پھانسی سے امریکہ خوش ہو گا اور اس کا فائدہ پاکستان سٹرٹیجک ڈائیلاگ میں اٹھائے گا۔
امریکی جریدے ہفنگٹن پوسٹ (HUFFINGTON POST) میں ارپنا پانڈے کا تجزیہ شائع ہوا ہے جس میں ریسرچ سکالر نے تحریر کیا ہے کہ ''ممتاز قادری کو اس وقت پھانسی دی گئی جب پاکستان اور امریکہ کے مابین سٹرٹیجک مذاکرات ہو رہے ہیں اس فیصلے کا مقصد امریکہ سے مفادات سمیٹنا ہے‘ پاکستانی قیادت نے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔ ممتاز قادری کی پھانسی علامتی اشارا ہے۔ پھانسی کو پاکستانی حکومت کا فیصلہ کن موڑ سمجھنا چاہیے جس کے ذریعے وہ ماضی کی نسبت اپنی پالیسی کی سمت میں واضح تبدیلی لائی ہے۔‘‘
ممتاز قادری کا معاملہ تو اب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے جو بہترین انصاف کرنے والا ہے مگر ہر طرح کی پابندیوں‘ رکاوٹوں اور میڈیا کے مکمل بلیک آئوٹ کے باوجود اس کے جنازے میں لاکھوں عاشقان رسولﷺ کی شرکت نے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ برطانوی اخبارات ڈیلی میل اور گارجین نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی‘ دستور پاکستان میں کی گئی دوسری ترمیم (1974 ء) اور قرارداد مقاصد میں ترمیم و تنسیخ کے لئے فارن فنڈڈ این جی اوز کا شور و غوغا اور امریکی و یورپی دبائو اپنی جگہ مگر حکومت احمق ہو گی اگر اس سمت میں ایک قدم بھی آگے بڑھی تو۔ میاں نوازشریف نے اپنے پائوں پر کلہاڑی مار کر امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش کی مگر اس کے مطالبات کم ہوئے نہ خواہشات اور دبائو میں نرمی کے آثار ہیں ؎
وہی میری کم نصیبی‘ وہی تیری بے نیازی
مرے کام کچھ نہ آیا‘ یہ کمال نے نوازی
ہماری شکم پرور حکمران اشرافیہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مرعوب‘ خوفزدہ لوگوں پر کبھی کوئی رحم نہیں کرتا اور چاپلوسی سے‘ احمق کے سوا کوئی متاثر نہیں ہوتا۔ کمزور کوئی فرد ہو یا قوم ہمیشہ طاقتوروں کا نرم چارا ہوتی ہے اور کمزوری خواہ موقف میں ہو‘ معیشت و دفاع میں یا طرزعمل میں دوسروں کو چڑھ دوڑنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ نریندر مودی کی راہ میں ہم نے پلکیں بچھائیں مگر اس کا وزیر دفاع منوہر پاریکر آنکھیں دکھاتا ہے اور مشیر سلامتی اجیت دودل منت سماجت کے باوجود مذاکرات کی تاریخ دینے سے گریزاں۔ وزیر دفاع کا تازہ فرمان یہ ہے کہ پٹھان کوٹ حملے میں پاکستان کے غیر ریاستی عناصر ملوث ضرور ہیں مگر یہ کام وہ ریاست کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے۔ راجیہ سبھا میں دیئے گئے پالیسی بیان کو محض غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر نظرانداز کرنا پرلے درجے کی سادہ لوحی ہے۔
دشمنوں اور مہربانوں کو اس کمزوری کا ادراک ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی ترجیح اوّل ایک طرف بیٹھ کر آرام سے دہی کھانا ہے یہ دہی ہمیں امریکہ و یورپ سے ملے‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے یا بھارت سے‘ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر... ہمیں لقمہ تر دکھا کر وہ کبھی سٹرٹیجک اثاثوں ‘ایٹمی پروگرام اور کشمیر وغیرہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں کبھی ہمارے سرمایہ ایمان و اخلاق پر ہاتھ صاف کرنے کی سوچتے ہیں اور کبھی قومی اداروں کی تحقیر و تذلیل سے ہماری عزت نفس مجروح کرتے ہیں تاکہ کسی کمزور لمحے میں ہم وہی کچھ کر گزریں جو ان کی خواہش ہے اور ہماری تباہی و بربادی کا ساماں۔
1950ء سے 1970ء کے عشرے میں ہم دفاعی طور پر اتنے طاقتور تھے نہ معاشی طور پر اس قدر مضبوط کہ ہمیں کسی کی پروا نہ ہو‘ مگر پھر بھی اس دور میں بھارت ہمیں ڈکٹیشن دینے کی جرات کرتا تھا نہ امریکہ ہر روز ڈو مور کا مطالبہ۔ انہی ادوار میں لیاقت علی خاں نے امریکہ کو فوجی اڈہ دینے سے انکار کیا اور ایوب خان نے بڈبیر ایئربیس کی لیز میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ۔ نتائج دونوں نے بھگتے‘ امریکی پیپرز نے اب کوئی چیز مخفی نہیں رہنے دی مگر ہمارے حکمرانوں نے یہ ثابت کیا کہ اپنے فیصلے ہم خود کرتے ہیں۔ جب تک بحیثیت قوم ہماری سوچ یہ رہی کہ روز قیامت اپنے اللہ اور اس کے رسولؐ کے سامنے سرخرو کیسے ہوں گے ؟اور ہمارے حکمران اس خوف کا شکار رہے کہ اپنی قوم کو کیا مُنہ دکھائیں گے؟ اقوام عالم میں ہماری عزت و آبرو برقرار تھی اور کوئی ہمیں ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کراتا تھا۔ اپنی خوشی سے غلط فیصلے ہم نے کئے اور ان پر پچھتائے بھی‘ مگر دبائو‘ خوف اور لالچ کے تحت اپنی قومی پالیسیوں کو تبدیل کیا نہ اپنے مفادات کا سودا کیا۔
اب ہماری اجتماعی سوچ کیا ہے؟ زیادہ درست الفاظ میں حکمرانوں اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ دانشوروں کی؟ ہم دنیا کو کیا مُنہ دکھائیں گے؟ اور یہ دنیا کیا ہے؟ اوباما‘ ڈیوڈ کیمرون‘ انجیلا مرکل‘ فرانسس ہالینڈ اور نریندر مودی ۔انہی کی خوشنودی ہمارے اہل حکومت و سیاست کی ترجیح اوّل ہے کیونکہ یہ اقتدار و اختیار کو عوام کی عطا اور اللہ تعالیٰ کا کرم نہیں ان زمینی خدائوں کی بے پایاں شفقت اور بندہ پروری کا اعجاز سمجھتے‘ ان ہی کی چشم کرم کے طلب گار رہتے ہیں اور ہر وہ کارنامہ انجام دینے پر آمادہ جو انہیں واشنگٹن‘ پیرس‘ لندن اور بون میں وکٹری سٹینڈ پر کھڑا کر سکے۔
ہر معاملے کو امریکہ اور یورپ بلکہ بھارت کی عینک سے دیکھنے کا نتیجہ ہے کہ اپنا خاندانی نظام ہمیں زہر لگتا ہے اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے والے مغربی ٹوٹکے نسخہ کیمیا۔ پاکستان میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور بھارت جیسے ذات پات‘ چھوت چھات کے مارے معاشرے کی کوئی خرابی محدب عدسے سے بھی دکھائی نہیں دیتی۔ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں ''را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر اور علیحدگی پسند پکڑے بھی جائیں تو ہم سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیتے۔ مگر بھارت کے ایک اشارے پر ہم وہ گناہ بھی قبول کر لیتے ہیں جو ہم نے کئے نہ ہمارے فرشتوں کو علم۔ پٹھان کوٹ واقعہ پر گوجرانوالہ میں ایف آئی آر کا اندراج اور ایس آئی ٹی کی عجلت میں تشکیل ہمارے اس معذرت خواہانہ طرزعمل کا شاہکار ہے۔ تسلی بھارت کی پھر بھی نہیں ہوئی‘ اور بھارتی وزیر دفاع نے پاکستانی ریاست کو ذمہ دار قرار دیا ہے ریاست کیا فوج اور آئی ایس آئی۔ جب ہم بھارت کے سامنے بچھے جا رہے ہیں تو امریکہ ڈو مور کا مطالبہ کیوں نہ کرے‘ قصور مگر امریکہ اور بھارت کا نہیں‘ یہ ہمارے اپنے کرموں کا پھل ہے۔
شرمین عبید کی وزیراعظم ہائوس میں پذیرائی‘ پنجاب میں تحفظ نسواں کے نام پر ایک شتر گربہ قانون کی منظوری اور ممتاز قادری کی پھانسی‘ ہماری کوئی ادا طوطا چشم اور ہرجائی امریکہ کو پسند نہیں آئی۔ پسند آ بھی نہیں سکتی۔ مگر ہمارے روشن خیال حکمرانوں کو کون سمجھائے ؎
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی