کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
ابھی جو سو کے اٹھا ہوں تو کچھ نہیں موجود
زمیں کدھر گئی ہے‘ آسمان کہاں گیا ہے
آج بھی کچھ ایسا منظر تھا۔ صبح پانچ بجے آنکھ کھلی‘ چق اُٹھوائی اور کھڑکی میں سے باہر جھانکا تو نہ آسمان نظر آیا نہ زمیں۔ گہری دُھند تھی جس نے سارا کچھ چُھپا رکھا تھا۔ کافی دیر کے بعد آہستہ آہستہ دھند چھٹنے لگی تو اس دُنیائے ہست وبود کا یقین آنے لگا۔ اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ دھندلاہٹ میں چیزیں زیادہ پُر اسرار اور خوبصورت نظر آتی ہیں۔ شاید اسی لیے شاعری اور جدید مصوّری میں دھند ہی کا چلن عام ہے۔ آپ اسے تجرید بھی کہہ سکتے ہیں۔
چند روز پہلے تو یہی گمان گزرا کہ جاڑا ختم ہوا اور گرمیاں شروع ہونے والی ہیں جس کے استقبال کے لیے تیاری شروع کر دی لیکن آج پتا چلا کہ موسموں کی آنکھ مچولی تو ابھی جاری ہے۔ انتظار حسین بہت یاد آئے کہ موسم کی تبدیلی کا پتا ان کے کالم سے بھی چل جاتا تھا۔ جبکہ ہیٹر اور ایئر کنڈیشنر کی موجودگی میں تو موسم کے تبدیل ہونے کی خبرہی اس وقت ملتی تھی جب نیا موسم کم و بیش آدھا گزر چکا ہوتا تھا۔ بہرحال‘ دُھند چھٹنے کا منظر بھی ایسا ہی تھا جیسے صبح ہو رہی ہے‘ بلکہ دن نکل رہا ہے‘ اسی دوران دُھوپ چڑھ آئی ہے جیسے دھند کو اس نے کہیں گُم کر دیا ہے‘ کبھی دوبارہ نکلنے اور چھانے کے لیے جیسا کہ نئی سائنسی تھیوری کے مطابق ہر چیز آنکھوں سے اوجھل تو ہو سکتی ہے‘ ختم نہیں ہوتی اور
خلا میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے بھی اور نہیں بھی‘ اور کچھ عرصے کے بعد ماضی میں جانا بھی ممکن ہو سکے گا: ویسے بھی ‘ ماضی تو ہر وقت ہمارے ساتھ اور موجود رہتا ہے اور ہم ماضی میں کہ ماضی کے بغیر تو مستقبل کا بھی تصوّر نہیں کیا جا سکتا‘ حتیٰ کہ ہماری شاعری بھی تو نا سٹلجیا ہی کی کرشمہ سازی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہیں عرض کر چکا ہوں کہ یادداشت کا خانہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ گویا خالی ہوتا جا رہا ہے۔ لکھتے لکھتے ایک عام سا لفظ بھول جاتا ہے‘ اور ‘ اگر یاد آتا بھی ہے تو بڑی دیر کے بعد‘ اکثر اوقات تو یاد آتا ہی نہیں اور فون کر کے جُنید سے پوچھنا پڑتا ہے۔ آفتاب سے اس لیے نہیں پوچھتا کہ وہ مذاق بھی کرے گا اور میرے ''بس‘‘ ہونے کی خوشخبری بھی سنائے گا۔ پچھلے دنوں کالم لکھ رہا تھا کہ انٹر پول کا لفظ ذہن سے نکل گیا۔ جنید سے پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے جس کے ذریعے بیرون ملک سے مجرموں کو واپس لایا جاتا ہے‘ اس نے بتایا تو اگلے روز پھر بھول گیا۔ پھر فون کیا تو اس نے شرارتاً کہا کہ نہیں بتا سکتا‘ مجھے بھی بھول چکا ہے۔جُنید سے اس کے دوست اکثر پوچھتے ہیں کہ کالم میں اپنا ذکر کروانے کے لیے والد صاحب کو کتنے پیسے دیتے ہو۔ حالانکہ انہیں پوچھنا یہ چاہیے کہ اس کام کے لیتے کتنے پیسے ہو؟
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی لفظ ‘ مثلاً کسی سیاستدان کا نام‘ کوشش کرنے کے بعد بھی اگر یاد نہ آئے تو کالم میں اس کی جگہ خالی چھوڑ دیتا ہوں کہ دفتر والے خود ہی خانہ پُری کر لیں گے۔ اس لیے کالم یا شعر میں کوئی کھچ مار بیٹھوں تو قابلِ درگزر ہوں اور بُھول جانے کی یہ عادت کچھ نئی بھی نہیں۔ بہت عرصہ پہلے کا یہ شعر دیکھیے ؎
ظفر ضُعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بُھول جاتا ہوں
ابھی ابھی ٹیلیفون کے تار پر دو سبز رنگ کی چڑیاں آ کر بیٹھی ہیں۔ ہماری عام چڑیا سے ذرا چھوٹی اور طوطا رنگ ‘ لیکن چونچ طوطے جیسی نہیں ہے۔ یہ میں نے پہلی بار دیکھی ہیں اور اپنی معلومات کا یہ اضافہ آپ تک بھی منتقل کر رہا ہوں۔ نیز ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے کہ میں نے جو کچھ عر صہ پہلے لکھا تھا کہ سِٹرس کا پودا کبھی پھل پھول کے بغیر نہیں ہوتا یعنی پھل ابھی موجود ہوتا ہے تو نئے پھول بھی آنا شروع ہو جاتے ہیں توصحیح صورتِ حال یہ ہے کہ سٹرس کے نمائشی پودوں ہی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ ایک عجیب بات یہ بھی دیکھی ہے کہ گیندے کا پھول تین چار ماہ تک کھلا رہتا ہے اور ایک پودے پر ایک ہی پھول کھلتا ہے‘ اس کے بعد دونوں خشک ہو جاتے ہیں۔
اگلے روز ڈسکہ سے دو مہمانِ عزیز آ نکلے ۔ہمارے دوست منوّر نصراللہ خاں مرحوم کے صاحبزادے ‘ بڑے یعنی بابر کو اعلیٰ نسل کے کُتے پالنے کا شوق ہے‘ دونوں بھائی اپنے چار کُتوں کے ہمراہ جشن بہاراں کے ڈاگ شو میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور اس ''مقابلہ ٔ حسن‘‘ میں حسب سابق انہی کے کُتے اوّل آئے تھے۔ تین کُتے سیاہ رنگ کے تھے جو اون والی سیاہ بھیڑیں ہی لگتے تھے۔ ڈفّی بھی اُنہی نے بھجوایا تھا جب اس کی عمر چند روز ہی تھی۔ چھوٹے بھائی محمد ڈسکہ کچہری میں وکالت کرتے ہیں۔ پہلے ان کے ساتھ ان کے ایک دوست اور کولیگ ناگرا صاحب بھی آیا کرتے تھے‘ اس دفعہ جن کی کمی بہت محسوس ہوئی۔اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل ؎
بچا نہیں کوئی ہتھیار‘ جنگ جاری ہے
نہیں ہیں صُلح کے آثار‘ جنگ جاری ہے
نہ دشمنی نہ عداوت‘ مگر پتا نہیں کیوں
ہیں لوگ برسرِ پیکار‘ جنگ جاری ہے
تنازعہ ہے کوئی رنگ رنگ میووں کا
تمہارے باغ کے اُس پار، جنگ جاری ہے
طلب رسد سے زیادہ ہے‘ گرم ہے بازار
جھگڑ رہے ہیں خریدار‘ جنگ جاری ہے
وہ رن پڑا ہے کہ پسپائی ہے‘ کبھی یلغار
ٹھہر ٹھہر کے‘ لگاتار جنگ جاری ہے
لگی ہوئی ہے یہاں کوئی جان کی بازی
ہے اس کا روکنا دُشوار ‘ جنگ جاری ہے
ہماری امن پسندی کے باوجود اُن کو
جو ہے لڑائی پہ اصرار جنگ جاری ہے
نہ اس میں جیت رہا ہے نہ ہارتا ہے کوئی
ہماری آپ کی بے کار جنگ جاری ہے
لگے ہوئے ہیں کہ جب تک ‘ ظفر‘ نہیں ہوتا
محل اُمید کا مسمار‘ جنگ جاری ہے
آج کا مقطع
جو لفظ لفظ تماشہ دکھا گیا ہے ظفرؔ
تو کیا غلط ہے کہ شاعر نہیں، مداری تھا