مذہبی رہنمائوں کو مژدہ ہو کہ کل ہی ایک جوانِ صالح نے ایسا کارنامہ ڈنکے کی چوٹ سرانجام دیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ''غیر اسلامی‘‘ بل کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے ہیں۔ مولانا حضرات کو چاہیے کہ اِس جوانِ رعنا کو اپنا ہیرو قرار دیں اور اس کے بعد جو مدرسہ بھی نیا قائم ہو، اس کا نام اس مجاہد کے نام پر رکھیں۔ ساہی وال میں چھبیس سالہ نوجوان نے اپنی دو بہنوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا لیکن یہ کارِ خیر اس نے پہلی بار نہیں کیا۔ مجاہد نے اپنی ماں کو بھی قتل کیا تھا۔ جیل سے وہ اس لیے رہا ہو گیا تھا کہ والد محترم نے فرزندِ ارجمند کا قصور معاف فرما دیا تھا۔
یہ خبر اندھیرے میں کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی رہنمائوں کو جب بھی عوام پر اپنی گرفت ڈھیلی نظر آتی ہے اور اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا دکھائی دیتا ہے، وہ شیر آیا شیر آیا کا شور مچانے لگتے ہیں۔ یہاں اقتدار سے ہماری مراد وہ اقتدار نہیں جو وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس، کشمیر کمیٹی یا اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمینی کے طور پر ملا ہوا ہے۔ یہ اقتدار تو اصل اقتدار کا عشرِ عشیر بھی نہیں! اصل اقتدار وہ بے تاج بادشاہی ہے جو ناخواندہ معاشرے نے ان حضرات کو سونپی ہوئی ہے۔ مدارس ان کی اقلیمیں ہیں۔ لکشمی ہُن کی طرح برستی ہے۔ پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں برائے نام ہیں۔ اصل علما وہی ہیں جو سیاست سے کنارہ کش ہو کر مدارس میں چٹائیوں پر بیٹھے قال اللہ اور قال الرسول پڑھا رہے ہیں۔ اور عسرت اور تنگدستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رہے طلبہ تو کوئی ایسا سروے، کوئی ایسا سسٹم، کوئی ایسی پڑتال نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ خلقِ خدا نے دیا کتنا، طلبہ اور اساتذہ پر کتنا خرچ ہوا اور ''مالکان‘‘ کے چمکدار اور آسودہ معیارِ زندگی نے کس قدر نگل لیا۔ جب تک ان حضرات کا بس چلے گا، ایسا کوئی سسٹم، کوئی نظام، کوئی محاسبہ، کوئی پڑتال، وجود میں نہیں آنے دیں گے۔
ان کی اقلیمیں، ان کی ولایتیں، ان کی امارتیں کہاں پھولتی پھلتی ہیں؟ وہاں جہاں خواندگی ہے نہ سیاسی شعور نہ اعلیٰ یا درمیانہ درجے کی تعلیم! بہترین علاقے ان کی بادشاہی کے وہ ہیں جہاں فرسودہ سرداری نظام اور صدیوں پرانا جاگیردارانہ سسٹم اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ پتھر کے زمانے میں رہنے والے بلوچستان کے علاقے، جنوبی پنجاب کے مزارعوں سے چھلکتے اضلاع اور اندرون سندھ بسنے والے لاکھوں ہاری! ملا ملٹری اتحاد کا نعرہ لگانے والے تو طفلانِ مکتب تھے۔ مار کھا گئے اور سامنے لکھا ہوا بھی نہ پڑھ سکے۔ اصل اتحاد اس ملک میں ملائیت اور جاگیرداری کا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ حضرات لاہور‘ کراچی اور دوسرے شہروں سے بھی انتخابات میں جیتتے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ نواب زادہ نصراللہ خان نے جب زرعی اصلاحات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ''تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ‘‘ کی تنظیم بنائی تو مذہبی رہنما ان کے مدد گار تھے اور یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ جب بھی کوئی پنچایت کسی پانچ سالہ بچی کا نکاح کسی سترسالہ دولہا سے پڑھوانے کا حکم دیتی ہے تو علاقے کے مولوی صاحب اس کارِ خیر کے لیے جان و دل سے موجود ہوتے ہیں۔
یہ بے تاج بادشاہی ملک کی حدود سے باہر بھی اُفق سے اُفق تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی ایک دو مثالیں ہمارے بزرگ کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود نے گزشتہ ہفتے اپنے مضمون ''چند ٹوٹے‘‘ میں دی ہیں۔ یہ واقعات معروف سفارت کار جناب کرامت غوری کے آنکھوں دیکھے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں ہمارے ایک معروف مذہبی رہنما نے جس طرح اپنے مدرسہ کے لیے مدد چاہی اور جس طرح اس ملک کے متعلقہ ادارے نے معذرت کی، وہ دلچسپ ہے۔ یاد رہے کہ یہ دورہ، سرکاری خرچ پر، سرکاری حیثیت سے کیا جا رہا تھا اور یہ تو دیگ کا ایک چاول ہے۔
پنجاب اسمبلی کے حقوقِ نسواں کے بل کے حوالے سے ہمارے ان معزز مذہبی رہنمائوں کا ردِ عمل غیر ضروری اور ان کی گھبراہٹ کا آئینہ دار ہے۔ مگر یہ گھبراہٹ بلا جواز ہے۔ ان کی وسیع و عریض سلطنت میں یہ بل اور اِس جیسے کئی اور بِل، ایک معمولی سا رخنہ بھی نہیں ڈال سکتے۔ کہاں ایک سربفلک فصیل جس کی چوڑائی پر کئی سوار شہسواری کر سکتے ہیں اور کہاں ایک ننھا منا تیر! خاطر جمع رکھیے کہ ناخواندگی کے سائے گہرے ہیں۔ غربت تہہ درتہہ ہے۔ عوام کی بھاری اکثریت کلامِ پاک کے معانی سے نابلد ہے۔ اس بھاری اکثریت کو پنج وقتہ نماز کے معنی تک نہیں معلوم، اور اب تو ایسے وفود کوچہ کوچہ گلی گلی شہر شہر قریہ قریہ پھر رہے ہیں اور عوام کو تلقین کر رہے ہیں کہ قرآن پاک سمجھنا تمہارا نہیں، صرف علما کام ہے۔ ایک ایک ناخواندہ خاندان میں دس دس پندرہ پندرہ بچے ہیں۔ سرکاری سکولوں کا حال یوں بھی ناگفتنی ہے۔ پرائیویٹ سکول عوام کی استطاعت سے باہر ہیں۔ اس صورتِ حال میں مستقبل دو وجوہ کی بنا پر تابناک ہے۔ اول۔ کلامِ پاک کے معانی اور دین کے مبادیات و تفصیلات سے نابلد عوام کو جو کچھ بتایا جائے گا، آمنا و صدقنا کہہ کر سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔ یوں اجارہ داری قائم رہے گی؛ چنانچہ دور دور تک کوئی خطرہ نہیں۔ دوم۔ مدارس کے لیے خام مال کی کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ مدرسہ خواہ اسلام آباد میں ہو یا لاہور میں یا کراچی میں، خام مال ان علاقوں سے مسلسل سپلائی ہوتا رہے گا جہاں ناخواندگی ہے، غربت ہے اور کثرتِ اولاد کا دور دورہ ہے۔
مولانا صاحب نے‘ جو اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ہیں‘فرمایا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا منظور کردہ بل موصول ہو گیا ہے مگر بل انگریزی میں ہے اور ابھی اس کا ترجمہ کرایا جا رہا ہے تا کہ علما اس پر غور فرما سکیں۔ علماء عالم کی جمع ہے۔ عالم کا مطلب ہے صاحبِ علم! علم میں انگریزی زبان شامل ہی نہیں۔ سید سلیمان ندوی کی مشہور کتاب ''خطباتِ مدارس‘‘ 1925ء میں شائع ہوئی۔ اس کی تمہید میں سید صاحب لکھتے ہیں...''علما پر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہو گیا ہے۔ خدا کرے وہ دن آئے جب ہمارے علما خدا کا پیغام خدا کی بنائی ہوئی ہر زبان میں دنیا کو پہنچا سکیں!‘‘سید سلیمان ندوی کی یہ رائے آج سے اکانوے سال پہلے تھی۔ تقریباً ایک صدی پہلے! اس ایک صدی کے بعد بھی ہمارے علما ترجمہ کے محتاج ہیں۔ سید صاحب مرحوم خوش بخت ہیں کہ ان کے اِس مؤقف پر کوئی فتویٰ نہیں عاید ہوا۔
جناب حافظ حسین احمد نے فرمایا ہے کہ مذہبی جماعتوں کو پسِ پشت ڈالنے پر حکومت سے علیحدگی پر غور کر سکتے ہیں۔ حافظ صاحب حاضر جوابی کے لیے مشہور ہیں۔ منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین ہیں۔ مگر گزشتہ شام ایک ٹی وی پروگرام میں ایک نوجوان اینکر کے ہاتھوں ان کی حالتِ زار دیکھی نہیں جارہی تھی۔ نوجوان اینکر کا کہنا تھا کہ جو شق بل کی‘ آپ کے خیال میں غیر اسلامی ہے، اس کا متبادل پیش کیجیے۔ مگر حافظ صاحب کیا، کوئی بھی تخصیص نہیں کر رہا کہ کون سی شق غیر اسلامی ہے۔ آخر میں اینکر کو کہنا پڑا کہ حافظ صاحب ایک ہی بات بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔
حافظ صاحب ایک طویل عرصہ اپنی جماعت سے برگشتہ خاطر رہے۔ کئی بار تو یوں لگتا تھا کہ وہ خیمہ کسی اور گوشے میں نصب کرنے والے ہیں۔ اب جو انہوں نے یہ بات کر دی ہے کہ ان کی جماعت حکومت سے علیحدگی پر غور کر سکتی ہے تو یہ پارٹی میں انہیں ایک بار پھر ''اجنبی‘‘ کا سٹیٹس دلا سکتی ہے۔ حکومت سے علیحدگی اور جے یو آئی! حافظ صاحب کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ہائوسنگ اینڈ ورکس کی وزارت۔ ان کے لیڈر کو ملنے والا پروٹوکول جس کے سامنے وفاقی وزیروں کا پروٹوکول ماند پڑ جاتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی امارت! پھر وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے اکثر و بیشتر ہائی پروفائل ملاقاتیں۔ حکومت سے علیحدگی ہوئی تو اس مال و اسباب کا کیا بنے گا؟ مگر ہو سکتا ہے حافظ صاحب نے یہ انتہائی خطرناک بات اس لیے کہہ دی ہو کہ ان کی لیڈر شپ انہیں کبھی کوئی عہدہ نہیں دیتی۔ وزارت ہو یا سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمینی یا اسلامی نظریاتی کونسل کی سرداری، اغیار ہی میں بٹ جاتی ہے۔ حکومت سے علیحدگی پر حافظ صاحب کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ سرکاری عہدہ نہ ملنے کی وجہ حافظ صاحب کی غیر معمولی ذہانت اور حاضر جوابی بھی ہو سکتی ہے۔ اس تغافل کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ زرد رُومال نہیں استعمال کرتے۔ زرد رُومال سر پر ہو یا کاندھے پر، سونے سے یعنی زر سے مشابہت رکھتا ہے۔ اسی لیے رومیؔ نے شکوہ کیا تھا ؎
آخر تو شبی رحمی نہ کنی
بر رنگِ رُخِ ہمچون زرِ من
کہ تو میرے چہرے کے سونے جیسے رنگ پر ایک رات بھی رحم نہیں کرتا۔ تو زرد رومال کی زرو مال سے قربت ہے اور ہم رنگی بھی۔آثار بتاتے ہیں کہ مولانا حضرات مستقبل قریب میں تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری ہمدردانہ اور راز دارانہ تجویز ہے کہ اس تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیوانِ حافظ پر پابندی عاید کرا دیں۔ یا کم از کم یہ گستاخ شعر نکلوا دیں ؎
واعظان کیں جلوہ برمحراب و منبر می کنند
چون بہ خلوت می روند آن کارِ دیگر می کنند
جن قارئین کو فارسی نہیں آتی، وہ اس کا مطلب کسی واعظ سے پوچھ لیں۔