تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-03-2016

آدمی غنیمت ہے… (2)

انتساب کی بات
...میرے ہی گائوں کا ایک چھ فٹ کا جواں سال ‘تفاوت سن و سال کے باوجود میرے حلقہ￿ ارادت اور مہر و محبت اور فکر و عمل میں در آیا۔ شرفائے محمد آباد کی آنکھ کا شہتیر وہ سولہ اٹھارہ سال کی عمر ہی میں بن گیا تھا۔ جب جب سُنے اس کی تحقیر اور تذلیل کے قصے سُنے۔ گالی گلوچ‘ طنز و استہزا کا نشانہ ہی رہی اس کی ذات۔ رفتہ رفتہ طمانچوں اور باقاعدہ گن کر سو جُوتوں سے بھی اُس کی دُرگت سرراہ بنتے گائوں والوں نے سادات کی بارگاہ میں دیکھی۔ چاقو چُھریوں کا کھیل اس کے سُتے ہوئے چہرے پر کھیلا گیا۔ میں بھی کب پیچھے رہا۔ ایک مرحلے پر میں نے بھی دو ایک کوڑے اس کی پیٹھ پر برسائے‘ وہ تو گھُٹ کر رہ گیا۔ اس کی ماں کے واویلے کو خاطر میں کون لاتا اور کیوں لاتا۔ یہ سب کچھ تھا مگر اس ''گم کردہ راہ‘‘ کی آنکھوں کی چمک دمک اور چال ڈھال کا بانک پن جُوں کا تُوں رہا اور یہاں رفتار و گفتار‘ جُبہ ودستار پر پہرے بٹھانے کی ذہنیت کارفرما‘ کوئی پستی کا حد سے گزرنا دیکھے۔ اس کی ذہنی ساخت میں تضحیک اور تذلیل کے یہ حربے بظاہر کوئی نمایاں تبدیلی پیدا نہ کر سکے۔ وہ ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہوا بردوش نظر آیا‘ آوارہ اور بے لگام‘ 
بے جا یُورش سے ہٹ دھرم تو ہونا ہی تھا‘ کسی کو خاطر میں نہ لانے والا اُچکّا سا‘لُترا‘ بڑبولا۔ ذرا ذرا سی بات پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر ہو جانا‘ اکڑ فوں اور فوں فاں‘ حسن اس کی کمزوری اور اس پر جابرانہ تسلط کے من گھڑت دعوے اور دست درازیوں کے خیالی منصوبے‘ فاسقانہ وارفتگی میں بھی کہیں کہیں پیش پیش‘ کھیل کود اور زور آزمائیوں میں بھی پیچھے پیچھے نہیں‘ آگے آگے۔ رُسوائیوں کا نہ اُسے ڈر نہ خوف۔ 
گوشت اور چربی کہاں‘ بس چوڑی ہڈی کے بل بوتے پر جسمانی تشدد کے ہر وار کو بزرگوں کی عمر رسیدگی کے حقوق اور جُرم ضعیفی کی سزا جان کر جھیل جانا‘ کھیل جانا‘ ''جرم‘‘ اور تعزیر کے اس دیہاتی مسئلے کو اس ناخواندہ نے احساس‘ شعور اور تاسف کی کسوٹی پر بھی میں جانتا ہوں کہ پرکھا۔ 
گائوں کے وڈیرے اور پیر وڈیرے کا تو کہنا ہی کیا‘ کریلا اور نیم چڑھا‘ کوئی موقع ذوق حکمرانی کی تسکین کا یاروں نے کبھی ہاتھ سے جانے ہرگز نہیں دیا۔ اوچھا ہو آدمی تو ایسا تو ہو۔ ایک بے ضرر انسان کو جو معاشرتی اعتبار سے کسی شمار قطار میں نہ ہو‘ اپنی جُھوٹی انا اور کھوکھلی امارت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے گائوں کی کنچنیوں کے کہے سُنے اور لگائی بُجھائی سے اپنا مقابل بنا لینا‘ سازش اور شقاوت کا دریچہ کھول دینا‘ پیروں اور پیرزادوں کا سرمایہ￿ فکر اور حاصلِ حیات ہے۔ ذہنی افلاس کی اس فراوانی میں ایک مفلس اور نادار کی یہ ثابت قدمی حیرت انگیز ہی رہی۔ 
گائوں کا سردار اور آبادی ایک کنبہ ہی تو ہوتا ہے۔ اس چھوکرے نے کمال حوصلہ مندی سے سب مظالم کو اس ذہن اور قبائلانہ پس منظر میں لیا اور دل بس یونہی سا میلا کر کے اپنے آپ میں مگن رہنے میں کوشاں رہا۔ ذات اور خواری کو ظلمت کی تاریکیوں میں شمار کیا‘ روگ نہ بننے دیا۔ اس گھٹی گھٹی سی متعفن فضائوں سے دور نکل جانے‘ ٹل جانے کی پہلی کوشش میرے موضوع نے کی تو تھی‘ فوج میں بھرتی ہوا... پریڈ اور فوجی رہن سہن کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ فوجی صوبیداروں کے ٹھّڈے اور ''کوارٹر گارڈ‘‘ کے بھگتان بھگتے‘ زمانے بھر کی سخت کوشیوں کو تو وہ خاطر میں نہ لایا‘ لیکن خدائی فوجداروں نے بہن‘ بیوی پر زبان درازی اور دست اندازی کی ٹھانی تو وہ دل ہار بیٹھا۔ قلب کی سیاہیوں اور نیّتوں کے ایسے فتور اس نے سُنے تھے‘ دیکھنے کی تاب کہاں سے لاتا۔ اس نے اپنے مولد اور مسکن اپنے گائوں محمد آباد کو‘ لاکھ میں نے روکا‘ خیرباد کہہ کر ہی دم لیا۔ اب وہ اپنے دادا پردادا کے ویرانوں میں کوٹ سبزل جا کر آباد ہوا ہے۔ کہتا ہے وہاں جا کر عزت نفس اور اپنے گھر ‘اپنے در کا علم ہوا۔ اس کی ہر بات بقول میر تقی میر اک مقام سے سمجھ میں آتا ہے کہ ہے۔ گاہے بن بلائے گاہے بیگار میں‘ کبھی کسی ضرورت کے تحت وہ آتا رہا‘ جاتا رہا‘ اس کا غیر مرئی وجود اپنا رنگ دکھاتا اور جماتا رہا۔ میں نے اس کی خودسری میں بغاوت کا عنصر‘ قریب کا مطالعہ یہ ہے کہ کم اور مدافعت کا مادہ زیادہ شمار کیا۔ اُجاڑ اور گنوار وہ نشست و برخواست کی حد تک بھی نہیں پایا گیا۔ محض نام کا گنوار‘ سرشت میں عجز و نیاز‘ غیرت و حمیت‘ شیفتگی اور شرافت کی آمیزش نہیں‘ بہت زیادہ پائی گئی۔اور اب وہ میرا چلی ہوئی اصطلاح میں دست و بازو ہے‘ جو ہر کھلتے جاتے ہیں‘ خمیر میں اس کے بھولپن‘ سادگی و ہشیاری‘ فروتنی اور جاں نثاری‘ انکسار اور دلیری‘ جرا￿ت وبے باکی‘ ایثار پیشگی سبھی کچھ گندھا ہوا ہے۔ میری چاکری جسمانی راحت‘ روحانی تسکین کی بھینٹ‘ تن من دھن‘ بیوی بچے سبھی کچھ چڑھا رکھا ہے اس نے۔
لمحہ لمحہ تغّیر پذیر حضرت انسان کا مطالعہ بھی ایک کائنات میں سما جانے کے مترادف ہے۔ میں نے ایک غزال وحشی کو زمانے اور زندگی کی یورش سے نبردآزما رہنے اور دام فریب میں اُلجھ کر جی جانے کا سلیقہ اور سُوجھ بُوجھ‘ یہی کیوں نہ کہوں کہ بخشا ہے‘ اپنی نبیڑ تو‘ تجھ کو پرائی کیا پڑی ہے۔ یہ کُلیّہ اور یہی قاعدہ کُلی طور پر نہ سہی‘ جزوی اعتبار سے اپنا رکھا ہے اور اسی کا پرچارک ہوں میں تو۔ مجھے اس کی نادانیوں کے چرکے بھی شب و روز سہنا پڑے۔ اپنی شخصیت اور وقار تک کو دائو پر لگا رہنے دیا۔ اصلاح حال اور رسم اُلفت کے تقاضوں اور دُوئی کو حرف غلط کی طرح مٹا دینے کے لیے کیا میں اتنا کچھ بھی نہ کرتا‘ جان جائیے کہ امیر اور غریب‘ پیر و فقیر‘ محمود و ایاز‘ محبت اور انسانیت کے لازوال رشتوں میں ایک ہیں۔ میری والہانہ سرخوشی اور اُس کی خود فراموشی سے لبریز بُودوباش ہی زندگی بھر کی کمائیوں میں سے ایک کمائی ہے۔ میں اس مجموعہ نگارش کو سعودی عرب کے لیے پر تولنے اور اپنے دل میں بسنے والے
خادم حسین کوری
کے تعلق خاطر کی یادگار چھوڑے جاتا ہوں
انیس
ذی قعدہ 1404ہجری
25 اگست 1984عیسوی
محمد آباد‘ تحصیل صادق آباد
سوا گیارہ شب
اگرچہ یہ انتساب کی تحریر ہے اور خاکہ نہیں‘ لیکن اس لیے درج کر دی ہے کہ نہ ہوتے ہوئے بھی خاکہ بن گئی ہے کہ صرف نثر کا ایک انوکھا ذائقہ چکھانا مقصود تھا اور یہ دکھانا کہ زبان میں بے ساختگی کس طرح وارد ہوتی ہے بلکہ اسے زبان تک محدود کرنے کی بجائے سٹائل ہی کیوں نہ کہا جائے۔ انتساب کی یہ تحریر بھی پوری نہیں ہے بلکہ قلت جا کی وجہ سے کہیں بیچ ہی میں سے شروع کر دی ہے۔ اگلی بار سے خاکے باقاعدگی سے آغاز ہوں گے۔ کوشش کروں گا کہ یہ ہفتہ وار مثلاً جمعرات کو پیش کرتا رہوں۔ بس کوئی پچیس تیس قسطیں ہوں گی۔ اُمید ہے کہ پسند خاطر ہوں گی۔ رنگ ادب پبلی کیشنز والے عنقریب اسے کتابی شکل میں بھی شائع کر رہے ہیں۔ ایک بات بتانا بھول گیا کہ خاکوں کی فہرست کو انہوں نے اصحاب تسلیم و رضا کا نام دیا ہے ؎
بلائے جاں ہے غالب اُس کی ہر بات
عبارت کیا‘ اشارت کیا‘ ادا کیا
آج کا مطلع
مزا کچھ تو ملے گا موج کو منجدھار کرنے میں
بھلے میں ڈوب ہی جائوں یہ دریا پار کرنے میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved